donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Lamhe Lamhe Ka Safar : Aik Tairana Nazar


لمحے لمحے کا سفر:ایک طائرانہ نظر


شمیم قاسمی


زمانہ شناس،شگفتہ مزاج اور کہنہ مشق شاعر ناشاد اورنگ آبادی کا تازہ شعری مجموعہ ’’ لمحے لمحے کا سفر‘‘ (2008 ) پیش نظر ہے۔ تقریباً تین دہائیوں سے موصوف کی شعری نگار شات ہندو پاک کے مقبول رسائل و جرائد کی زینت بن کر د ادو تحسین وصول کرتی رہی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ناشاد اورنگ آبادی ہمارے عہد کا بے حد مقبول عوام پسند شاعر ہے۔ عظیم آباد کی مخصوص ادبی نشستوں میں علاقائی اور آل انڈیا مشاعروں کے اسٹیج پر اپنی کامیابی کا پرچم بلند کرنے والے شعراء کی بھیڑ میں بھی ناشاد کا نام اور کلام  محتاج تعارف نہیں۔ ان کی نیم متبسم آنکھوں ، شہداب لبوںکی جنبش کو دیکھ کر اکثرمیں سوچتا ہوں کہ سدا چہکنے والے یعنی زندہ دلانِ شہر کے اس خوش فکر شاعر کو ’’ناشاد‘‘ کا تخلص کس نے دیا؟ اگر یہ تخلص فرض کیجئے کہ شادی کے بعد کی پیداوار ہے تو پھر اس کی معنی خیز دل آویزی سے بھلا کس انکار ہوسکتاہے۔

بہر حال !اس سے قبل موصوف کے دو شعری مجموعے ’پرواز سخن (1990 ) اور ’میل کا پتھر ‘ (ہندی لیپی) سن 1991 ء میں شائع ہو کرناشاد کے سخن سفر کی شادمانی و کامرانی کے باعث بنے ہیں۔ ناشاد اورنگ آبادی کی جائے پیدائش اورنگ آباد سے محض چند کیلومیٹر کے فاصلے پر نواب شمشیر خاں کے نام پر آباد ایک مردم خیز قصبہ ’ شمشیر نگر‘ ہے یہ وہی شمشیر نگر ہے جہاں شاہی زمانہ کا ایک تعمیر شدہ روضۂ شمشیرماضی کی عظمتوں اور اپنے عہد کے عروج و زوال کی داستان سنا تا نظر آرہا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں گم ہوتا ہوا سایہ وراثتی سرمایہ نظام جمہور میں بے تو جہی کا شکار ہے ہر چند کہ اسے محکمہ اثار قدیمہ حکومت ہند نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے لیکن اب وہ بات کہاں بقول ناشاد ؔ   ؎  

وہ پہلی سی کہاں ہنگامہ خیزی

اب اپنی خامشی ہے اور میں ہوں

ناشادؔ اورنگ آبادی 1965 سے ہی صحرائے ادب میں سر گرم سفر ہیں اور لمحے لمحے کے سخن سفر کی داستا ن خونچکاں لفظ لفظ بیان کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنے کلام میں قافیہ پیمائی نہیں کرتے بلکہ ’ نقد جاں صرف سخن ‘ کرتے ہوئے غزل سرا ہیں۔ زیر نظر مجموعہ غزل ان کے سخن سفر دھوپ چھائوں ہے کہ جہاں تخلیق ِ جمال کی شبنمی ٹھنڈک بھی ہے اور مشینی زندگی سے پیدا شدہ صحرائی تمازت بھی۔جوبھی ہو لمحے لمحے کا یہ سفر داد کا مستحق تو ہے ہی ۔ہر چندکہ اندازِ بیان قدرے رسمی اور روایتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کے بیشتر اشعار میں لہجے کی پختگی ، زندگی کے تلخ و شیریں واقعات و حادثات کا نچوڑ پایا جاتا ہے۔ بلند عزائم ، عملی زندگی کے تجربات کا سلیقہ مندانہ شعری اظہار یہ اور ان سب سے بڑھ کر زمانہ شناسی کاادراک وانعکاس بڑے فطری انداز میںہواہے۔ چند اشعار بطورنمونہ دیکھیں   ؎

مجھے کانٹوں سے بھی نفرت نہیں ہے
گلوں سے دوستی ہے اور میں ہوں

کچھ سوچ کر ہی ان دنوں میںسست گام ہوں
ایسا سفر ملا ہے کہ اہل ’ سفر کی خیر!

آزمائش سے مت ہو خوف زدہ
خود کو مصروف امتحان میں رکھ

ایک شاہیں ہے تو اڑانیں بھر
مستقر اپنا آسمان میں رکھ

کیا کہوں مجھ پہ کیا گذرتی ہے
’’روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں‘‘

تو سلامت رہے جہاں بھی رہے
تیرے حق میں دعائیں دیتا ہوں

دیکھتا ہوں میں بار بار اسے
جس نے دیکھا تھا ایک بار مجھے

سینکڑوں سنگ میل سے گذرا
نہ ملا پیڑ سایہ دار مجھے

تھا کبھی جو کسی کارنگ محل
آئیے وہ کھنڈر دکھاتا ہوں

آپ جب بھی قریب ہوتے ہیں
غم زمانے کا بھول جاتا ہوں

اس قبیل کے بہتیرے اشعار ہیں جنہیں گنوانا یہاں مقصود نہیں۔ میرا مدعا تو محض اتنا ہے کہ نا مساعد حالات میں بھی شاعر کس درجہ بلند حوصلہ ہے کہ یاس زدہ اور پراگندہ ماحول میں بھی اپنے اجلے من کو داغدار نہیں کرتا کہ وہ زندگی کے اعلیٰ اقدار اور عصری تقاضوں کا پاسدار بھی ہے۔ گویا وہ بیک وقت شعری روایات کا نمائندہ بھی ہے اور فکری جدت و ندرت کا غماز بھی ۔ متذکرہ اشعار میں آخری شعر آپ بغور پڑھیں تو مومنؔ کا یہ شعر ذہن میںتازہ ہوجاتا ہے    ؎

تم مرے پاس ہو تو ہوگویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا  

دراصل ناشاد اورنگ آبادی کی پوری شعری کائنات متوازن آہنگ و اسلوب کے خمیر سے پروان چڑھی ہے۔ ان کے یہاں عصری زندگی کے گونا گوں تجربوں کا اظہار تو ہے لیکن ماضی کی شعری رویات کا احترام بھی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری جدید و قدیم شعری تہذیب کا سنگم نظر آتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسی سنگم سے ایک ایسی شعری فضا خلق ہوئی ہے جس میں ان کے طرز سخن کی گونج تاد یر اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہے گی   ؎

ناشاد روایت کے طرفدار ہیں لیکن
جدت سے بھی کرتے نہیں انکار غزل میں

ناشاد اورنگ آبادی کی شعری اورشخصی زندگی میں کوئی تضاد نہیں۔ اپنے پرا ئے سبھی سے خندہ پیشانی سے ملنا اور حسن اخلاق کا مظاہرہ ان کا وطیرہ روز مرہ ہے۔ ان کی شاعری میں تجربوں کے نام پر یا زبان و بیان کی سطح پر کوئی ضعف نہیں۔لسانی تشکیلات کے نام پر وہ اپنی غزلوں کو چیستاں نہیں بناتے۔ زبان و بیان کی سطح پر وہ سادگی میں پُرکاری کے قائل ہیں لیکن ان کی شاعری روایتی شعری لب ولہجے کی توسیعی شکل ہی تو ہے جس میں عصری زندگی کا صدرنگ عکس بھی ہے۔اب دیکھئے کہ شعر میں ترسیل کی ناکامی پر وہ گہرا طنز کس طرح کرتے نظر آتے ہیں   ؎    

نئے ادب کے نام پہ کھینچو آڑی ترچھی روز لکیر
 نئے نئے الفاظ تراشو خود کو کچھ مشہور کرو

 اب آگے کچھ اور نہ بولو ، بے ادبی ہو گی ناشادؔ
زخمِ ادب پہ مرہم رکھو اس کو مت ناسور کرو

پیش نظر مجموعہ کلام کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سن 1965 ء سے تادم تحریر ناشاد اورنگ آبادی تو اتر اور حوصلے سے اپنے سخن سفر کے ہر پل ہر لمحہ کو جاوداں بنانے کے درپے ہیں۔ ہر چند کہ محکمہ ریلوے سے 1993 ء میں سبکدوش ہو گئے لیکن آج بھی بیحد فعال ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ ’ ساٹھے میں پاٹھا‘‘ تو جناب ناشاد اس کی روشن مثال ہیں۔ کئی اہم اعزاز و انعامات سے نوازے گئے ناشادؔ کبھی کسی خوش فہمی کے شکار نہیں اور نہ ہی کبھی اپنی غیر معمولی شہرت کے زعم میں اتراتے دکھائی دیئے ۔ اب تو شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا ہے بقول شاعر   ؎

یہی اب زندگی ہے اور میں ہوں
غزل ہے شاعری ہے اور میں ہوں

ستم ڈھانا ہے جن کو ڈھا رہے ہیں
مری دریا دلی ہے اور میں ہوں

جو بھی آئے تھے بزم میں ناشاد
ان کو مسرور کر دیا تم نے

میری تہذیب خوب ہے ناشاد
سب کو جھک کر سلام کرتا ہوں

کہتے ہیں کہ انسانی ہمدردی اور محبت شاعری کی بڑی اور اہم اساس ہے تو یقین جانئے کہ پیش نظر ’’ لمحے لمحے کا سفر ‘‘ کی شاعری اس کی عمدہ مثال ہے۔

معاصر اردو غزل گو شعراء ہم سخن دوستوں اور بطور خاص نوخیز نسل کے شعراء کے ساتھ بھی ناشاد اورنگ آبادی کے ملنے جلنے میں بڑا والہانہ پن ، بڑی اپنائیت ہے۔ یہ سچ ہے کہ ان کا ادبی قد ان کے اطراف نظر آنے والے ادباء و شعراء سے کئی معنوں میں نکلتا ہوا سا ہے۔ بقول وکیل اختر مرحوم   ؎

آپ سے جھک کے جو ملتا ہوگا
اس کا قد آپ سے اونچا ہوگا

ریاست بہار یعنی دبستان عظیم آباد کے بیحد محترم شاعر و ادیب ، ماہر عروض حضرت ناوک حمزہ پوری نے ممتاز غزل گو شاعر ناشاد اورنگ آبادی کے بے لوث ، صبر آزما اور طویل تر سخن سفر کو مد نظر رکھتے ہوئے بجا طور پر فرمایا کہ ’ ’ اردو!؟؟ کے عطیہ کے بل بوتے پر صاحب دیوان بنے اٹھلاتے پھرتے اکثر شاعروں کے مقابلے میں ناشاد اورنگ آبادی نے اردو کے شعری ادب کی کہیں زیادہ خدمت کی ہے۔ نیز یہ کہ ان کا ادبی سفر جاری ہے اور ناشاد ؔ اردو کے موجودہ غزل گو شعراء کی بھیڑ میں انفرادی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہیں۔ ‘‘


مختصر یہ کہ لمحے لمحے کا سفر ناشاد اورنگ آبادی کے شعری سفر کا پڑائو ہے نا کہ منزل   ؎    

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں


(قومی تنظیم ،پٹنہ،ادب ایڈیشن، ۲۰۰۹ئ)


****************************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 508