donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mosharraf Alam Zauqi
Title :
   Malikzada Manzoor Ahmad Aur Raqse Sharar


 

ملک زادہ منظور احمد اور رقص شرر


 —مشرف عالم ذوقی


’کیا آپ ملک زادہ منظور احمد کو جانتے ہیں؟‘

’ہاں۔ کیوں نہیں۔ انہیں کون نہیں جانتا۔ وہ مشاعروں والے نا…؟‘

’نہیں۔‘

سامنے والا چونک کر میری طرف دیکھتا ہے۔

میں مسکراتا ہوا کہتا ہوں۔ ’رقص شرر والے…‘

’اچھا… وہ… خود نوشت… ؟‘

نہیں۔ ناول… ایک بہترین ناول… اردو کے بڑے اور شاندار ناولوں میں ایک غیر معمولی ناول کا

اضافہ…‘

’لیکن وہ تو…‘

حقیقت یہ ہے کہ رقص شرر (۵۸۰ صفحات) کے مطالعہ کے بعد ایک ایسی حیران کرنے والی دنیا میں ہوں، جہاں سے باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ رقص شرر خود نوشت ہے لیکن ایک مکمل ناول کہنے میں، میں ذرا بھی مبالغہ سے کام نہیں لے رہا۔ ایک ناول پرت در پرت زندگی یا ہزاروں واقعات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک کردار آتے اور جاتے ہیں۔ یہ کردار بھی ہماری اور آپ کی زندگی سے ہی طلوع اورغروب ہوتے ہیں۔ ناول نگار کسی کردار پر مسکراتا ہے اور کسی کردار کو موت کے حوالہ کرتے ہوئے سوسو آنسو بھی بہانے پر مجبور ہوتا ہے۔ دنیا کا بڑا سے بڑا ناول اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ ہر ناول میں کہیں نہ کہیں ناول نگار کی زندگی کا عکس تو مل ہی جائے گا۔ جیمس جوائز کا ڈبلنر ہو، آ رکے نارائن کا مال گڈی ڈیز (کہانیاں) یا پھر مارخیز ، نجیب محفوظ اور اوہان پامک کے ناول پڑھ لیجئے۔ رقص شرر میں ایک حیران کرنے والی دنیا آباد ہے۔ یہ خود نوشت ضرور ہے مگر اس میں ایک شاہکار ناول کے مطالعہ جیسا ذائقہ بھی موجود ہے۔ یہ کتاب داستان امیر حمزہ یا طلسم ہوشربا کی یاد تازہ کراتی ہے کہ پڑھیے تو ایسے ایسے کردار آپ کے سامنے ہوا میں معلق ہوجائیں گے آپ مطلق یقین کرنے پر آمادہ نہ ہوںگے کہ کبھی ان کے دم سے ادب کی بستیاں آباد تھیں۔ یہاں نہرو جی بھی ہیں اور فراق بھی۔ شبلی کالج بھی ہے۔ نکہت کلب کے ہنگامے بھی۔ شب برأت کے حلوے اور آتش بازیاں بھی ہیں، غلام ہندوستان اورآزادی کے بعد کے معرکے بھی۔ یہاں سماج اور مذہب بھی ہے اور گہری سیاسی نظر بھی۔ اورزبان ایسی کہ آب کوثر سے دھلی ہوئی، ایسی رواں دواں کہ آپ پڑھتے جائیے اور زندگی سے سیاست تک نئی حقیقتیں برہنہ ہوکر آپ کے سامنے آتی جائیں گی۔ عبدالحلیم شرر کے بعد لکھنؤ کی تہذیب اورزبان کی چاشنی دیکھنی ہوتو رقص شرر کا مطالعہ کیجئے۔ منظر نگاری ایسی کہ قربان جائیے، ایک ایک منظر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوگا۔ جیسے آنکھوں کے پردے پر کوئی فلم چل رہی ہو۔ 


’’محرم گورکھپور میں بڑی دھوم دھام اور شان وشوکت کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ محلہ کے چوک پر بقرعید کے بعد ہی سے ہر جمعرات کو ڈھول تاشہ اور جھانجھر بجائی جاتی۔ پہلی محرم سے علم نکلنا شروع ہوتا۔ یہ عَلم بہت ہی خوبصورت کاغذ کے پھولوں اور شیشوں کے قمقموں اورقلموں سے بنائے جاتے اور اسے مقامی اصطلاح میں علم کے بجائے سدہ کہاجاتا۔ پرانے سدّوں کے بانس جو مسجد کی چھت میں ٹنگے رہتے تھے، نکالے جاتے۔ ان کے اوپر نیا کپڑا لپیٹا جاتا۔ اوپری سرے پر چمکدار تلواریں لگائی جاتیں اور اس کے نیچے ٹوکری جیسی شکل بنا کر کاغذ کے رنگین پھولوں اورقمقموں سے سجایا جاتا۔ لڑکے، نوجوان اور بوڑھے بنوٹ کے کرشمے دکھاتے۔ جلتی ہوئی مشعلیں ساتھ ہوتیں۔ میاں صاحب کے امام باڑے میں پہلی محرم سے چراغاں ہوتا۔ سونے اور چاندی کے تعزیے جو سال بھر مقفل رہتے زیارت کے لیے کھول دیے جاتے۔ سوز خوانی، اور مرثیہ خوانی ہوتی، مجلس برپا ہوتی اور سیاہ کپڑوں میں ملبوس لکھنؤ کے منن شاہ وارثی جن کی سرمہ کی دکان مہیلا کالج سے ذرا آگے مولوی گنج کی ’’مسجد خواص‘‘ کے پاس تھی، ذکرِ حسین کرتے۔ میاں صاحب جواد علی شاہ کا جلوس پانچویں، ساتویں نویں اوردسویں محرم کو نکلتا۔ ہاتھی گھوڑے، فوج، اونٹ، تلواروں اور بندوقوں کے درمیان جواد علی شاہ احرام سے ملتا جلتا سفید لباس پہنے ہوئے آہستہ خرامی سے پیدل، علامتی انداز میں ہلکا پھلکا ماتم کرتے ہوئے آگے بڑھتے۔ پورے شہر کا ہجوم ان راستوں پر اکٹھا ہوجاتا جدھر سے جلوس گزرتا۔‘‘

ایک اور مثال دیکھئے۔

’’گائوں کا تالاب بہت بڑا اورمیلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے ایک کنارے پر ایک بلی کی قبر تھی اور عرف عام میں اسے ’’بی بی بلائی‘‘ کی قبر کہا جاتا تھا۔ روایت یہ مشہور تھی کہ مخدوم صاحب کے خانقاہ کے سامنے ایک پیڑ کے نیچے کڑھائی میں دودھ ابالا جارہا تھا کہ ایک سانپ پیڑ سے اس میں گر کر مر گیا اور دودھ کے ساتھ ابلتا رہا۔ اس واقعہ کو مخدوم صاحب کی پالی ہوئی بلی دیکھ رہی تھی۔ جب اس دودھ کو انڈیل کر مخدوم صاحب اور ان کے رفقاء نے پینا چاہا تو بلی پہلے تو بہت چیخی چلائی مگر جب اس سے بھی لوگوں کو سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے چھلانگ لگائی اور کھولتے ہوئے دودھ میں کود گئی۔ نتیجہ میں دودھ پھینکا گیا اور اس میں ابلا سانپ برآمد ہوا۔ بلی کی قبر تالاب کے کنارے بنی ہوئی ہے— عقیدت مند کبھی کبھی وہاں آکر بھی نذرونیاز کر جاتے ہیں۔ ‘‘

کچھ لوگ پیدا ہوتے ہی کہانیوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ملک زادہ منظور احمدکے تعاقب میں کہانیاں چلتی رہتی ہیں۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ ملک زادہ کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ انہوں نے شاعری کی تو اعلی پیمانے پر کی۔ مشاعروں کی نظامت کی تو ایک ایسا نام بن کر ابھرے کہ ساری دنیا اس آواز اور اس لہجہ پر قربان ہوگئی۔ اور ایک وقت تھا جب مشاعروں کی کامیابی کے لیے ملک زادہ کا نام ہی کامیابی کی ضمانت ہوتا تھا۔ مگر یہ ہماری ادبی سیاست کا تاریک پہلو ہے کہ آپ کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے تو آپ کے روشن پہلو پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مشاعروں اورنظامت کے تعلق سے اس نام کو یوں ہوا دی گئی کہ ملک زادہ منظور احمد کی شاعری دب کر رہ گئی۔ جب کہ اس شاعری میں غالب کی اٹھان بھی ہے۔ اور جمیل مظہری جیسا سبک لہجہ بھی، یہاں فکرو خیال کی گہرائی بھی ہے اور زندگی کو نئے فلسفوں کی روشنی میں دیکھنے کی آہٹ بھی۔ وہ کمال کے نثر نگار ہیں۔ جملے تراشنے میں ماہر۔ وہ ایک ماہر صناع کی طرح الفاظ کو پیکر میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں اور یہی صناعی اور لفظوں کی کاریگری رقص شرر میں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہے۔ 

’’یہ سچ ہے کہ میرا کوئی تعلق ابتدا ہی سے اپنے آبائی مکان کے ساتھ نہیں رہا ہے پھر بھی مجھے اس سے محبت ہے اور اس گرے پڑے گھر میں شہر کے مکانات سے زیادہ سکون محسوس کرتاہوں۔ اور جب وہاں پہنچتا ہوں تو وہ گڑا پڑا مکان میرے ماضی کی نہ جانے کتنی داستانیں مجھے سناتا ہے اور میں یہ نہیں بھول سکا ہوں کہ ماضی کی اسی خاک سے اٹھ کر میں نے اپنا حال تعمیر کیا ہے۔ ‘‘

ماضی کی خاک سے اپنا حال تعمیر کرنے والے ملک زادہ کی زندگی کی یہ داستان حزن وملال سے الگ، زندگی کے اس رنگ کو پیش کرتی ہے جس کے بارے میں ایک دانشور نے کہا ہے کہ زندگی حسین ہے مگر ان کے لیے جو جینا جانتے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ملک زادہ جینے کے طلسم سے واقف ہیں۔ اس لیے مشکل حالات میں بھی وہ شکست قبول نہیں کرتے اور شکست کی ناکامیوں کو بھی کامیابی میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ زندگی کاسفر، ہجرتوں کا سفر، مشاعروں کا سفر، سیاست کا سفر اور غور کیجئے تو ہر جگہ وہ چٹان جیسے حوصلہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ۸۰ سال کی اس زندگی میں وہ مجھے ارنیسٹ ہیمنگ وے کے اس بوڑھے کی طرح نظر آتے ہیں جو سمندر سے جنگ لڑنا جانتا ہے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ انسان ہمیشہ سے فاتح رہا ہے۔ اور ایک مضبوط انسان اپنی تقدیر خود لکھنا جانتا ہے۔

ماضی کی خاک سے اپنا حال تعمیر کرنے والے ملک زادہ کی یہ خود نوشت دراصل زندگی اور حقیقت کا ایسا اشاریہ ہے جہاں گھن گرج کرنے والی سمندری لہروں کو شکست ملتی ہے اور یہیں سے اس ناول کی شروعات ہوتی ہے جس کا پہلا صفحہ ضلع فیض آباد، درگاہ کچھوچھہ شریف کے متصل بھدہنٹر کے نام سے موسوم ہے…

کتاب میں کئی مقام ایسے ہیں جہاں تلخ حقیقتوں سے سامنا ہوتا ہے۔ لیکن سچ لکھنا سب کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ممکن ہے راست گوئی کا یہ انداز خلیق انجم اور بشیر بدر جیسے شاعروں اور ادیبوں کو پسند نہ آئے۔ میں زہرہلال کو کبھی کہہ نہ سکا قند، کے مصداق ملک زادہ نے کہیں بھی مصلحت کا راستہ نہیں اپنایا۔ وہ اپنی سرزنش اور الزامات سے بھی نہیں گھبرانے۔ اس لیے سماج وادی پارٹی میں شمولیت ہو یا بی اس پی سے وابستگی اور بعد میں کانشی رام کے خیالات کو جانتے ہوئے بسپا سے فاصلہ رکھنے کا فیصلہ، ملک زادہ نے کہیں محتاط رویہ نہیں اپنایا۔ انداز بیان میں ریڈیبلیٹی ایسی کہ آپ پڑھتے جائیے، معاشرہ اور سیاست کا گندہ چہرہ ہر مقام پر بے نقاب ہوتا ہوامحسوس ہوگا۔

۵۸۰ صفحات پر مشتمل اس آپ بیتی میں بیشتر واقعے ایسے ہیں جو ہمیں اچانک فکر کے مقام پر لے آتے ہیں۔ ایسے دو دلچسپ واقعہ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ملک زادہ کی زمین پر دین محمد نام کے آدمی نے قبضہ کرلیا تھا۔ ملک زادہ اس سے ملنے فیض آباد سے ٹانڈہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں جب وہ دین محمد کے گھر پہنچتے ہیں تو وہاں شراب اور شباب کا ماحول تھا۔ دین محمد ایک بدمعاش آدمی تھا ملک زادہ اس سے کہتے ہیں کہ وہ زمین خالی کردے تاکہ وہ یہاں مکان بنا سکیں۔ دین محمد خالی نہیں کرتا۔ ملک زادہ اس پر مقدمہ کرتے ہیں۔ اب ذراآگے کی تفصیلات خود ملک زادہ سے سنیے۔

’’مقدمہ کی سماعت کی پہلی تاریخ پڑی میں البداد پور سے یکہ پر سوار ہوکر اکبر پور کے لیے روانہ ہوا۔ جب دین محمد کے پاس سے گزرا تو یکہ روک کر میں نے سڑک سے گرجدار آواز لگائی۔
’’دین محمد، آج مقدمہ کی پہلی تاریخ ہے۔ کیافیض آباد نہیں چلوگے؟ آئو یکہ پر بیٹھو۔ ساتھ ہی چلیں گے۔‘‘ میری یہ پیشکش اس کے لیے عجیب وغریب تھی۔ میں نے اس پر مقدمہ بھی دائر کیا ہے اور ساتھ لے جانے کے لیے بھی کہہ رہا ہوں۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا اور وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے یکہ پر بیٹھ گیا۔

’’دین محمد، دیکھومقدمہ کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ہم دونوں کو ماننا پڑے گا اس لیے ہم اپنے آپس کے تعلقات کیوں خراب کریں۔ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔‘‘

غور کیجئے تو اس واقعہ کی روشنی میں ایک مضبوط شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ایک ایماندار، مستقل مزاج اور خود اعتماد سے بھرے انسان کا چہرہ نظر آتا ہے۔ ایک دوسرے واقعہ میں یہ خود اعتمادی اچانک گم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ دیوداس جیسی فلموں کے عاشق اور کالج گرل جیسے ناول کے خالق ملک زادہ کی زندگی میں کیا کوئی ایسی خوشبو داخل نہیں ہوئی جہاں محبت کے رنگ بھی شامل ہوں— کالج میں پڑھنے والی ایک لڑکی اپنے استاد ملک زادہ پر عاشق ہوئی اور ایک کاپی چھوڑ جاتی ہے۔ 

’’اس نے مجھے اپنی کاپی دے دی اور میں کلاس روم سے نکل کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میں نے مضمون پڑھنا شروع کیا۔ دو تین صفحات تک غالب کی شاعری پر اچھا خاصا مضمون تھا۔ مگر یکایک نہ تو پیرا گراف تبدیل ہوا، نہ ہی کوئی اقتباس شروع ہوا، چندبے ربط اور غیر متعلق جملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 

’’سر مجھے نیند نہیں آتی۔ آپ نے مجھے پریشان کررکھا ہے۔ جب بھی پڑھنے کے لیے کتاب کھولتی ہوں ، سطروں کے درمیان سے آپ کا چہرہ ابھرتا ہے۔ میں بالکل اسٹڈی نہیں کر پارہی ہوں۔ مجھے آپ کی آواز بہت اچھی لگتی ہے۔ میں کیا کروں میں فیل ہوجائوں گی۔‘‘

لڑکی تیسری بار ملک زادہ سے ملتی ہے تو اسے جواب ملتا ہے…

’’’’سر کیا آپ نے میرا مضمون دیکھ لیا؟‘‘

میں نے اپنے چہرے پر رعب اور غصے کے آثار پیدا کیے۔ ’’آپ ذہین اور سمجھدار لڑکی ہیں۔ میں آپ سے کھل کر گفتگو کروں گا یا اشارے کنائے میں اپنی بات سمجھائوں۔‘‘ میں نے قدرے کھردرے انداز میں کہا۔

’’جیسی آپ کی مرضی۔‘‘ اس کا سہما ہوا جواب تھا۔

’’اس کہانی کا عنوان یہیں پر ختم ہوجانا چاہئے۔ اگر آپ نے دوبارہ اس طرح کی کوئی حرکت کی، تو میں آپ کی کاپی آپ کے والدین کو بھیج دوں گا اور یونیورسٹی سے آپ کو نکلوادوں گا۔‘‘ میں نے کرخت انداز میں کہا۔ ’’آپ جا سکتی ہیں۔‘‘

میں نے کاپی اس کی جانب پھینک دی۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو کے قطرے جھلملانے لگے۔ اس نے کاپی سمیٹی اور سر جھکائے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔لو کے جھکڑ چل رہے تھے اور مئی کا جلاد سورج زمین پر آگ برسا رہا تھا۔ میں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔ سر پر دو پٹہ تھا مگر گرم ہوا کے تھپیڑوں سے اس کی زلفیں اس کے چہرے پر بکھر رہی تھیں۔‘‘

مجھے یقین ہے ملک زادہ صاحب اس مقام پر اپنے قاری کو فریب دے گئے۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہوا ہوگا۔ نفسیاتی تجزیہ آسان ہے کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود ۵۸۰ صفحات کی اس کتاب میں جہاں کتاب عشق کا کوئی باب نہیں ہے، آخریہ واقعہ کیوں درج ہوا تو اس کا آسان سا جوا ب ہے، وہ لڑکی حافظہ میں اب بھی کہیں محفوظ ہے— رشتے اور گھر میں تقسیم ہوتے ہوئے آخر وہ کسی بندشیں ہوتی ہیں جہاں ہم حقیقت کی چشم پوشی کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کتاب اگر نامکمل ہے تو صرف اس لیے کہ ملک زادہ صاحب نے اپنے سفر کی داستان کو قلمبند کرتے ہوئے عشق ومحبت کے صفحات کو نظر انداز کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ خود نوشت اردو ادب میں گرانقدر اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

اور آخر میں— بجلیوں کے رقص کے درمیان میری آنکھوں کے پردے پر وہ چہرہ طلوع ہوتا ہے…

’وہ کاپی ابھی بھی میرے پاس ہے…‘

’’لیکن کیوں؟‘

’پتہ نہیں۔‘ اس چہرے کی آنکھوں میں لرزش ہے… کیوں ہوتی ہیں معاشرہ کی بندشیں…؟ شرافت کا یہ کیسا معیار ہے کہ کچھ لوگ محبت کے سچ کو بھی قبول نہیںکرتے…‘

’ممکن ہے۔ وہاں محبت نہیں ہو… عمر کا فاصلہ بھی رہا ہو…‘ 

آنکھوں میں کانپتا ہوا سوال ٹھہر جاتا ہے… محبت عمر کیوں دیکھتی ہے صاحب…؟‘

بجلیوں کا رقص خاموش ہے۔ میرے پاس اس سوال کاکوئی جواب نہیں۔

 
ملک زادہ منظور احمد کا فون نمبر۔ 08009806962
zauqui2005@gmail.com

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 635