donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Harfe Dil Nawaz Ki Lazzat Aur Kamal Jafri


حرف دلنوازکی لذت اورکمال جعفری


شمیم قاسمی


وہ کوئی چھٹی کا دن تھا۔ کمرے کی کھڑکی سے باہر کامنظر بہت خوشنما لگ رہاتھا۔ سامنے کھیتان مارکیٹ میں سنا ٹاپسراتھا اوربنگالی بابو کے بگان میں آموں پر بور آچکے تھے۔ مطلع بالکل صاف تھا اورمیرا دماغ بھی-ایسے میں کچھ لکھنے پڑھنے کاموڈ ہی نہیں تھا۔ مطالعہ کے ٹیبل پر روزنامہ’’پندار‘‘ کی ایک تازہ کاپی پڑی تھی بس یوںہی اٹھالیا:

شیر جومقبرے میں سویا ہے
ا س کی ہیبت دلوں پہ طاری ہے

اس کی تاریخ میں نظیر نہیں
سینکڑوں شاہ پہ وہ بھاری ہے

 یہ ایک پرتاثر قطعہ تھا۔ اظہارعقیدت کافطری انداز۔ مطالعۂ اخبار سے یہ بھی انکشاف ہواکہ حضرت کمال جعفری تاریخی شہر سہسرام یعنی شیر شاہ کی نگری (فخر کہ میری جنم بھومی) کا ادبی دورہ کرکے بس چند روز قبل ہی لوٹے ہیں۔ شعرائے سہسرام سے دل بھر کے ملے اورسننے سنانے کادوربھی چلا۔ ایسے میں نہ جانے کیوں اپنا یہ شعر یاد آگیا:

دنیا ہمارا لطف سخن لوٹتی رہی
سننے کو ہم ترستے رہے بول پیار کے

بہرحال اس میں شک نہیں کہ موصوف نے عدل و انصاف کے علمبردار سلطان شیر شاہ کے مقبرے اوراطراف شہر کے تاریخی مقامات کی خوب خوب سیر کی ہے۔ یوں شاعر کا حساس دل یاد گار اسلاف ، فن تعمیر کے دلکش اورحیرت انگیز سنگ تراشی کے نمونوں کو دیکھ کر بے ساختہ کہہ اٹھا ہوجیسے:

ہم نے یہ کمال اپنے اسلاف سے سیکھا ہے
دشمن کو محبت سے قدموں پہ جھکا دینا

کچھ شہنشاہوں کے ملتے ہیں بیاں تک بھی نہیں
اس کے تاریخ میں محفوظ نشاں تک بھی نہیں

 کوہستان کیمورکے سرسبز نظاروں، چند تن شہید پیر کے حجرے کو جانے والی آڑی ترچھی اوبڑ کھابڑ اورپراسرار پہاڑی پگڈنڈیوں کے دل فریب مناظر اور زرخیز علاقوں نے کمال جعفری کا دل یقینا موہ لیا ہے ۔ جبھی تو مادر وطن کے جاں باز سپوت شیر شاہ سوری کی آخری آرام گاہ پرکھڑے کھڑے انہوں نے فی البدیہہ ایک قطعہ کہہ ڈالا۔ یہاں میں یہ اطلاعاً قلمبند کررہاہوںکہ روح شیر شاہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ان کا یہ والہانہ پن یہ شعری رویہ لہجے کی یہ اثر آفرینی نہ صرف میرے لئے باعث تقویت بنی بلکہ اس بہانے موصوف کی مزید شعری تخلیقات کوپڑھنے کے لئے میں Inspired بھی ہوا اورچونکہ میر اذہن قبل سے خالی خولی تھا۔ ایسے میں حرف دلنواز کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کایہ اچھا موقع تھا سومیںنے بروقت اس کا مصرف لینابہترسمجھا۔

خوشنما تحریر ہو یا دلنشیں تقریر ہو
کھینچ لیتے ہیں خوداپنی سمت حرف دلنواز

مجموعۂ کلام کے پہلے شعر کو پڑھتے ہی کمال جعفری کی ذہنی اڑان اور شعری سمت سفر کا تعین کرنے میں مجھے ذر ا دیر نہ لگی۔ اس کو یوںبھی سمجھاجاسکتاہے  ؎

جذبۂ عشق سلامت ہے تو انشاء اللہ
کچے دھاگے میں چلے آئیںگے سرکار بندھے

 حرف دلنواز کی شاعری اصل میں کمال جعفری کی شخصیت کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ زیر مطالعہ مجموعہ کلا م سے یہ رائے قائم کرنے میںتامل نہیں کہ حرف دلنواز کی بیشتر غزلوںمیں اسکے خالق کی ذاتی شخصیت کے اوصاف بطور خاص نمایاں ہیں۔ موصوف بلاشبہ ایک دردمند دل کے مالک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روح عصر کے کرب کوبھی انہوںنے حرف دلنواز کامختلف رنگوں میںخوشنما پیراہن عطاکیا ہے۔

دلنوازی میں بے مثال ہے وہ
شہر میں ایسا باکمال ہے وہ

اب دیکھنا یہ ہے کہ شاعرکب تک اندرون ذات کاقیدی بنارہتاہے۔ یوںکہتے ہیںکہ شاعری شاعرکی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے اور یہ بھی کہ شاعری جنونی اورخودنمائی ، کیفیت کانام ہے۔ اردو شاعری کی یہ روایتی اور سادہ سی تعریف کمال جعفری کی شخصیت پربھی صادق آتی ہے۔ بلاشبہ ان کی شاعری اورشخصیت میں گہری مماثلت ہے۔ موصوف کی غزلوں کے چند اشعار اس تمہید کے ساتھ پیش کرنا چاہوں گاکہ کیا عہد جدید اورکیا عہدمابعدجدید؟ اردو شعر وا دب کم وبیش ہر زمانے میں گرفتار حسن و عشق رہا ہے۔ بارگاہ حسن میںخصوصی طور پر شعرا کی مدح سرائی سرفہرست رہی ہے توپھر ظاہر ہے کہ کمال جعفری کی شعری کائنات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ ان کے یہاں معاملات دل اور دعوائے جنوں کے خدوخال کچھ یوں واضح ہوتے ہیں:

 بہت حسین ہے کاغذ پہ پھیل جاتاہے
بیان کرتاہوں خاکہ جو مختصر اس کا

تجھ سے ہم ملنا سمجھتے ہیں بڑی شان کی بات
ہوں گے وہ اورجو کتراکے گذرجائیںگے

ملنا کہ رہ زیست میں ہرسمت ہیں کانٹے
تم ساتھ نبھائوگے یہ اقرار بہت ہے

وصل کی رات ساتھ دے نہ سکی
اس قدر داستاں طویل ہوئی

اک طرف پھول اک طرف کانٹے
اور دونوں کے درمیان ہوں میں

آرزوئوں سے کھیلتا ہوں کمال
زندہ دل اور ابھی جوان ہوں میں

کمال جعفری کا ظاہر و باطن ایک ہے آرزوئے حیات کی تکمیل کے لئے موج حوادث سے کھیلنا انہیں خوب آتا ہے۔ اس میںمبالغہ نہیں کہ عمر عزیز کی اس ڈھلان پربھی ان کادل ابھی جوان ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’’ساٹھے میںپاٹھا‘‘ تو ان کی شاعری اس پر فٹ بیٹھتی ہے۔ سچ ہے کہ موصوف ہر عہد میں زندہ دل اورکھرے واقع ہوئے ہیں۔ وہ اپنے دلی جذبوں اورمحسوسات کا اظہار گھما پھرا کر نہیں کرتے۔ وہ یہ گر جانتے بھی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر غزلیں اکہری معنویت کی حامل ہیں۔ ان کادل جذبۂ ایثار سے لبریز ہے۔ وہ جب جیسا اور جس شکل میں دیکھتے ہیں اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ’’دوٹوک‘‘ کہنے کا ہنرانہیں معلوم ہے کہ وہ کسی فکری الجھائو اور شعری لفظیات کو برتنے کی نزاکت ورسمیات کے بہت حدتک قائل نہیں اوروہ خود اس کا یوں اعتراف بھی کرتے ہیں:

ہم کوئی حرف گلہ دل میں نہیں رکھتے کمال
روبرو کہتے ہیں ہم اور اٹل کہتے ہیں

سخت نفرت ہے جھوٹ سے اس کو
حق بیانی میں بے مثال ہے وہ

اب ایسا بھی نہیںکہ کمال جعفری کی شاعری ان کی  Personal Feeling یاان کے ذاتی کرب اورخانگی زندگی کے ناآسودہ لمحوں کے بطن سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کامحض اظہاریہ ہے۔ فرائڈ اسکول کی یہ نفسیات اپنی جگہ کہ جب کوئی جبلت براہ راست تسکین نہیں پاتی ہے تو وہ تکمیل تسکین کیلئے دوسرے ذرائع ڈھونڈ نکالتی ہے اورشاید تخلیق شعر بھی اسی طرح کی تسکین کاذریعہ ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ اس سے اتفاق نہ کریں کہ یہ شاعری وائری تخلیقی عمل ادب کا ایک کمزورپہلو ہے - بہرحال! میں یہ کہنے جارہاتھا کہ کمال جعفری کایہ شعری سفر روایت وجدت کے حسین امتزاج اورپیش رو شعراء کے زیراثر مطالعہ حیات وکائنات کادل آویز جمالیاتی پورٹریٹ بھی ہے   ؎

کس کا ہوگا وہاں گذر ممکن
جس بلندی پہ سرفراز ہو تم

ٹھوکریں کھائیں تویہ جانا ہے
عقل کا راستہ ہے ناہموار

میرے چہرے پہ حوصلوں کی لکیر
جان عالم پناہ ہے تم سے

مل کے شاید اداس ہوجائوں
اس لئے کررہاہوں تم سے گریز

رنگ لیتا ہے رنگ میں اپنے
ہے زمانہ کمال اک رنگریز

صفحۂ قرطاس پر اب شاعر سے بڑارنگریز بھلا کون ہوسکتاہے۔ انبوہ حرف دلنواز کی صدائے بازگشت کے صد رنگ آنچل میں صرف ستاروں کی ضوفشانی اورجبین فلک کی ٹھنڈک ہی نہیں اس کے پس منظر میں ہم عصر زندگی کے مسائل سے پیدا شدہ شعلوں کی تپش بھی ہے۔ یوں کہاجاسکتاہے کہ کمال جعفری نے خود کومحض کرب ذات تک ہی محدودنہیں رکھا ہے بلکہ یہ سچ ہے کہ ان کے یہاں اندرون ذات سے بیرون میں جھانکنے کی اپنی سی سعی بھی ملتی ہے۔ ہمیں یہاں پر یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ وہ بیک وقت مادی اور روحانی دنیا کا کامیاب سفرطے کرنے کے ہنر سے ناآشنا نہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر بھی نہیں۔

 بن گیا ہے آج ہر مصروف انساں کا مزاج
صبح کو بسترسے اٹھنا شاہ خاوردیکھنا

اخلاص کا فقدان ہے محفل ہوکہ گھر ہو
ماحول  زمانے کا دل آزار بہت ہے

رستہ میں کڑی دھوپ کا منظرہے تو کیا غم
اے دوست ترا سایۂ دیواربہت ہے

نفرتوں کے مہیب جنگل میں
ہوگئے خشک پیار کے اشجار

مادیت کی تیز لہروں کی
آج روحانیت ہوئی ہے شکار

حرف دلنواز کی شاعری میں ذات وکائنات سے مکالمہ توجاری ہے لیکن یہاں استعاروں ، علامتوں اوررمز و اشاریت سے کم ذاتی مشاہدے، حق بیانی اور راست گوئی پرخاصہ زوردیاگیاہے۔ راقم الحروف کی تحریر کاسچ یہ ہے کہ حرف دلنواز کے خالق کمال جعفری اصل میں انسان دوستی اورخالص محبت کے شاعرہیں۔ ان کا اس بات پر مکمل ایمان وایقان ہے:

صبر اورشکر کی دولت جنہیں مل جاتی ہے
وہ مصیبت کومحبت کا بدل کہتے ہیں

 واردات قلبی ، معاملات روزمرہ اورمصائب دنیا کی سپاہ سے نبرد آزمائی کرتے ہوئے وہ بڑی شان بے نیازی سے اپنے شعری سفر پر گامزن ہیں اوریہ بھی سچ ہے کہ مخالف صورت حال میںبھی خوش گفتار، خوش مزاج اور تازہ دم رہنے کی صلاحیت موصوف کو کسی غیبی طاقت نے دے رکھی ہے  ؎

مجھ سے ابلیس خوف کھاتاہے
رب نے بخشی ہے وہ ادا مجھ کو

کمال جعفری خود کوغزل کا شاعربتاتے ہوئے یہ اعتراف بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ’’ یہ بھی حقیقت ہے کہ نظم سے زیادہ( آج ) غزل کہنے والے ملیںگے اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو غزل اپنی فطری ساخت کی وجہ سے ہرخیال پیش کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے… غزل کے ذریعہ شاعرایک طویل مضمون کومحض چند اشعار میں بیان کرکے دلوں کو مسحور کرلیتاہے۔‘‘ اس سے یہ قطعی مرادنہ لی جائے کہ غزل کی زبان کسی اسٹینو گرافر کی’’شارٹ ہینڈ‘‘ ہے سچ تویہ ہے  ؎

بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے
(کلیم عاجز)    

کمال جعفری کا یہ کمال فن ہے کہ ان کی شاعری آپ بیتی بھی ہے اورجگ بیتی بھی۔ اب اس کا کیا کیجئے کہ یہاں ان کے دماغ سے زیادہ حضرت دل کاغلبہ ہے اور ہوبھی کیسے نہیں   ؎

پھر کسی کے قریب سے گذرا
آج پھر مجھ سے ایک بھول ہوئی

پوچھئے میرے دیدہ ودل سے
اس کا چہرہ ہے یاگلاب جناب

موسم گل کے کچھ تقاضے ہیں
اپنے جذبات سرد مت رکھنا

کمال جعفری کی ذہنی تربیت اور حرف دلنواز کومعنوی جہت عطا کرنے میںبیک وقت کلکتہ اور دلی کے ہنگامہ خیز ادبی ماحول کااہم رول رہا ہے۔ بقول شاعر   ؎

 جسم دہلی میں ہے میری جان کلکتے میںہے
کیابتائوں دل کاہر ارمان کلکتے میں ہے

اب بھی آتاہوں توبہلاتاہوں دل اپناکمال
آج بھی میرا دلِ نادان کلکتے میں ہے

خود حضرت غالب کے دل کی یہ کیفیت تھی   ؎

کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں!
وہ تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے

کمال جعفری تجربے کے نام پر صنف غزل میںکوئی رسک لینا نہیں چاہتے- یہی وجہ ہے کہ فکر وفن کی سطح پر وہ بڑے محتاط نظر آتے ہیں۔ ان کی غزلوں کے بیشتر اشعار عصری حسیت کے مظہر ہیں لیکن معنی و مفہوم کی سطح پر کثیر الجہات نہیں۔ موصوف کے پیرایہ، اظہار میں سادگی، زور بیان کی شدت اورجذبوں کا فطری بہائو بدرجہ اتم موجودہے۔ ان کے یہاں ایک موثر صدائے احتجاج توہے لیکن ساتھ ہی حرمت غزل کو برقرار رکھنے کا شعوری عمل بھی جاری ہے۔ کہاجاسکتاہے کہ حرف دلنواز کی بیشتر غزلوںمیں غنائیت سے زیادہ بلند آہنگی، شدت بیانی اور شوق اظہار کی نیرنگی کے عناصر غالب ہیں اورشاید یہی عناصر ان کی جولانی طبع کے جوہر کھولتے ہیں   ؎

 وہ مجھ پہ سنگ ملامت توپھینکتاہے مگر
کسے خبر کہ سلامت رہے گاگھر اس کا

وہی مخدوم ہوتا ہے جہاں میں
جو خدمت کو عبادت جانتاہے

خاکساری میںہوں زمین صفت
سربلندی میں آسمان ہوں میں

اس کوپانے کی کشمکش میں کمال
جوبھی کوشش ہوئی فضول ہوئی

المختصر-حرف دلنواز کی شاعری بہرحال ادب نواز قارئین کے درمیان شوق مطالعہ کاایک بامعنی اورخوبصورت جواز تو رکھتی ہی ہے     ؎

غزل کی جو حقیقت جانتاہے
وہی لفظوں کی لذت جانتاہے

 

(درون،دہلی۔ ۲۰۰۷ئ)  

******************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 524