donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rayeesuddin Rayees
Title :
   Sahebe Aslob Afsana Nigar : Haneef Syed

’’صاحبِ اسلوب افسانہ نگار:’’ حنیف سیّد


 رئیس اُلدین رئیسؔ  

    شاعری کے مقابلے میںا فسانہ نگاری زیادہ دقت طلب اور مشکل کام ہے۔ اپنے اِس مطمع نظراور موقف پر میں کل بھی مصر تھااور آج بھی قائم ہوں۔کیوں کہ میری یہ منطق سوفیصددرست ہے کہ شاعرخارجی حقائق اور عصری آگہی سے نابلد ہونے کے باوجود اپنے ذاتی کوائف اورکیفیات اور غم خوشی کے تجربات وقلبی واردات کو بحرووزن اور ردیف قافیہ کی معاونت واستعانت کے بل پر بہ آسانی شعر کا پیکر عطا کرسکتاہے ،جب کہ ایک افسانہ نگار اِس قسم کی سہولیات سے یک سرمحروم ہے۔وہ شہری یا دیہاتی ماحول یا جس طبقے کے افراد کی زندگی پر افسانہ نوشت کرناچاہتاہے ،اگر وہ اُس ماحول اور طبقے کے افرادکے رہن سہن ،اُن کے رسوم وعقائداور اُن کے طرززندگی سے ناواقف ہے تو افسانے کے میدان میں وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتا۔شایدیہی وجہ ہے کہ منشی پریم چند نے قرۃالعین حیدر کی طرح طبقہ اشرافیہ پراور قرۃ العین حیدر نے منشی پریم چند کی طرح دیہات کی زندگی کوافسانے میںڈھالنے کی جرأت کبھی نہیں کی۔اِس تمثیل سے یہ بات خود کارطور پرمترشح اور ثابت ہو جاتی ہے کہ ایک افسانہ نگار اپنے جانے مانے اور مانوس ماحول کے حصاروامصار میں رہ کر ہی افسانے تخلیق کرسکتا ہے ۔عصرحاضرمیںجب کہ افسانے میں کہانی لوٹ کر واپس آچکی ہے کثیراُلجہات موضوعات پر لگا تار کہانیاں شائع ہو رہی ہیں، اور بہت سے افسانہ نگاروں پر شہرت اور مقبولیت کی پری مہر بان بھی ہو چکی ہے۔ایسے افسانہ نگاروں میں ایک نام حنیف کانٹوی کابھی ہے،جواَب حنیف سیّد کے نام سے افسانے تخلیق کر رہے ہیں۔موصوف ایک سیدھے سادے ،بھولے بھالے ،سادہ لوح اور مرنجان مرنج قسم کے انسان واقع ہوئے ہیں۔وہ ۱۹۷۲  ؁ء سے لگاتار افسانے تخلیق کرتے چلے    آ رہے ہیں،اور اُن کے قلم سے ۱۴۰؍سے زائد افسانے تشکیل پا چکے ہیں اور وہ شمع ،آج کل ، نیادور،ایوانِ اردو،روشنی امریکہ، اِنشاء ،اورشاعر کی زینت بھی بنتے رہے ہیں ۔

                     

    حنیف سیّد کی اولین تصنیف اُن کا ناول ’’ایثار کی چھان￿و تلے‘‘فخرالدین علی احمد اکیڈمی لکھنٔوکے مالی تعاون سے شائع ہوکر،اردو اکیڈمی اتر پردیش سے انعام پاتے ہوئے اپنے وقت میں توقع سے زیادہ مقبول ہوا، اور اب اُن کے افسانوںپرمشتمل مجموعہ ’’پنچھی؛ جہاز کا‘‘ بھی اشاعت کے جلوہ گہہِ آفاق پر رونق افروزہو کریقیناً شرف ِمقبولیت سے سرفراز ہوگا۔اُن کی خدمات کے اعتراف میں اُنھیں صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے دوبارکانسہ پدک عطا کیے گئے،اوربہت سی ادبی تنظیموں سے بھی اُنھیں ’’فخرالادبا‘‘،’’نشانِ ادب‘‘، ’’مینارۂ ادب‘‘اور’’گوہرِعلم وادب‘‘ جیسے: خطابات سے سرفراز کیا ہے۔

    حنیف سیّد نے اپنے ایک افسانے’’ آن￿سو ؛عقیدت کے ‘‘میں کم عمر میں بہک جانے والی لڑکیوںکو راست پر لانے کی کس طرح کوشش کی ملاحظہ فرمائیں:

    ’’رفّو۔۔۔۔! یقین کرو۔۔۔!اُس رات راشد بھی تم کوایک نوخیز کلی کی مانند اپنی ہوس کا شکاربناکرتمھاری پوری زندگی کے خرمن میں انگارے بھر دیناچاہتاتھا،اورتم اُس ساری تباہی کو محض اپنی نادانی کے سبب دعوت بھی دے رہی تھیں،اورمیری نگاہوں نے سارے معاملات کو محض چند منٹوں میں ہی بہت دور تک پرکھ لیا تھا۔‘‘

    ’’میں اپنا والہانہ پیار لے کر تمھاری جانب صرف اِسی جذبے کے تحت بڑھاتھا کہ تم میرے پیارکے گورکھ دھندے میں الجھ کرراشدکونظراندازکردو،اورتمھاری معصومیت پر جال پھینکنے کا موقع نہ مل سکے پھر کبھی اُس کو۔‘‘

    ’’رفّو۔۔۔! اپنے اُسی والہانہ پیار کے ذریعے میں تم کواِس مقام تک لانے میں پوری طرح کامیاب ہو گیا۔‘‘

    ’’ یقین جانو رفّو۔۔۔! میں نے تم سے کوئی فریب نہیں کیا ،بل کہ تمھاری اصل منزل تک پہنچادیا صاف ستھراتم کو، جس کی کہ متمنی تھیں تم۔‘‘

    ’’ یعنی کہ میں نے جو راشد سماجی بھیڑیے کے روپ میں تم سے چھیناتھا،وہی آج اپنی کوششوں سے ایک شوہر کے روپ میں تم کولوٹارہاہوں،جواِس وقت تمھارے دروازے پرسہرا باندھے تمھارے دُلھا کے روپ میں بڑی عقیدت کے ساتھ تمھارے پیار کی بھیک مانگنے آیا ہے ۔ رفّو۔۔۔۔۔! یہ کل کا وہی فریبی راشد۔۔۔۔۔آج کاوفا پرست تمھاراشریکِ حیات بننے کامتمنی ہے۔آج اُس کے پاس فریب کاوہ جال نہیں جوتمھاری معصومیت کا گلا گھونٹ سکے۔‘‘

    ’’کل کا فریبی راشدجو سماج کے سامنے تم کورسوا کرنے پر آمادہ تھا، لیکن آج اُس کاوہی پیار سماج کو تمھارے پیار کے قدموں پرجھکانے لایاہے،خود کو۔‘‘

    ماہ نامہ انشاء کلکتہ نومبر ۲۰۰۳  ؁ء میں شائع’’اپنااپنادان￿و‘‘ میں حنیف سیّد نے آج کے فیشن پرکس طرح چوٹ کی ہے دیکھیں:

    ’’کیوں کہ بدلاوچاہتی ہے یہ دنیا۔آج تم اسکرٹ ٹاپ میں کتنی پیاری لگ رہی ہو۔‘‘
    ’’اُس دن توبولا تھاجینز شرٹ میں پیاری لگتی ہو۔‘‘
    ’’اچھا،توتم نے میری برتھ ڈے پر مجھے ساڑی بلائوز نہیں پہنایاتھاکیا۔۔؟‘‘وہ مسکرایا۔
    ’’ساڑی بلائوز میں توتم بہت پیارے لگے تھے ڈارلنگ۔کیاخوب تھے کانوں کے کنڈل ،اورماتھے کی بندی ،لپ اسٹک توکیا خوب بول رہی تھی ہونٹوں پر،اورتمھاری چوٹی تودیکھ کر توکتنے غضب کاطوفان چڑھ گیا تھا میرے دِل ودماغ میں،تم اِسے کٹوانا کبھی مت۔‘‘

    اُن کے افسانوں کا مجموعہ’’پنچھی؛ جہاز کا‘‘میرے پیش نظر ہے،لہٰذااب اُسی کے تناظر میں کچھ کہنا پسند کروں گا۔مذکورہ بالامجموعے کی بنیاد پرمجھے کہنا ہوگاکہ موصوف ایک ذہین شخصیت کے مالک ایسے افسانہ نگارہیں جن کی اپنے اطراف واکناف پر گہری نظر ہے،وہ عصری محرکات و رجحانات اور عہد حاضر کی پُر آشوب وآشفتہ حال زندگی کے سنگین مسائل،محرومی ومحزونی اور اُس کے دردوکرب کے احوال وکوائف سے ناآشنانہیں ہیں،یہی وجہ ہے کہ وہ حقیقی زندگی میں پیش آنے والے واقعات،انسانی مشکلات کی بکھری ہوئی کڑیوں کو یک جا کرکے اُنھیںافسانہ کی خلعتِ فاخرہ عطا کر دیتے ہیں۔

                   
    ماہنامہ ایوانِ اردو دہلی میںشائع افسانہ ’’پنچھی؛جہازکا‘‘ کے ایک اقتباس میں جمناپرساد پراُس کے پڑوسی کا طنز ملاحظہ فرمائیں:

    ’’مکان کہاں لیاہے بیٹے نے۔۔۔؟‘‘پڑوسی نے تیسرے دِن آکردریافت کیا۔ اُن کولگا ؛جیسے: نمک چھڑک دیاہواُس نے۔حالاں کہ یہ جانتے تھے کہ پڑوسی اِس کاجواب اچھی طرح جانتاہے۔لیکن آگ لگانے آیاہے کم بخت ،اِس لیے کوئی جواب نہ دیا۔
    ’’کچھ کھایاپیابھی  ۔۔؟‘‘اَگلا سوال،لیکن جواب کچھ نہیں۔
    ’’کیسے رہو گے اتنے بڑے مکان میں اکیلے ۔۔۔؟‘‘جواب کوئی نہیں۔
    ’’کھانابھیج دیاکروں اپنے بیٹے کے ہاتھ ۔۔۔۔۔؟‘‘جواب کوئی نہیں۔
    ’’مکان کی صفائی میں کردوں ۔۔۔۔؟‘‘جواب کوئی نہیں۔

    ’’تینوں بیٹوں سے آدھی آدھی تنخواہ لیاکرو ۔۔۔!دیں گے کیوں نہیں۔۔۔؟کہوتوبات کروں۔۔۔۔؟‘‘جواب کچھ نہیں۔

    ’’تمھارے پاس بھی کیاکمی ہے۔۔۔۔؟بھگوان کی کرپاسے۔چارچارنوکررکھو۔۔۔۔! ٹناٹن رہو  ۔۔۔۔!‘‘جواب کچھ نہیں۔

    ’’بولوتوکچھ ۔‘‘جواب کچھ نہیں ۔
    ’’سوگئے کیا  ۔۔۔۔؟‘‘جواب کچھ نہیں ۔
    ’’مرگئے کیا۔۔۔۔؟‘‘پھر بھی کوئی جواب نہ ملا،توجل کراُس نے پوچھا۔
    ’’ارے۔۔!تم توواقعی مرگئے جمنا۔۔۔!محلے والو۔۔۔!آئو۔۔۔!دیکھو۔۔۔!جمنامر گئے۔‘‘ پڑوسی نے جم کرطنزکیا۔

    ’’میں مرانہیں سالے۔۔۔! مروں گاتجھ کومارکر۔‘‘جمنانے چادرپھینکی ،اورکھڑے ہوگئے تن کر۔
    ’’تم زندہ نہیں ہوجمنا۔۔۔!تم تومرچکے ہو۔جیتے جی مرچکے ہو۔بالکل سے مرگئے ہوتم۔‘‘پڑوسی نے طنزکیا۔

    ’’ دیکھ سالے، دیکھ۔۔۔۔۔!میں زندہ ہوں ،بہت جان ہے ابھی مجھ میں۔‘‘جمنا پرساد تھرتھراتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔

    ’’جھوٹ مت بولو۔۔۔!تم مرچکے ہوجمنا۔۔۔!یہ تم کھڑے ضرورہو،لیکن تمھارے اپنے پیرنہیںہیںیہ۔ تمھارے پیرتوکٹ کر دوسری جگہ پہنچ چکے ہیں ۔تم میں کچھ بھی نہیں رہاہے جمنا۔۔۔۔!اپناکچھ بھی نہیں اَب۔‘‘

    ’’ٹھہرسالے۔۔۔!‘‘طنزکی ٹیسوں سے بوکھلاکرجمنانے بندوق اُٹھائی اورلڑکھڑا گئے۔‘‘محلے والے جمع ہونے لگے، توپڑوسی سرک گیاچپکے سے۔

ٍ    ’’سالاکہیں کا،نمک چھڑک رہاتھا،وہ بھی مجھ پر۔‘‘جمنانے کہتے ہوئے بندوق چارپائی سے ٹکادی اورتھرتھراتے ہوئے لڑھک گئے۔ذہن میں طوفان ٹھا ٹیں مار تارہا۔ رات آئی توڈھنڈار،کاٹے نہ کٹی اُن سے۔‘‘

    اسی افسانہ کاایک چھوٹاسارنگین ورومانی جملہ اور دیکھیں جس میںحنیف سیّددو دلوں کے جذبات کی عکاسی کنایوں میں کتنے انوکھے انداز میں کر گئے ہیں:

    ’’رانی ایک روزنہاکرچھت پربال سکھارہی تھی کہ اُس کے من کاپیاسا پنچھی دو چھتیں پارکرکے ایک کھڑکی سے گزرکردھوپ میں بیٹھے پردیپ کے حسن کی جھیل میں پہلی ہی نظرمیںسارے پنکھ بھگوکرایسابیٹھاکہ پلٹ نہ سکا۔پردیپ کے من کی جھیل میں بھی پیاسے پنچھی کے ٹوٹ کرگرنے سے جو لہریں اُٹھیں اُن سے ،وہ لاکھ کوشش کے باوجودبھی بچا نہ سکا خود کو ۔‘‘

    حنیف سیّدکی زبان سادہ وسلیس اور شگفتہ وشیریں ہے۔لہجے میں کھنک،بیان میں دل کشی،خیال میں گہرائی،اسلوب میںتنوع،بندشوں میں چستی وبے ساختگی اور غضب کی روانی جیسی خوبیاںاُن کی نثر میں رُوحِ رواں کا درجہ رکھتی ہیں۔مرقع سازی اور کردار نگاری پر اُنھیں کماحقہ عبور حاصل ہے،انسانی حرکات وسکنات کی مصوری کا جواب نہیں، مکالمے بے ساختہ اور برجستہ ہوتے ہیں۔ موقع محل کے لحاظ سے انسانی جذبات و احساسات کو فطری اورحقیقی انداز میں پیش کرنا بھی اُن کی ایک خاص خوبی ہے۔جنرل نالج کمال کی ہے۔ ضروریات کی تہہ میں اُتر جاتے ہیں تو پھروہیں ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں، اور یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ کہانی کا انجام چونکادینے والا ہو۔

    ’’میٹھا نیم،کڑوانیم؛ کڑوانیم،میٹھا نیم‘‘بھی ایک جنسیاتی اورنفسیاتی کہانی ہے  جو عورت کی بے بسی اور لاچاری کی غماز ہے،ایک دولت مند زمین دار کی بیٹی جواپنے ڈرائیور کے ساتھ دِل کے ہاتھوں مجبورہوکرگھر چھوڑآتی ہے،ڈرائیور کے انتقال کے بعدایک شخص اُس سے ہم دردی دکھا کراُس کورکھیل بنالیتاہے۔ڈرائیور سے اُس عورت کی ایک چھوٹی بیٹی بھی ہے؛جو ماں اوراُس شخص کی غیر فطری اور عجیب وغریب ہرکات و سکنات پرتجسّس میں مبتلا ہوکر سچائی کواپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ مگر کامیاب نہیں ہوپاتی ہے۔رفتہ رفتہ وہ بیٹی جوان ہوکراندر سے بند کمرے میں ماں اور اُس شخص کے ساتھ ہونے والے راز کو سمجھ کر ایک الجھن میں مبتلا ہوجاتی ہے،اور اُس شخص کی موت کے بعدجب ماں ، غربت اور لاچاری کے ہاتھوں بے بس ہو کر غلط رویّہ اختیار کرلیتی ہے ۔تب بیٹی کے اندر کی کڑھن اوراحتجاج کے ملے جلے رنگ ملاحظہ فرمائیں:

    ’’شام نے بہ مشکل تمام دستک دی، تو ماں نقاب اُوڑھ کر رات کے اندھیرے میں گھر سے نکل گئی۔تقریباً دوگھنٹے بعدسامان سے بھرا تھیلا لیے لوٹی،تواُس نے ماں کو کھا جانے والی نظر سے گھورا۔ماں کی لاکھ ضدکے باوجود کھانے کی کسی شے میں ہاتھ نہ لگایااُس نے ۔ماںنے چراغ گل کیااور بنا کچھ کھائے کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔اُس نے بھی چارپائی سیدھی کی اور پیر پھیلا دِیے۔مگرنیند نہ آئی۔ کئی بار اُٹھ اُٹھ کرپانی پیا ۔ بے چینیاں بڑھیں ،تو چپکے سے اُٹھی؛ ماں کی نیند کا جائزہ لیا۔ماں کے خرّاٹے اوربلندہو گئے۔ اُس نے چپکے سے سامان کا تھیلا ٹٹول کر ایک بڑا سیب نکالا،اورچپکے سے لیٹ رہی۔پیٹ کی آگ نے سیب کے وجود کولپک کر اپنی آغوش میں لینا چاہا،لیکن اُس کے ضمیر کی بارش نے پھر ٹھنڈا کر دیا۔وہ ایک جذبے کے ساتھ اُٹھی،اورسیب تھیلے میں واپس رکھ کر،پانی کے دو گلاس چڑھا کرلیٹ گئی۔ اُس کے باوجود نیند نہ آئی اُس کو۔بھوک سے مجبور ہو کرجیسے ہی اُٹھ کردوبارہ جھولے سے سیب نکالا۔اُس کے ضمیر کا شیر بڑی بھیانک آواز میں دہاڑا، گھنگورگھٹائیں بھی چھائیں۔بارشیں بھی ہوئیں۔طوفان بھی آئے۔سارے جہاں کے پانی نے مل کر زور لگایا؛لیکن پیٹ کی آگ کچھ ایسی بھڑکی کہ ضمیربھسم ہو گیااُس کا۔ اُس نے کئی سیب نکال کر کھائے،اور جیسے ہی بستر پر پہنچی۔ماں اطمینان سے باہر نکلی اور سامان کا جھولا لے کر اندر چلی گئی۔اگلی صبح ماں دن چڑھے اُٹھی،جھاڑو دینے کے بعدماں نے اُس کو جگایا۔وہ جھلّاکر چادر پھینکتے ہوئے اُٹھی۔ مکان کا جائزہ لیااُس نے۔سارا آنگن کڑوے نیم کے پتّوں سے صاف تھا۔برتن پچھلے روز کے جیوں کے تیوں سجے تھے ۔اُس نے چادر کھینچ کر پیر پھر پھیلا دِیے۔‘‘ آخر کو ماں کی موت کے بعداُس کے حالات اور مجبوریوں نے پھر اُسی کالے کلوٹے ایک آنکھ والے نوکر دیپو کا انتظار کرنے پر مجبور کر دیا،جس کوکبھی ایک آنکھ دیکھنا بھی اُسے گوارانہ تھا۔حالات کی ستم ظریفیوں کے سبب کڑوا نیم اب اُسے بھی میٹھا لگنے لگا۔

    مختصر مضمون میں سبھی کہانیوں کا جائزہ پیش کرنا ممکن نہیں اِس لیے اِ سی پر اکتفا کیاجائے۔

٭٭٭٭٭

 دہلی گیٹ ،علی گڑھ۔
 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 529