donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Kiyon Samundar Khelaf Rahta Hai



کیوںسمندرخلاف رہتاہے؟


شمیم قاسمی

 

پیش نظر مجموعۂ غزل ’’سمندرخلاف رہتاہے‘‘ کے محاسن ومعائب کو انگلیوں پر گنوانایہاں قطعی مقصود نہیں اور نہ ہی اظہار وبیان کی سطح پر جو لسانی شکستگی در آئی ہے اسے چھو کر بتانا بلکہ شاعر خورشید اکبر کے مخصوص شعری رویوں ، اس کی شعری لفظیات کی غیر تصنع اور غیر مانوس فضامیں اپنے خدو خال واضح کرتی ہوئی اس کی شعری کائنات کا نفسیاتی تجزیہ کرنا ہے اور ان تاریک گوشوں پر ایک ہلکا سا عکس ڈالنا ہے جس سے شعوری یا لاشعوری طورپر شاعر کی ذہنی وابستگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھی کہ جو شاعر کی شاعرانہ بصیرت کا سرچشمہ ہیں اور جہاں سے بہر حال شاعر کی فکر کو رسد پہنچ رہی ہے۔

’’سمندر خلاف رہتاہے‘‘ شاعر کاپہلا شعری مجموعہ ہے جو مسلسل سرابوں کے سمندر کے سفر سے عبارت ہے۔ شاعر کی شعری شخصیت کے اندرون میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسی   ناآسودگی خیمہ زن ہے، کوئی ایسا خلا ضرور ہے جس نے شاعر کو قدرے باغی بنادیا ہے ۔ اب دیکھنایہ ہے کہ زیر مطالعہ مجموعہ یا اس کے خالق کی شعری شخصیت کے Inner void کی کس طرح بھرپائی ہوپاتی ہے پہلے شعر دیکھئے     ؎

عجب طرح کی طبیعت ملی ہے خود سر کو
کہ دو جہان سے اکبرؔ خلاف رہتا ہے

احساس وادراک کے اس سفر کو شاعر کی جبلّی معصومیت نے اور بھی بامعنی بنا دیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس سفر میں دِشائوں کا کوئی واضح تعین نہیں ہوسکا ہے اور جس کے نتیجہ میں یہ شعری سفر لا سمتیت کی زد میں آگیا ہے ۔ شاعر کے اس ذہنی سفر میں جو ایک طرح کا خلا در آیاہے اُسے  پُر کرنے کی ناتمام کوشش نے اسے خود سراور خود پرست بنادیا ہے۔ اور یوں وہ جابجا کسی بم کی طرح پھٹ ہی تو پڑا ہے   ؎

میرے حصّے میں ہیں خورشید یگانہؔ تیور
دیکھنا لقمۂ غالبؔ نہیں ہو سکتا میں

یگانہ چنگیزی کے اس تیور کو شاعر کے اس شعر نے مزید تقویت بخشی ہے   ؎

تمہیں خبر بھی ہے کچھ حسرتِ عظیم آباد
تمہاری خاک سے اکبر نکلنے والا ہے

دانشورانِ ادب ابھی بھولے نہیں ہیں کہ ایک زمانے میں یگانہؔ(یاس عظیم آبادی) اسی خاک عظیم آباد سے نکل کر آبروئے لکھنؤ ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے تھے۔ ان کی غالب شکنی اور خود پسندی محتاج تعارف نہیں۔ خورشید اکبر کی پوری شعری کائنات اور اس کی شعری لفظیات کا بغور مطالعہ کریں تو’’سمندر خلاف رہتاہے‘‘ کے بیشتر حصے میں یگانہؔ کے شعری رویّے اور اس کی خود پسندی کی مماثلت سے شاعر نفی نہیں کرتا بلکہ بزعم اس مخصوص شعری ڈکشن پر اتراتا ہوا نظر آتاہے   ؎

مری فطرت میں کس نے بھر دیا اتنا یگانہ پن
کہ اپنا مشغلہ ٹھہرا خدا کو بے اماں رکھنا

آگے چل کر شاعر مزید خوش فہم نظر آتاہے۔ شاعرانہ تعلی کا یہ پہلو بھی خوب ہے ۔ہر چند کہ شاعر نے اپنے نام کا شاندار مصرف لیاہے    ؎

بُجھ گئے ایک ایک کرکے سارے تازہ دم چراغ
اے ہوائے تند ! اک خورشید باقی ہے ابھی

اک غزل خورشیدؔ اکبر کی طرح
ایک نقش جاودانی کم نہیں

یعنی بہ زبان یگانہ عظیم آبادی   ؎

میں جہانِ سخن ہوں بلکہ ایمان سخن
دنیائے ادب کی آبرو مجھ سے ہے

اس روئے زمین پر اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ شخص بھی انا کا شکارہے۔ کہتے ہیںکہ شاعریوں بھی انا پسندہوتاہے۔اگر یہ انا پسندی یا اس کی فطرت کا یہ یگانہ پن دائرۂ اعتدال کا طواف کرتاہے تو اس کے تشخص پر کوئی آنچ نہیں آتی لیکن جب دیوار انا قد کو پھلانگنے لگے تو پھر یہ جنگل میں آگ کا کام کرتی ہے اور ایسے میں اس کے وجود کا ا مکان بے معنی سا ہوجاتاہے۔مندرجہ بالا اشعار کے حوالے سے شاعر کی شعری کائنات کے تیور اس کی خود سرطبیعت اور انکار پسندی کو باشعور قارئینِ ادب بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔

’’سمندر خلاف رہتاہے‘‘ میں شاعر کا شعری رویّہ حددرجہ خود سر، تکبرانہ اور شعوری عمل سے لبریز ہے۔ یہ ایک طرح کا  Intentional attitudeہے جو شاعر کے باطن میں رقیق مادّہ بن کر دوڑ رہا ہے۔اس کی شعری نفسیات کو سمجھنے کے لئے بلا شبہ یگانہ ؔ کا یہ شعر معاون ثابت ہوگا   ؎

یگانہؔ تو ہی جانے اپنی حقیقت
تجھے کون تیرے سوا جانتا ہے

خورشید اکبرؔ اپنی فطرت میں جس یگانہ پن کی شمولیت کا اظہار واعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔مندرجہ ذیل اشعار اسے مزید وُسعت دیتے ہیں   ؎

حریف تاب نہ لائیں تو کیا کروں خورشیدؔ
مطالبہ ہے یہی دھاردار غزلوں کا
شکایتیں ہی ستم کے خلاف کرکے اٹھوں
میں صاحبوں سے ذرا اختلاف کرکے اٹھوں
میں بن کے آئینہ بیٹھا ہوں بیچ رستے میں
کہ اس طرف سے سکندر نکلنے والا ہے
قدوں کی فکر میں بونے ہوئے یارانِ اکبرؔ
یہ تنہا سچ مگر بے ساختہ کہنا نہیں تھا
صاف گوئی تمہیں سُرخی میں رکھے گی خورشیدؔ
حاکم وقت سے معقول سزا پائو گے

اگر شاعر واقعی کھرا، سچا اور بے باک ہو تو بلاشبہ وہ حاکمِ وقت کی معقول اور غیرمعقول سزا کی پرواہ نہیں کرتا اورستم کے خلاف بغاوت کی مشعل روشن کرنے میں ہچکچاتا نہیں لیکن جب وہ خود سراور انکار پسندی کا اسیر ہو، اس کے اندرون میں ایک طرح کی روحانی بے یقینی اور انتشار ہو اور وہ ذہنی خلفشار سے گزر رہا ہو تو اس کی صداقت اور صاف گوئی پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ جاتاہے۔شاعر کایہ شعر یہاں اس کے غیر صحت مندذہن کی علامت لگتاہے۔ اس کے ذہن کے دریچے کو تشکیک زدہ مکڑی کے جالے نے اچانک مقفل کردیاہے اورجس سے اس کی روحانی پاکیزگی پر ضرب لگ ہے۔

ایک خدا اور سارے بندے حاجت مند
کس کس کی حاجت پوری ہو سکتی ہے

کیایہ واقعی صاف گوئی ہے؟ یاخود نمائی کا جذبہ۔؟؟ ۔۔۔۔ یگانہ چنگیزی کا یہ شعراس ذہنی نفسیات کو سمجھنے کے لئے شاید بہتر اورکارگرثابت ہو   ؎

ادب کے واسطے کتنوں کے دل دکھائے ہیں
یگانہ حد سے گزرنا نہ تھا، مگر گزرے

خورشید کا ایک شعر اور دیکھئے   ؎

دو بدن درد کی لہروں پہ بھی مل سکتے ہیں
اس رسالت کو کہاں بادِ صبا سمجھے گی

لفظ ’’رسالت‘‘ کو یہاں یوں سر عام غزل کی منڈی میں اچھال دینا اور دوبدن کے اتصال سے پیدا شدہ لذت کو کوئی معنوی پہلو دینے کے لئے اس کا استعمال میرے خیال سے بہتر نہیں کہ کچھ الفاظ جو بالکل مخصوص ہوتے ہیں انہیں شعر کے قالب میں ڈھالنے سے قبل ان کی انفرادی پاکیزگی کو روح کی گہرائی میں اتارنا ہوگا۔ ممکن ہے اس عمل میں تخلیقیت سے زیادہ عقلیت کو دخل ہو۔اگر یہ جذبہ نہیں ہے تو پھر اس جنونی اور باغیانہ لہجے کے لئے یگانہ کا یہ شعر دہرایا جاسکتاہے   ؎

بجز ارادہ پرستی، خدا کو کیا جانے
وہ بدنصیب جسے بخت نارسا نہ ملا

خورشید اکبر کا یہ اعترافی لہجہ کہ ان کے حصّے میںیگانہ ؔ کا تیور بھراہوا ہے اور وہ لقمۂ غالبؔ بننے سے رہے انہیں مبارک اورادبی سنسنی پھیلاتا ہوا ان کا یہ انتساب بھی۔اب ذہین قارئین کو یہ دیکھنا رہ گیا ہے کہ غبارآلود نئی نسل کی جداگانہ شناخت کا یہ تصوراتی اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے:
’’ترقی پسندی اور جدیدیت سے انحراف کرنے والی اس نسل کے نام جس کی آزادنہ شناخت پر بعض تخت نشیں کو اعتراض ہے۔‘‘

حالانکہ آزادانہ شناخت اور انحراف واختلاف کرنے والے اس شاعر کی شعری لفظیات وکائنات کا نفسیاتی تجزیہ کریں تو یگانہ کے مخصوص شعری مسلک کی پرچھائیاں دور دور تک آپ کا تعاقب کرتی نظر آئیں گی۔

اس میں قریب ترپیش رو جدید شعراء کے اسلوب ولفظیات کو بھی شامل کیا جاسکتاہے جس کا اظہار قبل ہی شاعر کے اشعار کے حوالے سے کیا جاچکاہے۔

اب مندرجہ ذیل محض چند اشعار کے حوالے سے ایک ایسے شاعر کو متعارف کرانا مقصود ہے جو قدرے انحراف واختلاف کے باوجود روایتی شعری لفظیات کو تو سیعی اشکال دیتا ہوا بیک وقت ترقی پسندی ، جدیدیت اور یہاں تک کہ تغزل پسندی کے اثرات اپنے شعری سفر کے دوران لاشعوری طورپر ہی سہی قبول کرتا نظرآتاہے۔ساتھ ہی ہمیں دیکھنا ہوگاکہ یہ شعری لفظیات کس بے تکلفی سے شعر کے قالب میں ڈھلی ہیں   ؎

ہے اعتماد مجھے پھاؤڑوں کی طاقت پر
بس اتنی بات سے پتھر خلاف رہتا ہے
ہر ایک اینٹ سے مجبوریاں ٹپکتی ہیں
نہ جانے کب یہ سسکتا دیار ٹوٹے گا

  (ترقی پسندی)

اس کی جیب میں پانچ ستارہ ہوٹل ہے
وہسکی، لڑکی مجبوری ہو سکتی ہے
خاک پی لوں تو ابر کہلائوں
دھوپ چاٹوں تو سائباں کہنا

 (جدیدیت)

کیسی لطیف شے تھی بدن میں نہ رہ سکی
خوشبو کی احتیاط چبھن میں نہ رہ سکی
چاند کے حصّے میں کس نے لکھ دیا میرا نصیب
شام ہوتے ہی جو کھلتا تھا دریچہ کیا ہوا

(رومان پسندی)

پھاؤڑوں کی طاقت پر اعتما، اینٹ سے مجبوریوں کا ٹپکنا، سسکتا دیار، پانچ ستارہ ہوٹل، وہسکی، لڑکی، خاک پینا، دھوپ چاٹنا اور پھر لطیف شئے ، بدن، خوشبو، چبھن، چاند کے حصّے کا نصیب ، شام کا تصور اور دریچہ کا کھُلنا وغیرہ شعری لفظیات اجنبی نہیں ان کی آمیزش سے جو معنوی پہلو نکلتے ہیں ان میں قبل ذکر کئے گئے اثرات صاف جھلکتے ہیں یہ اور بات ہے کہ انہیں برتنے کا فن کا رانہ ہنر ہے لیکن اس طرح ایک متضاد لہجے کا شاعر ہمارے سامنے ابھرتاہے اور اس کی آزادانہ شناخت کے دعویٰ کی نفی کرتا ہوا محسوس ہوتاہے۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ خورشید اکبرکا اپنا شعری رویہ، اس کی اپنی شعری لفظیات کیا ہیں؟ ہمیں اس کے لئے بہت دورجانے کی ضرورت نہیں ایک ذرا فاصلے سے مندرجہ ذیل اشعار میں جونئی شعری لفظیات کی مدھم کہکشاں ہے اس کے جھرمٹ میں خورشید درخشاں ہے   ؎

نامرادی کا ککھرہ لکھ دیا
درد کا اکھشر سنہرا لکھ دیا
شہر میں ہولی ہوئی تھی خون کی
کس نے چہرے پر دسہرہ لکھ دیا
کسی کا قرب کبوتر کے پنکھ جیسا تھا
بدن کی آگ بھی پانی ہوئی سلیقے سے
میں اکبر بھولے بھالے جلّادوں سے
صبر کی انتم سیما مانگنے آیا ہوں
تصوّرات سے عاری ہے الگنی دل کی
کہیں تو ذکر چلے بھیگتے لبادوں کا
شہر کے بالغ ہاتھوں میں گڑیا کوئی
وقت سے پہلے ہوئی سیانی لکھ دینا
ہم اب کے عید سے پہلے محرّم اوڑھ سوئیں گے
نئی فرمائشوں کے ڈھیر کیوں بچے لگاتے ہیں

نامرادی کا ککہرہ، درد کا اکھشرسنہرا اور چہرے پر دسہرہ، صبر کی انتم سیما وغیرہ میں جو ہندی الفاظ کی آمیزش ہے وہ غیر خوش آہنگ ہوتے ہوئے بھی اب قطعی اجنبی نہیں۔ انہیں شعریت سے خالی نہیں کہاجاسکتا کہ زبان کے اس سنگم نے جو نئی شعری فضا کو کشادگی بخشی ہے وہ سراہنے لائق ہے۔آخری شعر میں تو منور رعنا کی روح پوری طرح حلول کر گئی ہے شاید۔یوں بھی اس طرح کے غیر زبان کے الفاظ کوجدید اردو شاعری نے اپنے دامن میں بحسن وخوبی سمیٹنا سیکھ لیا ہے۔ چہرے پر دسہرہ لکھنے کے عمل نے جو انسانی جبر کا منظرنامہ منور کیاہے اور صبرکی انتم سیما میں جو کیفیت ابھرتی ہے اس کا جواب نہیں۔ اسی طرح کبوتر کے پنکھ جیسا قرب جلاد کے ساتھ بھولے بھالے شہر کے بالغ ہاتھوں میں سیانی ہوتی ہوئی گڑیا، تصورات سے عاری دل کی الگنی ، محرّم اوڑھ کر سونا وغیرہ لفظیات کی جلوہ گری قطعی غیر شعوری نہیں بلکہ انہیں برتنے کے غیر معمولی سلیقے نے شاعر کو ایک امتیاز خاص بخشاہے۔اب تغزل زدہ اذہان پر زبان کا یہ ’’مکسچر‘‘ بارِگراں ہوتو ہو فرق ہی کیا پڑتاہے اور بقول عہد ساز ناقدشمس الرحمن فاروقی:

’’شاعری کی زبان کو لچکدار ہوناچاہئے ۔عام بول چال کی زبان سے کم سہی لیکن لچکدار ہونا چاہئے ورنہ شاعری اور اس کی زبان دونوں متحجرہوجائیں گی۔شاعری کی زبان کے بارے میں بہت پہلے میں نے کئی بار لکھا تھاکہ شاعر کو حق ہے کہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لئے کوئی نامانوس لفظ برت لے یا اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو کوئی متروک لفظ برت لے اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو کسی غیر زبان کا لفظ مستعار لے لے۔ شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں، اور کوئی قید نہیں۔‘‘

(شب خون: ۲۲۰)

 اس کے باوجود ہمیں یہ اعتراف کرنا ہی پڑے گا کہ خورشید اکبرکا یہ شعری سفر ناہمواراور غیر مانوس راستوں سے اپنی ایک الگ پہچان بنانے کے پروسس میں شعوری یا لاشعوری طورپر یگانہ کے شعری علاقہ سے قریب تر ہوگیاہے اور اسی علاقے سے خورشید کی شعری شخصیت کو مجموعی طورپر متعارف کراتاہے   ؎

سمندر ناپنا آساں نہیں ہے
وہ دیکھو ہاتھ سے پتوار نکلی

اس اعترافی اور تجرباتی لہجے کے باوجود شاعر کی خود سر طبیعت کی شہ زور ندی ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے روبرو پورے تیور اور ولولے کے ساتھ اپنے وجود کا اعلان کرتی ہوئی نظرآتی ہے    ؎

میرے حصّے میں ہیں خورشیدؔ یگانہ تیور
دیکھنا لقمۂ غالب نہیں ہو سکتا میں

تو اس مقام پر ہمیں ایک بار پھر مزید ٹھہر کر سوچنا ہوگا۔اس لئے بھی کہ تخلیقی اظہار کے ایک بڑے Embarrassmentسے شاعر کو ابھی گزرنا باقی ہے۔

٭٭٭

Shamimqasmipatna@gmail.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 608