donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rashid Jamal Faruqui
Title :
   Khalid Mahmood Sher Chiragh Ki Raushni Me

خالد محمود’’شعر چراغ‘‘ کی روشنی میں

 

راشد جمال فاروقی

 

    تدریس، تنقید، تقریر، تحقیق، خاکے، انشائیے، تراجم، اداریے درسی کتب تیار کرنے کی مہارت، تنظیمی صلاحیتوں کے مظاہرے، یاروں سے یاری اور سچی سچی شاعری کی اس تمہید کے پیچھے چھپی جاذب نظر شخصیت تک پہنچنے میں اہلِ نظر کو دھوکا نہیں ہوتا اور وہ فوراً پروفیسر خالد محمود کو پہچان لیتے ہیں۔ ایمانداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس نابغہ روزگار شخصیت کے ان تمام پہلوئوں پر تفصیلی بحث ہو، اس لیے بھی کہ صارفیت کے اس عبرتناک دور میں جب تقریباً ہر اردو ادیب یا شاعر دم توڑتی ہوئی اردو کے پلنگ سے لگا بیٹھا ہے اور اپنے حق میں وصیت لکھوانے کے لیے کاغذ قلم تیار ہے، اسے اردو کی بچی ہوئی سانسوں کو آکسیجن دینے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ایسے پیغمبری وقت میں اردو پر بے دریغ خرچ کرتے ہوئے اگر کسی کو دیکھنا ہو تو خالد محمود کو دیکھے۔ خیر بات کہیں سے کہیں جانکلی۔

    آج ہم پروفیسر خالد محمود کے دوسرے شعری مجموعے ’’شعر چراغ‘‘کی روشنی سے فیضیاب ہونے کی حسبِ توفیق کوشش کریں گے۔ 1982 میں خالد محمود کا اوّلین شعری مجموعہ ’’سمندر آشنا‘‘ منظر عام میں آکر قبول عام خواص کی سند سے سرفراز ہوا۔ ’’سمندر آشنا‘‘ کی شاعری خیال کی لطافت اور جذبے کی طہارت سے عبارت ہے۔اقبال مسعود اور ڈاکٹر احمد محفوظ کو خالد محمود کے استعاروں میں ندرت نظر آئی تو نئے حوصلوں کے ساتھ 2001 میں وہ ’’شعرچراغ‘‘لے کر اندھیروں سے لڑنے نکل پڑے ۔ قارئین غلط فہمی کاشکار نہ ہوں کہ یہ اندھیرے ترقی پسندوں والے اندھیرے نہیں نہ وہ خود ہی کامریڈہیں۔ خیر اور شرکا معرکہ ہمیشہ سے ہے اور رہے گا لیکن یہاں سفید منظر کو خالد محمود نے اپنی ذات میں جذب کرکے دھیمے لہجے میں نرم الفاظ میں اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ اظہار پر ان کی قدرت ایسی ہے کہ گنجلک اور پیچیدہ سی بات کو چٹکی بجاتے شعری پیکر میں ڈھال دیتے ہیں:

میں اپنے گھر کے اندر چین سے ہوں
کسی شئے کی فراوانی نہیں ہے

    اسعد بدایونی کو اس شعر میں جدید صوفیانہ طرزِ اظہار کی جھلک یونہی نہیں دکھائی دی تھی۔ جو لوگ شخصی طور پر خالد محمود سے واقف ہیں انھیں معلوم ہے کہ وہ اپنی فطری قناعت پسندی اور صبر و فقر کی وجہ سے تمام مادّی وسائل کے درمیان بھی مزے میں ہیں۔ یہ وسائل ان کے لیے Status Symbolنہیں بن سکے نہ وہ ان کے قیدی ہوئے ۔خالد محمود کے مزاج کو آئینہ کرتا ہوا ایک اور شعر  :

ہر کس و ناکس پہ کر لیتا ہے فوراً اعتبار
بے خبر کتنا ہے خالد باخبر ہوتے ہوئے

    یہ اشعار خالد محمود کے بے خبر ہونے کی خبر دیتے ہیں۔ لیکن وہ نہ صرف باخبر بلکہ باعلم باہوش دانشور ہیں۔ کھلی آنکھوں سے دنیا دیکھ رہیں گے۔لہٰذا کچھ اشعار ان کے گہرے مشاہدے کے ثبوت میں بھی :

قرض تھا اُس پر مرا حسن سلوک
یہ اُسی کا تیر ہونا چاہیے

برائے تشنہ لب پانی نہیں ہے
سمندر کا کوئی ثانی نہیں ہے

نصف دنیا بھوک سے اور پیاس سے مغلوب ہے
دستِ و بازو ذہن و دل لعل و گوہر ہوتے ہوئے

جو ہو سکے تو اسے مجھ سے دور ہی رکھیے
وہ شخص مجھ پہ بڑا اعتبار کرتا ہے

شاید کہ مر گیا مرے اندر کا آدمی
آنکھیں دکھا رہا ہے برابر کا آدمی

سورج ستارے کوہ و سمندر فلک زمیں
سب ایک کرچکا ہے یہ گزبھر کا آدمی

زندگی کے لطف کی فرصت کہاں سے لائیں گے
وقت جب جینے کا آئے گا تو ہم مرجائیں گے

گر یہی بے فرضی رہی قائم رہی تو دیکھنا
ہم بھی خالد اپنے گھر میں اجنبی بن جائیں گے

    یہ اشعار قاری کو غور وفکر کی گہرائیوں میں اُتارنے کا کام کرتے ہیں۔ کسی نتیجے پر پہنچا کر دم لیتے ہیں اور کائنات کے وسیع تر تناظر تک رسائی میں ہمارے مددگار ہوتے ہیں کہ ہم اپنے حسنِ سلوک کے جواب میں آنے والے متوقع تیر سے باخبر رہیں  اور بچنے کی جگت کرسکیں۔ حیرت زدہ ہوں بنی نوع انسان کے مصائب کسی بھی حسّاس شاعر کو بے چین ہی رکھتے ہیں۔ خالد محمود کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ بے شمار دست و بازو ذہن و دل اور لعل و گوہر کے باوجود دنیا آسودہ کیوں نہیں ہے۔ انھیں سمندر کی بخیلی پر افسوس ہے لیکن ایک لطیف سے طنز کا سہارا لے کر وہ اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ دوسری طرف وہ خود اپنی بے بسی پر متاسف ہیں کہ جب جدوجہد کے بعد کچھ جینے کے سے حالات بنتے ہیں، کچھ سلیقے سے جینے کا فن آتا ہے تو واپسی کا وقت بھی آچکا ہوتا ہے۔ انھیں اعتراف ہے کہ یہ گزبھر کا آدمی زمین آسمان ایک کرچکا ہے لیکن اس تگ و دو میں فرصتیں کھو بیٹھا ہے اور اپنوں سے مسلسل دور ہو رہا ہے۔ خالد محمود چونکہ صالح کردار کے مالک ہیں۔ لہٰذا ان کے اشعار میں ان کا اپنا عکس دکھائی دینا لازمی تھا۔انھیں یہ فکر بھی لاحق ہے کہ ان پر اعتبار کرنے کا بھرم باقی رہ جائے۔ خالد محمود کے ان اشعار نے عصری غزل میں اپنا مقام محفوظ کر لیا ہے۔ ان کی غزل اکہری نہیں ہے۔ ا س کی پرتوں میں رنگا رنگی پوشیدہ ہے۔آئیے چند اشعار ایسے بھی ملاحظ فرمالیں جہاں شاعر کی شوخی، ظرافت، لطیف طنز اور ان کے اپنے بے ریا مزاج کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان اشعار کے تیور غزل کے عام روّیے سے قدرے مختلف ہیں۔

ہر چیز چکھ رہے ہیں مگر تھوکتے بھی ہیں
بگڑا ہواہے ذائقہ ان کی زبان کا

مجھے آتا ہے انگلی موڑ لینا
مگر برتن کے اندر گھی نہیں ہے

بات میں تاثیر ممکن کیوں نہیں
ہاتھ میں شمشیر ہونی چاہیے

کہانی یہ تھی کہ سب ساتھ مل کے رہتے ہیں
پھر اس کے بعد اچانک سماں بدلتا ہے

اُجالا نفی ہے جب اُس نے کہا
اندھیرے میں تھے ہم نے باور کیا

کام دلّی کے سوا ہوتے نہیں
اور ناہنجار دلّی دور ہے

میں صرف ٹیلی فون کا احسان مند ہوں
ان کا پیام بادِ صبا نے نہیں دیا

جھپٹتے ہیں جھپٹنے کے لیے پرواز کرتے ہیں
کبوتر بھی وہی کرنے لگے جو باز کرتے ہیں

لہجہ وہجہ شوخی ووخی سارے ان کے کھیل
دونوں شاطر دونوں پُرفن اک غالبؔ اک میرؔ

باقی ہیں دنیا میں جب تک دونوں کے دیوان
ہر سچے شاعر کی الجھن اک غالبؔ اک میرؔ

ابھی دھوپ خالدؔ پہ آئی نہ تھی
کہ دیوار دیوار چلنے لگا

    یہ اشعار غزل کی حبس زدہ کوٹھری میں کھلنے والی خوشگوار کھڑکی کے مانند ہیں۔ میرا خیال ہے کہ خالد محمود کو اپنا لہجہ ان ہی اشعار میں تلاش کرنا چاہیے کہ قاری کی تازگی اور بشاشت قائم رہے اور ان کی ندرت بھی بنی رہے۔ حسن و عشق کے تذکروں کے بغیر غزل غزل کہاں ہوتی ہے تو آئیے خالد محمود کے عشق کی پڑتال بھی ہوجائے۔ یہ اشعار پرھیے اور منفرد تازگی کا لطف لیجیے:

ذرا سنبھال اسے ڈوب ڈوب جاتا ہوں
یہ تیری آنکھ کا قطرہ مجھے سمندر ہے

چراتا ہے وہ پہلے نیند پھر شوخی سے کہتا ہے
یہ شب بھر جاگتے رہتے ہو سویا کیوں نہیں کرتے

یہی دل مرجعِ خوبانِ عالم
اسی پر ہے گزر اوقات اپنی

مہکتا آرہا ہے چاند چھت پر
دہکتی جارہی ہے رات اپنی

ہم اس کی راہ میں آنکھیں بچھاکے دیکھ چکے
مگر وہ جان کا دشمن کہاں بدلتا ہے

ہر اک فیصلہ اس نے بہتر کیا
مجھے آنکھ دی تم کو منظر کیا

ایک دھبہ نہیں ہے دامن پر
دستِ قاتل میں کیا صفائی ہے

گل کو دیکھا تو ناز سے بولے
میری جیسی ہی شکل پائی ہے

لگے ہیں پھول پھل ان کے بدن میں
ہیں ساری لڑکیاں باغات والی

پھولنے پھلنے سے ہر ڈالی نہیں جھکتی کہ آپ
سرو کی مانند ہیں شاخِ ثمر ہوتے ہوئے

سارے اعضا نے سنبھالی ہے اشارت کی کمان
اب کہیں ذکر نہیں ہے تری انگڑائی کا

اسے دیکھیں تو ساحل توڑنے لگتی ہے موجِ خوں
نہیں دیکھیں تو جائیں بھی کہاں مہتاب سے بچ کے

یہ دل کی گفتگو میں کون سا قضیہ نکل آیا
کہ ہنستی کھیلتی آنکھوں سے اک دریا نکل آیا

کوہِ گراں کے سامنے تیشے کی کیا بساط
عہدِ جنوں میں ساری شرارت لہو کی تھی

آدم سے آج تک کی حکایات ایک ہیں
آغوشِ آرزو میں جو اک یار تھا سو ہے

شبِ فرقت اگر یہ ہے کہ شب کاٹے نہیں کٹتی
تو ساری زندگی ہم نے اسی شب میں گزاری ہے

دیکھی جب اس مکان کی کھڑکی کھلی ہوئی
اک دستِ ناز یاد کا شانہ دبا گیا

سیکھا ہے اس نے اب کے نیا طور قہقہہ
کہیے اگر یہ کیا ہے تو اک اور قہقہہ

    میرا خیال ہے کہ حسن و عشق کے متعلقات سے خالدمحمود خوب واقف ہیں اگرچہ ان کی غزلیں عصری مسائل پرزیادہ فوکس کرتی ہیں ۔ حسن و عشق کے معاملات نسبتاً ان کی نظموں میں شدت کے ساتھ ابھرے ہیں۔ مثلاً ’’شہکار‘‘ ایک جذباتی نظم ہے جس میں ایک پری پیکر کا سراپا بیان کیا گیا ہے۔ ’’مرا بس چلے تو‘‘ ایک رومانی نظم ہے جس میں شاعر ہر لڑکی میں اپنے محبوب کے نقوش تلاش کرتا ہے۔ نظم ’’گوری‘‘ غنائیت، موسیقیت، برجستگی اور شاعرانہ والہانہ پن کی بہترین مثال ہے۔’’جھولا‘‘ پڑھتے ہوئے مجھے نظیر اکبرآبادی یاد آتے رہے:

پھولوں کی زیارت کو چلے آتے ہیں بادل
کاندھے پہ ہوائوں کے اڑے جاتے ہیں بادل

بل کھاتے ہیں لہراتے ہیں اٹھلاتے ہیں بادل
بادل ہیں کہ خوشیوں کے علم جھول رہے ہیں

اندازِ بہاراں کی قسم جھول رہے ہیں

    ’’شعر چراغ‘‘ میں غزلوں کے علاوہ چند نظمیں، گیت، سہرے اور رخصتی بھی شامل ہیں۔’’ معلم‘‘ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا میں معلم کے مثبت کردار کو تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ ’’چھ دسمبر‘‘ اتنی دلگیر نظم ہے کہ قرۃالعین حیدر جیسی خودبین ادیبہ کے الفاظ میں ’’6دسمبر‘‘ اس لرزہ خیز واقعہ پر لکھی گئی نظموں میں ایک جاں سوز اضافہ ہے‘‘ ۔ کسی دوست کے سانحہ ارتحال پر ’’صیاد کے ہم نفس‘‘ آنسوئوں سے لکھی ہوئی نظم ہے۔ نظم ’’پتھر‘‘ خالدمحمود کے تخیل، وجدان اور تخلیقیت کے وفور کی شاہ کار نظم ہے جس میں مورتی کا روپ لیے ہوئے پتھر۔ چاند سے آئے پتھر۔ بے حس و حرکت پتھر نما انسان اور سنگِ اسود کا بیان آبشار کا سا سماں پیدا کرتا ہے۔ نظم ’’زاویے‘‘ میں مالوے کی خاموش رات میں پانی پر منعکس چاند کے انیک روپ دیکھنے کو ملتے ہیں جھیل میں ٹھہرا چاند کرشن معلوم ہوتا ہے تو تارے گوپیاں۔ کبھی چاند ساقی دکھائی دیتا ہے اور ستارے رِند و میکش۔ کبھی چاند راجہ اندر معلوم ہوتا ہے اور ستارے پریوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ چاند دلہن اور تارے دلہن کی سہیلیاں تو کبھی چاند دولہا اور ستارے باراتی اور یہ سلسلہ دور تک دیر تک جاری رہتا ہے اور جاری رہتا ہے طلسم زبان و بیان کا۔ آخرش قاری مبہوت ہوکر اس منظر میں کھوجاتا ہے۔ سہروں میں بھی بلا کی روانی اور جادوبیانی کا حسن سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ نمونے کے طور پر محمد نعمان کی شادی پر سہرے کا ایک شعر:

سہرے پہ اس طرح سے ہے قبضہ گلاب کا
جیسے ازل سے تھا یہی منشا گلاب کا

    ایک عزیزہ کی رخصتی کا ایک بند ملاحظہ کیجیے اور موتی جیسے آبدار الفاظ کی کاریگری کی داد دیجیے:

رخصتی نایاب گوہر رخصتی جانِ پدر
رخصتی انمول ہیرے رخصتی لختِ جگر

رخصتی شمعِ فروزاں رخصتی نورِ سحر
رخصتی اے خوبصورت خوب سیرت خوب تر

    خالدمحمود کی بظاہر ہشاش بشاش اور باغ و بہار شخصیت کا ایک اور پہلو ان کی غزل سے منکشف ہوتا ہے۔ اچھا ہے کہ غزل پردے میں رہ کر پردے کے پیچھے کی باتیں کہنے کا ہنر رکھتی ہے ورنہ ہمیں آدھی  ادھوری معلومات پر اکتفا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ جانِ محفل اندر سے ہمیں اپنے ایک اور تجربے میں شریک کرتا ہے۔ وہ کیا ہے آئیے یہ بھی جان لیں:

میں اس مزار میں ہر شام دفن ہوتا ہوں
زمانے بھر کو جو بستر دکھائی دیتا ہے

بستر پہ ڈال دیتا ہوں ٹوٹا ہوا بدن
پھر کروٹوں سے جوڑتا رہتا ہوں رات بھر

شب کی اندھیری کوکھ سے نکلو مری طرح
سورج غریب کا بھی مکاں بے چراغ تھا

    قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے خالد محمود کی پہچان ان بلیغ الفاظ میں کرائی ہے۔ ’’وہ شر کی بجائے خیر، یاسیت کی بجائے آرزو مندی، سائے کی بجائے روشنی، موت کی بجائے زندگی اور اس کی تمام ایجابی مثبت اور صالح اقدار کی سرفرازی کے خواہاں ان کے نقیب اور علم بردار ہیں‘‘۔ میرے خیال میں یہ خالدمحمود کی پوری شخصیت کی جامع تعریف ہے اور یہی تمام اوصاف ان کی شخصیت کے آئینے یعنی ان کی شاعری میں بھی در آئے ہیں لہٰذا ہمیں بجاطور پر ان کے تیسرے شعری مجموعے کا شدت سے انتظار رہے گا۔

 موبائل:09456753096


**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 552