donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Hussainul Haq Ka Farat


حسین الحق کا فرات

 

شمیم قاسمی

 

پچھلے چند برسوں سے ہمارے افسانہ نگاروں میں ناول لکھنے اور پھر اسے جلد از جلد پکی سیاہی کے قالب میں ڈھالنے کاجیسے ایک کریز بن گیا ہے۔ ناولوں کی اشاعت میں غیر معمولی دلچسپیوں اور اہتمام کاخاصا اظہار عملی شکل میں دیکھنے کو مل رہاہے۔ ادھر فکشن پرساہتیہ اکادمی ایوارڈ نے بھی شاید اس عمل کو مزید تقویت بخشی ہے۔ اب سننے میں آرہاہے کہ افسانہ نگاروں کاایک بڑا جتھا ناول اور صرف ناول لکھنے پرمصرہے۔

آگ کا دریا، خداکی بستی اورعلی پورکا ایلی وغیرہ عالمی شہرت یافتہ ناولوں کے بعدادھر چندبے حدقابل ذکر ناول شائع ہوئے ۔یوںکہہ سکتے ہیں کہ اردو ادب میں  اچھے ناولوں کا فقدان نہیںرہا۔ جدید اردو فکشن میں ہمارے باشعور قارئین کے ایک بڑے حلقہ کو بیک وقت جن ناولوں نے اس طرف بہت تیزی سے اپنی جانب متوجہ کیا اور غیر معمولی شہرت پائی (اسباب جو بھی رہے ہوں) ان میں مکان ( پیغا م آفاقی) پانی (غضنفر) اور دوگززمین( عبدالصمد) کاذکر یہاں نہ کرنا ادبی بدنیتی اور کوتاہ نظری ہوگی۔ دو گز زمین پر تو عبدالصمد کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی مل چکاہے۔

 مندرجہ بالا ناولوں کی اشاعت اور غیر معمولی مقبولیت۔ اور پھرایک طویل وقفہ کے بعد مصور سبز واری کے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتاہے۔ مشرف عالم ذوقی کے نیلام گھر اور حسین الحق کے ناول ’’فرات‘‘ نے مخصوص ادبی حلقوں میں اپنے ہونے کا احساس دلایا۔ دوستوں کے ایک بڑے حلقہ نے ان ناولوں کو خوش آمدید کہا اور ادبی مباحث میں شامل کیا۔ ان دنوں شموئل احمد کے ناولٹ؍ ناول؟ پر بھی کافی لے دے ہورہی ہے۔ نشست و برخاست کا سلسلہ جاری ہے۔ ندی پر مذاکرہ ہو ،نہیں ہو کا جواز ڈھونڈاجارہاہے۔ ویسے سنا ہے کہ دیو ندر اسر صاحب نے ندی میں خوب دبکی لگائی ہے تو ان کی پوترتا پرشک نہیں کیاجاسکتا۔

حسین الحق کانام اردو فکشن میں محتاج تعارف نہیں ۔ زیر مطالعہ ناول فرات ان کا دوسرا ناول ہے۔ ٹھیک اس کے پیچھے ’’بولومت چپ رہو‘‘ کی اشاعت ہوچکی ہے۔ افسوس کہ میں اسے نہ پڑھ سکا اس لئے یہاں چپ رہنا ہی بہتر ہے۔

حسین الحق کے فرات کا طول و عرض چارکم تین سو صفحات پر ابکھرا ہوا ہے۔ جہاں تاریخ، فلسفہ، سیاست، تہذیب واقدار کی شکست وریخت کے پراسرار سوتے پھوٹتے ہیں اور پھر عرفان ذات سے عرفان کائنات کا تخلیقی سفر طے کرتے ہوئے انسانی جبلت کاباغی استعارہ بن جاتے ہیں۔

 فرات کی بیکراں گہرائیوں میں تغیر پذیر سماج اور انسانی زندگی کی ازلی جبلتوں کی ایک مکمل تاریخ رواں دواں ہے۔ فرات کے اس تاریخی بہائو میں زمان ومکان کی کوئی سرحد نہیں۔ کوئی ٹھہرائو نہیں ۔

’’ یہ سارا کچھ کیسا عجیب ہے؟ کائنات کا یہ ارتقائی تسلسل جو ہر گزرے ہوئے لمحے کوایک کہانی بناتا ہوا چلاجارہاہے۔ کسی سے کچھ نہیں پوچھتا۔ مسلسل رواں دواں۔‘‘

( صفحہ۔ ۱۳)

 فرات کامرکزی کردار وقار احمد ہے جو دھندا ور کہرے میں گھری کیمور کی سرمئی پہاڑیوں کے دامن میں بسی شیر شاہ کی نگری(سہسرام) کاایک ستارہ ہے۔ بلاشبہ تاریخ اور کہانیوں کایہ شہر حسین الحق کے تخلیقی سفر کامحور بھی ہے جہاں ملکہ ہفت براں کے طلسمی تخت پر سوار ہوکر ایک دنیاکی تلاش میں گم ہو جاتاہے۔ اور ایسے میں مادی کائنات کا تصور کوئی معنی نہیں رکھتا۔ فرات میں وقار کا ہر حال ماضی کا اٹوٹ حصہ بنتاگیا ہے۔ اور شایدیہی وجہ ہے کہ وقار کا ماضی بڑامستحکم اور توانا ہے۔ یہ اپنے آپ میں univers بھی ہے۔ یہاں تہذیبی اور ذاتی ماضی کے حصار سے نکلنے کی ہرکوشش بیکار ثابت ہوتی ہے۔ فرات کے تاریخی جبر اور اس کے بہائو میں وقار کی ناسٹیلجیا کو سمجھنے کیلئے فکری توانائی اور بالیدہ شعور کی ضرورت ہے۔

طلسمی تخت والی ملکہ ہفت براں دراصل حسین الحق کی تخلیقی کائنات کا بے پناہ قوتوں والا سیارہ ہے جس کے مدار میں داخل ہونے کی ناکام کوشش نے اس پورے رزمیہ میں وقار کے کردار کو لازوال بنادیا ہے۔ اب وقار کے حوالے سے مہاجنی نظام کی پروردہ صفیہ خالہ کی بیٹی شیمی یعنی پرچھائیں کو آپ کہیں بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پرچھائیں کاکوئی وجود بھی ہے؟ اگر ہے تو کن اشکال میں اگرنہیں تو اس کا جواز……؟…؟

 فرات کے زمان ومکان کو بڑے  Philosophical انداز میں لینا ہوگا تبھی ناول نگار کی تخلیقی شخصیت کے حصار میں کینچل مارے بیٹھی ناآسودگی کے دائمی درد کو ہم محسوس کرسکتے ہیں۔ فرات کے اوراق پرڈوبتی ابھرتی آڑی ترچھی لہروں کے دوش بہ دوش ایک نئے Horizon میں داخل ہونے کیلئے ہمیں جرمن نژاد جدید شاعر گوٹ فریڈین کے اس قول کوذہن نشیں رکھناہوگا۔

’’معروضی حقیقت کا کوئی وجودنہیں، صرف انسانی شعور اپنی تخلیقی قوت سے مستقل نئی دنیا پید اکرتارہتاہے ان کی تنسیخ اور ترمیم کرتارہتاہے۔‘‘

 یوں تو ناول کے تمام کردار تغیر پذیر سماج کی دین ہیں، ان کی جبلی معصومیت، سماجی اور ذاتی زندگی میں ان کا ایڈجسٹمنٹ ، عادات و اطوار، مادی زندگی کرنے کا ان کا مخصوص طرز عمل۔ ان سب سے ہم ان کے باطنی وخارجی مظاہر کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان میں چند ایسے اہم کردار ہیں جن سے ملنے بغیر بھی ہم ملکہ ہفت براں کے ساتھ تخت طلسمی پر سفر توکرسکتے ہیں لیکن وقار کی وحشتوں اوراس کے بے کل باطن کی کائنات کے جبر کو دل کی گہرائیوں میں نہیںاتارسکتے اور اس طرح فرات کے طول و عرض کا طواف بھی ممکن نہیں۔

 ہمیں صبح کے وقت آیات کریمہ کے کیسٹ بجانے اور اذان کے وقت کلب جانے کو ترجیح دینے والی عنیزہ کے قریب رہنا ہوگا ۔ بیوی کے بریزیر کے ہک لگانے کا عادی فیصل ہمیں بتائے گا کہ زندگی میں ایڈجسٹمنٹ کیوں اورکیسے کیاجاسکتاہے۔ آدمی کس درجہ دوہری شخصیت جی سکتاہے۔ فیصل کا بھائی تبریز نئے معاشرہ اور مغربی تہذیب کا نہ صرف والا و شیدا ہے بلکہ نمائندہ بھی ہے۔ وہ اپنی محبوبہ کو  Passionate  کرنے کے عمل سے گزرتا ہوا  I want to Fuck You کہہ کر اپنی نسل کی نمائندگی کرتاہوانظر آتا ہے۔ماضی کی ریشمی ڈور تھامے زیر مطالعہ ناول میں فطرت ، عورت اوربدن وہ تواناشعری استعارے ثابت ہوئے ہیں جن کی شمولیت کے زیراثر حسین الحق کی نثرمیں شعریت گھل گئی ہے۔ بقول شہاب ظفر اعظمی اظہار کی بیباکی ،فکر کی ندرت اورلہجے کا توازن،ان کے معاصرین سے بالکل مختلف ہے۔ اظہار کا یہ شعری والہانہ پن کرشن چندر کے اسلوب کی یاد دلاتاہے۔بطور نمونہ ایک اقتباس دیکھیں:

’’شیمی کے بچھڑنے کے بعد ان کی کیفیت درخت سے گرے ایسے پتے کی ہورہی تھی جو درخت سے بھی جدا ہوچکاہو اور زمین بھی میسرنہ ہوپائی ہو۔ ہوا میں ڈولتا، درخت سے بچھڑا، خزاں زدہ- تنہا پتا!

اس خزاں زدہ پتے کو اس غزالِ ختن نے سنبھال لیا اور وقارؔ اس بات کے لئے اس کے احسان مند تھے کہ اس نے جذباتیت سے اعتدال کی طرف لوٹنے میں انہیں ہر ممکن تعاون دیا----- مگر وقار احمد کی یادوں کاناگزیر حصہ نہ بن سکی شاید اس لئے کہ اس کی محبتوں میں مصلحتوں کے عناصر بھی شامل تھے اور شاید اسی لئے وقار احمد ایم ۔ اے میں بھی ٹاپ کرگئے تو وہ غزال ختن ان سے دور ہوگی۔‘‘

(ص۔۷۹)

ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کا یہاں تک ماننا ہے کہ فرات میں کئی مقامات پر دانشورانہ، پرشکوہ اور جلیل اسلوب دیکھنے کو ملتاہے جومولانا ابوالکلام آزاد اور شبلی کا بھی خاصہ رہاہے۔’’اسلوب کا یہ رنگ قاری کو صرف متاثر ہی نہیں کرتا، مرعوب بھی کرتا ہے۔ یہ دل کا خون بھی کرنے  کی صلاحیت رکھتاہے۔ جملوں کی دروبست اور فقروں کی سحرانگیزی و اثرآفرینی کے ساتھ ساتھ روانی وتسلسل یوں ہوتا ہے جیسے سمندر کی تیز لہر اپنے ساتھ کنارے پڑی ساری چیزوں کو بہالے جارہی ہو‘‘
 (جہانِ فکشن، صفحہ ۱۹۰)

 شبل اس ناول کا ایک غیرمعمولی کردار ہے لیکن جو بڑے ہی ڈرامائی اورانڈین فلموں کی طرز پر اپنے انجام کو پہنچتاہے۔ پھربھی ہم وقار کی غیرشادی شدہ ۳۴ سالہ صحافی بیٹی شبل کوفراموش نہیں کرسکتے۔ اس نے ہوا کے سینے پراپنا نام’’ بنت زینب‘‘ لکھ چھوڑا ہے۔ فرات کو مزید سمجھنے کیلئے ہمیں پہلے مولوی وقار احمدابن حافظ مولانا افتخار احمد دانش کے خاندانی پس منظر کو سمجھناہوگا۔ مولوی سے ریٹائرڈ پروفیسر وقار احمد بننے کے تمام مراحل اورFactsسے گزرناہوگا۔، سنگریزوں پہ چلنا ہوگا کہ ملکہ ہفت براں کے طلسمی تخت پر ہمیں اسی زمان میں سفر کرناہے۔

فرات کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں یہ ذہن نشیں رکھنا ہوگا کہ زمان علیہ السلام مورخ لازوال ہمیں کہاں کہاںلے جاتے ہیں۔ اور کس طرح ایک تاریخی جبر کو ترتیب دیتے ہیں، ان کے Resourcesکیا ہیں۔ ہمیں دیکھنا  ہوگا کہ ان کے لہجے کا بہائو کس درجہ فطری ہے۔ فرات کے کن کن ابواب میں ان کا یہ لہجہ غیر ضروری طوالت اور زمانی مغالطہ کے سبب توازن کھو بیٹھا ہے۔ ہمیں نہیںبھولناہوگا کہ ان کے جابجا خطیبانہ لہجہ کی وجہ سے فرا ت کے کشادہ آسمان پرایک فلسفیانہ تشکیک کی دھند چھائی ہوئی ہے۔ آخر میں ہمیںیہ سوچنا بھی ہوگا کہ واقعات و حادثات کی جو تاریخ مرتب کی گئی ہے کیا وہ کہیں سے تصدیق طلب ہے؟؟

 اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جن پر روشنی ڈالنا یہاں ممکن نہیں۔ زیر مطالعہ ناول میں حسین الحق کا تخلیقی رویہ ان کے معاصرین سے یقینا منفرد ہے۔ ناول کا بیشتر حصہ شعری اسلوب و آہنگ لئے ہوئے ہے۔ اظہار کایہ والہانہ پن ناول کے ابتدائی ابواب میں بطور خاص ملے گا
فرات بہرحال حسین الحق کا ایک ایسا بامعنی تخلیقی سفر ہے جہاں ریگستانی تمازت بھی ہے اور آشوب جاں یادوں کاایک گھنیرا سایہ بھی۔

                ٭        
(زبان وادب:پٹنہ)


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 811