donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Lawa : Zamini Haqiqat Ka Mani Khez Isteara


لاوا-زمینی حقائق کا معنی خیز استعارہ


شمیم قاسمی


رحمان شاہی ہمعصر افسانوی ادب کا ایک جینوئن قلم کار ہے۔
ایک ایسا قلم کار جوبیک وقت زوال آمادہ معاشرے اور نظام جمہور پر حاوی ہوتی ہوئی سیاسی بازیگری، کساد بازاری نیز ادبی اسٹیبلشمنٹ (Literary Establishment)کے خلاف بہت ہی متوازن انداز میں قلم اٹھا تا رہا ہے ۔ ماضی قریب میں شہر عظیم آباد سے نکلنے والے ادبی آرگن ’ ’ نقاد ‘ ‘ کے صفحات اس کی بیباک ادبی صحافت کی آج بھی گواہی دیتے ہیں۔ بہ حیثیت مدیر ’ ’نقاد ‘ ‘ پٹنہ ، رحمان شاہی نے کسی زمانے میں اردو اکاڈمی کی غیر ادبی سرگرمیوں کے خلاف آواز اٹھاکر عظیم آباد کے ادبا وشعرا کے درمیان بڑی مقبولیت حاصل کی تھی۔یہ سچ بھی ہے کہ اس زمانہ میں ’ ’نقاد‘ ‘ نے نہ صرف عظیم آباد بلکہ پوری ادبی برادری میںبرسوں سے چل رہے ادبی جمود کو نہ صرف توڑا تھابلکہ اسٹبلشمنٹ (Establishment)   سے جڑے ہوئے کئی قدآور ادبی بتوں کو بھی چکنا چور کیا تھا۔افسوس کہ اب ’ ’نقاد‘‘ جیسے خالص ادبی پندرہ روزہ اخبار کی اشاعت بند ہوچکی ہے۔ بظاہر یہ ضمنی باتیں ہیں ،لیکن میرے پیش نظر جو کتاب ہے اس کے خالق کے ذہنی ر وییّ کو سمجھنے میں یہ ایک حد تک معاون بھی ہیں ۔

رحمان شاہی بنیادی طور پر ایک انسان دوست کہانی کار ہیں ۔۲۵۶ صفحات پر مشتمل ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’ ’لاوا‘ ‘ ان کی ذاتی اور ادبی زندگی کے نشیب و فراز کا اثر انگیز اظہاریہ ہے ۔انسا ن اور خوب صورت کائنات سے ان کی محبت شدید تر ہے اور شاید یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے زیر اثر وہ کوئی   Social reformerتو نہیں بن سکے لیکن مختلف شبعئہ حیات میں ہونے والی ناانصافیوں اور سماجی نا ہمواریوں کے خلاف مزاحمتی انداز اختیار کرتے ہوئے ایک قلم مزدور ضرور بن گئے اور اب اپنے جواں قلم کی بھرپور مشقت کے عوض میں بس تھوڑی سی اجرت کے طلبگار نظرآتے ہیں۔ باذوق قارئین کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

             انگلیاں فگار اپنی،سینہ خونچکاں اپنا

’ ’ لاوا ‘ ‘ کی بیشتر کہانیوں کے بطن میں بغاوت کی چنگاری چھپی ہوئی ہے کہیں سیاسی ضمیر فروشوں کو بے نقاب کرتی ہوئی تو کہیں سماجی و معاشی بے اعتدالیوں کو آئینہ دکھاتی ہوئی اور کبھی کبھی تو روٹی کے چند ٹکڑوں سے پیٹ کے جہنم کی آگ کو بجھانے کے لئے کسی فقیرکی بددعا بن کر نظام جمہور کے ایوان ِبالا کو خاکستر کرتی ہوئی         دراصل ایک فن کار کے سینے میں پرورش پانے والی یہی وہ ازلی چنگاری ہے جو شاید تخلیق ِفن کی معراج بھی کہلاتی ہے اور شاید یہی وہ چنگاری ہے جو عہد بہ عہد ،زینہ بہ زینہ،قریہ بہ قریہ سلگتی ہوئی رحمان شاہی کے یہاں بہ شکل ’ ’لاوا‘ ‘ تا حد نظر تمام مناظر و مظاہر میں جلوہ افروز ہے ،جس کے اندرون کے درجہء حرارت کو ناپنے کا ہمارے یہاں کوئی پیمانہ نہیں ؟ کہاجاسکتا ہے کہ رحمان شاہی کی کہانیوں کا پیش نظر پہلا مجموعہ ـ’ ’ لاوا ‘ ‘ زمینی حقائق کا ایک معنی خیز استعارہ ہے۔صفحہ ۱۷ سے ۲۸ پر ’ ’ ذرا سی بات ‘ ‘ کے تحت ’ ’لاوا ‘‘ کے خالق نے ڈھیر ساری باتیں کی ہیں اور بعض باتیں غیر ضروری ہوتے ہوئے بھی گہری معنویت رکھتی ہیں ۔کہیں کہیں پر رحمان شاہی نے خطبیانہ انداز بھی اختیار کر لیاہے ۔ہر چند کہ اپنے تخلیقی محرک کے حوالے سے وہ اپنا   ’’نصب العین‘ ‘ بیان کرنے میں خاصے کامیاب نظر آتے ہیں ۔ان کا ایسا ماننا ہے کہ کہانی کہنا تو آسان ہے ،لیکن کہانی لکھنا ایک دشوار گذار تجربہ ہے اور شاید اسی لئے وہ لاشعوری طور پر خود کو داستان گو ثابت کرنے کے عمل سے گذررہے ہیں ۔یوں وہ کہانی میں ’ ’قصہ پن ‘ ‘ پر پورا زور دیتے نظر آتے ہیں ۔بہر حال اس باب میں رحمان شاہی نے کہانی سے کہانی بنانے کے عمل میں فکری و فنی سطح پر جو کچھ محسوس کیا ہے اس کا بڑے معصومانہ اندازمیں اظہار کر دیا ہے ۔ یوں بھی وہ آرائشی زبان استعمال نہیں کرتے اور اپنی بات براہ راست کرنے کے عادی ہیں ۔کہانی کے فطری بیانیہ پر ان کا نقطء نظر بہت واضح ہے۔وہ کہانی لکھتے وقت کسی بھی مخصوص ادبی نظرئیے کے تابع نظر نہیں آتے ۔ان کے تخلیقی عمل کا محرک تو ہمعصر کہانیوں سے رخصت ہوتے ہوئے وہ کردار ہیں جنہیں ہمارے معاصرین نے حاشیہ نشین بنادیاہے یعنی ہمارے درمیان  ’’ہاں ‘‘ اور ’ ’ نہیں ‘ ‘ کی طرح رہنے والا ایک عام بے ضرر آدمی ۔اسی مفلوک الحال عام آدمی کی تلاش میں سرگرداں ہیں رحمان شاہی۔بظاہر یہ عام آدمی ہمارے ہی ارد گرد سانسیں لیتے ہوئے گھٹن سے چور رہتا ہے ۔لیکن ہمیں نظر نہیں آتا یا شاید یہ ہماری نظر کا قصور ہے یا پھر ہم دانستہ صورت حال سے چشم پوشی کرنے کے عادی ہوگئے ہیں ۔حالانکہ یہ کام تخلیقی اعتبارسے حد مشکل ترین بھی ہے۔یہ مقام مسرت ہے کہ رحمان شاہی اپنے بیشتر پیش روؤں کے برعکس اس عام آدمی تک پہنچنے میں ایک لحاظ سے کامران گذرے ہیں ۔

رحمان شاہی اپنے تخلیقی سفر کے دوران پڑوسیوں کے گھروں میں تاک جھانک کرتے ہیں تو انہیں یہا ں کوئی کہانی نہیں ملتی ۔دفتری زندگی اور دوستوں کی صحبتوں میں بھی انہیں کوئی کہانی نہیں ملتی ۔یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشن یا بس اڈے پر بھی ان کی ملا قات کم از کم اس سے نہیں ہوتی جسے وہ کہانی کہہ سکیں ۔سانولی سی بے حد معصوم داتن والی کی رفاقت میں بھی کسی کہانی کا جنم نہیں ہوتا ،تعجب ہے ؟وہ صاف طور پر اس کا اعتراٖٖف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہاںوہاں سر کھپانے پر بھی مجھے کوئی کہانی نہیں ملتی تو پھر ملتی کہاں ہے؟

    اب انہیں کی زبان میں سنئیے

’ ’  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  جب کوئی بھولی بھالی بہت پیاری سی گڑیا جیسی بچی سڑک کے ایک کنارے  پر کھڑی سڑک پار کرنے کے لئے اپنی چھوٹی چھوٹی خوبصورت آنکھوں سے اِدھر اُدھر تاکتی ہوتی ہے اور میں اس کی انگلیوں کو پکڑ کر سڑک پار کراتا ہوں تو مجھے کوئی کہانی مل جاتی ہے ۔ آپ کو یقین نہیں آرہا ہے نا  ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں سچ کہہ رہا ہوں ۔جب میں اپنی گلی سے گذرتا ہوں اور کوڑے کچڑے کے ڈھیر(دستر خوان) پر کتے کے پلوں کو کچھ ڈھونڈ تے اور پیٹ کی آگ بجھاتے دیکھتا ہوں تو وہاں بھی مجھے کہانی مل جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘ ‘  (ذار سی بات)     

                    
زیر مطالعہ کتاب میں ’ ’ذرا سی بات ‘ ‘ کے تحت اس کے خالق رحمان شاہی نے بڑی سادگی اور صاف گوئی سے اپنے تخلیقی عمل کے انہما کی لمحوں کو ایک نئی جہت دیتے ہوئے اپنے ذاتی تجربوں اور مشاہدوں کی روشنی میں کہانی میں کہانی کار کے بنیادی فرائض و منصف اور فکر و فن پر اپنا وضاحتی نوٹ لگایا ہے ۔ساتھ ہی کہانی کی تکنیک اس کے خدوخال ،لسانی تغیّرات ، قاری پسند اسلوب اور کہانی کے موضوعی تنوع پر سیر حاصل بحث کی ہے ،جس میں کہانی کی سہل بنت کاری اور زبان کے فطری بہاؤ یعنی غیر تصنع انداز بیان اور جو جیسا ہے ویسا ہی کہانی  میں پیش ہو پر خاصہ زور دیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کہانی تو کوڑے کچڑے کے ڈھیروں میں اپنی غذا حاصل کرتے ہوئے کتوں کے پلوں سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ موضوع کے لئے زمینی مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔اس کے لئے ہمیں خلاؤں میں دور تک بھٹکنے کی ضرورت نہیں ۔اگر آپ واقعی سچے فن کار ہیں تو پھر آپ اپنے گردوپیش سے ہی موضوع اٹھا کر اپنی کہانی کے خدوخال میں زندگی آشنا حرارت پید ا کر سکتے ہیں    اب اگر آپ کو اپنی دانشوری کی دال بگھارنی ہو تو خلاؤں کی سیر کیجئے۔کہانی کے ’ ’جوہر‘ ‘ کے نام پر اُڑتی ہوئی چڑیا کے پَر گنئے اور اس کی قوت ِپرواز پر سفید کاغٖذوں کو سیا ہ کرتے جائیے۔ لیجئے صاحب! کہانی مل گئی ۔اسے کہتے ہیں شاہکار ،چمتکار ور ہمارے رحمان شاہی ہیں کہ کہانی کی تلاش میں کتوں کے پلوں کے ساتھ تعفن بھرے ماحول میں کوڑے کچڑے کے ڈھیر(دستر خوان) پر بیٹھے ہیں۔ ہے نا عجیب بات !

زیر مطالعہ کتاب میں بظاہر کسی گڑیا جسیی بچی یا خارش زدہ کتوں کے پلے سے براہ راست آپ کا سابقہ نہیں پڑے گا،لیکن ان کے لئے محنت کش ہاتھوں سے تیا ر شدہ اور مختلف ذائقوں والی متوازن غذاؤں سے اٹا چُنا چُنایا دستر خوان آپ کو بھی خوش آمدید کرتا ہوا نظر آئے گا۔ بس شرط ہے کہ آپ  ’ ’لاوا ‘ ‘ کے خالق کی میزبانی قبول کر لیں تو پھر ’ ’گندی نالی ‘ ‘، ’’سانپ کا پھن پکڑنے والے ‘ ‘،’’زہر‘‘،’’جاڑے کی دھوپ ‘‘ اور ’’انصار بھائی کی چُنیا‘‘ کے اپنے ذائقے ہیں جو بیک وقت ہماری روح اور خالی انتڑیوں کو آسودگی فراہم کرانے میں اپنی مثال آپ ہیں ۔

رحمان شاہی کا ایسا ماننا ہے کہ جب وہ کہانی سنا رہے ہوتے ہیں تو یہ قطعی بھول جاتے ہیں کہ  
’ ’  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کی زبان کیسی ہے؟عام فہم، سلیس ،شریں یا سہل۔اس کا ڈھانچہ یا اس کا اظہاری پیکر کیساہے اور اس میں لطف و اثر ہے بھی یا نہیں اور وہ یہ کہ وہ دلچسپی کو قائم رکھے ہوئے ہے یا نہیںاور لطف و نشاط سے سرشار کر رہی ہے یا نہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘ ‘

بظاہر اس طرح کے سوالات جو  ’’لاوا ‘‘ کے خالق رحمان شاہی کے ذہن سے اُبھرے ہیں ہر چند کہ بڑے معصوم ہیں ،لیکن جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اتنا تو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ رحمان شاہی نے کہانی قصوں کی گود میں پرورش پائی ہے تو پھر ظاہر ہوا کہ وہ ایک پیدائشی داستان گو/ کہانی کار ہیں ۔وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کیتھارسِس کس چڑیا کا نام ہے ۔شعو ر اور لاشعور کے پچڑے میں پڑ کر وہ اپنی کہانیوں کو گنجلک بنانا نہیں چاہتے اور یہ کہ فلسفیانہ اور علامتی پیرایہء اظہار کے وہ قائل نہیں ۔علامتیں گڑھ گڑھ کر کہانی کو وہ  ’’ہوّا ‘‘ بناکر کہانی کار کی سماجی ذمہ داریوں سے دستبر دار ہونا قطعی پسند نہیں کرتے ۔وہ زمینی مسائل کو اپنی فکر کا محور بناکر مزاحمتی انداز تو اختیار کرنا جانتے ہیں،لیکن کسی ان دیکھے جہان کی تلاش میں انہیں کسی خلا ……… دراڑ ………  یا شگاف کا حصہ بننا قطعی منظور نہیں۔ ان کے معاصرین کیا اور کیسا ؟لکھ رہے ہیں اور ان کی ادبی لابنگ کے بنیادی ذرائع کیا کیا ہیں ؟ان سب سے بے نیاز ہوکر ایک عالم جنون میں  ’’لاوا ‘‘ کا خالق رحمان شاہی ہمیں ہمارے آس پاس کی کہانیاں سنا رہا ہے ۔ ’’لاوا‘‘ کی کہانیاں جب آپ پڑ رہے ہوں گے تو آپ یقینی طور پر یہ محسوس کریں گے کہ کوئی دھیرے دھیرے عالم بے خوابی میں آپ کو کہانی سنا رہا ہے۔ کچھ آپ بیتی تو کچھ جگ بیتی ،کچھ نرم تو کچھ گرم۔کبھی نمک دار تو کبھی بے نمک ،بغیر کسی تصنع اور لاگ لپیٹ کے ۔بس آپ ہی کی زبان میں تاکہ یہ کہانیاں آپ کی سماعتوں کا حصہ بنی رہیں۔ بلا شبہ ستم زدہ مفلوک الحال طبقہ کی عکاس ان کہانیوں کا اپنا ایک جہان ہے     ؎  

دنیانے تجربات و حوادث کی شکل میں
 جو کچھ  مجھے  دیا ہے  وہ  لوٹا رہا  ہوں  میں

اس میں شک نہیں کہ زیر مطالعہ افسانوی مجموعہ  ’’لاوا‘‘ سماجی حقیقت نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس میں اظہار ذات کاایک زرا کرب اور گھٹن تو شامل ہے ،لیکن بنیادی طور پر یہ انسان کے اجتماعی دُکھ درد کی اثر انگیز داستان ہے جس میں یاس و قنوطیت کاذرا سا شائبہ بھی نہیں ۔ماننا پڑے گا کہ رحمان شاہی کو آپ بیتی اور جگ بیتی کو بڑی چابکدستی سے ایک دوسرے میں تحلیل کر قارئین کے ایک بہت بڑے حلقہ کو اپنے زور قلم سے ایک دیکھی بھالی بلکہ یوں کہیں کہ ایک عام آدمی یا حاشیائی کردار کو کشادہ نظری سے مزید دیکھنے سمجھنے اور عصری حقائق کا ادراک حاصل کرنے کے لئے فرش نشیں ہوکر کہانی کا تانا بانا بننے کا جو سلیقہ معلوم ہے وہ کسی ہنر مند ہاتھوں کی ’’دست کاری ‘‘ سے کم نہیں ۔ہمارے عہد کے کئی نامی گرامی کہانی کار اس ’’دست کاری‘‘ سے مستثنیٰ ہیں ایسا نہیں ہے کہ ہمارے معاصر کہانی کار زندگی بردوش کہانیاں نہیں لکھ رہے ہیں ، لیکن بیشتر کے یہاں قصہ پن کا فقدان ہے۔ڈرائنگ روم کے ائیر کنڈیشن ماحول میں Cool.………ool ہوکر کہانی گڑھنے والے بہت دور تک باہر کی کھلی لیکن غیر صحت مند فضا میں ایک عام آدمی بن کر ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے کہ وہ ذاتی زندگی میں مصنوعی اور آرائشی زندگی جینے کے حددرجہ عادی ہوچکے ہیں یعنی اسٹیبلشمنٹ (Establishment) کے وہ لاشعوری طور پر بھونپو بنے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں لکھی پڑھی جانے والی بیشتر کہانیوں کا سماجی سروکار بس دال میں نمک کے برابر ہے۔ ’’سانپ کا پھن پکڑنے والے‘‘ ، ’’سلوگن‘‘،’’راستے بند ہیں‘‘،’’دھوپ کا سائبان ‘‘ ،’’لاوا‘‘اور انصار بھائی کی چُنیا ‘‘ جیسی بے باک اور عصرآشنا کہانیاں کم ہی لکھی جا رہی ہیں ۔بلکہ یہ کہنا شایدسچ ہوگا کہ لکھی ہی نہیںجا رہی ہیں ۔اگرآپ نے منشی پریم چند ،سعادت حسن منٹو ،راجندر سنگھ بیدی اور بطور خاص سہیل عظیم آبادی کو پڑھ رکھا ہے تو پھر متذکرہ کہا نیوں کے مز اج وماحول سے یقینا ہم آشنا ہو سکتے ہیں۔ ’’لاوا‘‘ کی بیشتر کہانیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ذاتی طور پر ایسا محسوس ہوا جیسے میں سہیل عظیم آبادی کی شہکار کہانی ’’الاؤ‘‘ کے اِردگرد بیٹھا سرد شریانوں میں ایک خاص قسم کی گرماہٹ سے زندگی کی ہولے ہولے لذت کشید کر رہا ہوں۔

میرا ایسا ماننا ہے کہ ’’لاوا ‘‘ کا خالق کسی بھی طرح کی مصلحت اور خود پسندی کا شکار ہوئے بغیر نظام جمہور کی آمرانہ ذہنیت اورطوطا چشم سیاستدانوں کی ضمیر فروشی کو بڑی ہُشیاری اور فن کاری سے طشت از بام کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔گذشتہ دہوں میں ہماری اردو کہانیوں سے سماج کاجو ایک بڑا افلاس زدہ طبقہ ( Resourceless People) جو سرمایہ دارانہ استحصال کا شکار ہوکر حاشیئے پر چلا گیا تھا اور جس کے ساتھ ہمارے سیاسی بازیگروں نے Use and throwکی پالیسی اپنا رکھی تھی،سچ تو یہ ہے کہ اس قبیل کے حاشیائی کرداروں کی ’’لاوا‘‘ کی بیشتر کہانیوں سے واپسی ہوئی ہے۔’’مٹھی بھر آسمان ‘‘،’’ سلوگن ‘‘اور ’’سانپ کا پھن پکڑنے والے ‘‘ جیسی کہانیاں تو ہمارے معاشرہ کو  Physical  Voilenceپر اکساتی نظر آتی ہیں ۔رحمان شاہی کی اس قبیل کی تقریباً تمام کہانیوں میں ایک خاموش احتجاج ایک مکمل Silent revolution  کا پروسس جاری و ساری ہے۔ اس میں مبالغہ نہیں کہ رحمان شاہی ایک انسان دوست کہانی کار ہیں ۔وہ اپنی عملی زندگی میں بھی سماجی ناانصافیوں، مزدوروں کی محنت مشقت کا استحصال کرنے والے ٹھیکیداروں ،سماج کے چودھریوں کے خلاف سینہ سپر رہے ہیں ۔گویا سیاسی بد اعمالیوں اور مہاجنی نظام سے پیدا شدہ سماجی بحران پر ان کے قلم کی گرفت مضبوط رہی ہے۔ ’’لاوا‘‘ کے مطالعہ سے یہ واضح بھی ہوتا ہے کہ اس میں شامل بیشتر کہانی قصوں کی بنیاد ان سماجی و سیا سی حقائق پر مستحکم ہیں ،جن سے کہانی کار کا ذاتی سروکار بھی رہا ہے۔میری مراد ان حقائق سے کہانی کار کی گہری ذہنی وابستگی ہے۔خالص مشرقی تہذیب و تمدن کی پروردہ ان کہانیوں میں ہمارے عہد کے معصوم لیکن زبوں حال لوگ باگ اور زوال آمادہ معاشرے کے مکروہ چہروں کو کئی زوایہ سے فوکس کیا ہے ۔یوں رحمان شاہی نے اپنی کہانیوں میں رونما ہونے والے روایتی وقوعوں کے برمحل اظہار کے لئے بہت زیادہ علامتی یا افلاطونی انداز اختیا ر کرنے سے دانستہ گریز کیا ہے۔رحمان شاہی نے اپنی کہانی کو Readable بنانے کے لئے اپنے مخصوص اسلوب و آہنگ کا خاص خیال رکھا ہے ۔ان کے یہاں لفظی شعبدہ بازی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کہانیوں کی زبان بہت سادہ اور سلیس ہے۔نچلے طبقہ کی نمائندگی کرنے کے لئے کہیں کہیں علاقائی زبان کا فراخدلی سے استعمال غیر ضروری محسوس نہیں ہوتا ۔کیونکہ  اس قبیل کے کرداروں کی طرز زندگی اور ان کے مسائل و افعال کو سمجھنے کے لئے علاقائی مکالموں کی ادا ئیگی برجستہ معلوم ہوتی ہے

’’آئے گا ساب آے گا ……‘‘ناتھن بولا ……’’جیسے آپ آیا ویسے سب آئے گا ۔پھر دیکھنا اِی جگہوا ایسی نہیں رہے گی۔‘‘

 افسانہ  ’’راستے بند ہیں‘‘

’’وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی جوگیا کے پاس آئی اور ساری کو چارپائی کی پٹی پر رکھ کر اس کی دُکھتی ہوئی ٹانگوں کو دباتی ہوئی بولی

        ’’اپن تنک بھی نہ سوچو ہو  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اس کے لہجے میں بڑا پیا ر تھا ۔
جوگیا نے کوئی جواب نہیں دیا ۔چپ چاپ بیٹھا رہا ۔
وہ پھر بولی
’’تنک بولو جی ،ایسے گم سم کا سوچو ہو  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘

وہ پھر بھی خاموش ہی رہا ۔تب ستبیا نے اس کی ٹانگ میں زور سے چیونٹی کا ٹ لی اور وہ اچھل پڑا۔پھر کچھ سوچ کر کھل کھلا کر ہنسنے لگا ۔ ستبیا بھی ہنسنے لگی              پھر بولی ’’کا سوچت رہیں ؟‘‘

’’کچھ نا رے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ‘‘وہ بولا’’ من کا بوجھ ہلکا ہوا ہے نا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو سکون ملت رہے اور کا ۔‘‘

(افسانہ ’’مٹھی بھر آسمان ‘‘)

’’اپن کا تو سالاhabitہی کھراب ہوگیا ۔تم لوگ کے ساتھ رہتے رہتے بھول ہی گیا کہ ۔۔۔۔۔۔کہ اپن son of Enghlish man ہے۔ بیڑی نائیں پیتا، تاڑی نائیں پیتا ،سگریٹ پیتا ہے،wineپیتاہے۔پر سالا سب کچرا ہوگیا ۔دے بیڑی دے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

(افسانہ ’’سانپ کا پھن پکڑنے والے ‘‘)


      یوں بھی ’’لاوا‘‘کی تقریباً تمام کہانیاں گنگا جمنی تہذیب کی منہ بولتی تصویر معلوم ہوتی ہیں ۔ان کہانیوں کو آپ کسی مخصوص ادبی نظریوں کی عینک لگا کر نہیں دیکھ سکتے۔یہ آدھے ادھورے آدمی کی کہانیاں ہیں ۔بقول کہانی کار

’’میں سیدھا سادا آدمی ہوں ۔لیکن پورا پورا آدمی نہیں ۔آدھا ادھورا آدمی ہوں ۔آدمی پورا ہوتا بھی نہیں ہے ۔شاید اسی وجہ سے میری کہانیوں میں کسی اور دنیا کے لوگ نہیں ہوتے ہیں ۔آپ ہوتے ہیں ۔سڑک کے کنارے اسٹال لگا کر چائے بیچنے والا ہوتا ہے ۔بہنگی والے اور خوانچے والے ہوتے ہیں ۔دفتر کے بابو لوگ ہوتے ہیں ۔میری امی جان،بھائی جان ،میری بیوی اور میرے بچے ،رشتے دار ،دوست یار،ملاقاتی سب ہوتے ہیں۔ جن کو میں نے دیکھا وہ بھی ہوتے ہیں اور جنہیں میں نے دیکھا نہیں بس ان کے بارے میں سنا وہ بھی ہوتے ہیں ۔سب اپنے ہوتے ہیں ۔میرا کنبہ بہت بڑا اور پھیلا ہوا ہے۔مختلف شہروں میں ،گاؤں اور قصبوں میں۔ملک کے اندر اور ملک کے باہر ۔اس لئے میرا کوئی خاص شہر نہیں ہے ،۔کوئی ایک علاقہ ، کوئی خاص گاؤں یا جانا پہچانا قصبہ نہیں ہے ۔زمین کے ہرخطے میں میرے کنبے کے لوگ بسے ہیں ۔اپنی اپنی زندگی جی رہے ہیں ۔ہنستے ہوئے ،کہیں روتے ہوئے۔اس لئے میں اپنے کنبے کی کہانیاں سناتا ہوں ۔کبھی خوش خوش تو کبھی دکھی من سے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  باؤلا ہوں ۔اپنی کہانیوں میں جینے کی کوشش کرتا ہوں۔ خواب دیکھتا ہوں ۔تعبیر نہیں معلوم  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ‘‘

(’’ذرا سی بات‘‘ ۔صفحہ۲۴،۲۵اور ۲۷)

    کہتے ہیں کہ ہر خواب کی تعبیر ممکن بھی نہیں ۔جمہوری نظام ادر زندگی کے مختلف شعبوں پر حاوی ہوتی ہوئی سیاسی و صنعتی بالا دستی نے ایک نئے زمیندارانہ نظام کو جنم دیا ہے جسے ہم بیوروکریسی کا نام دے سکتے ہیں ۔ہر زمانہ میں عام آدمی کا استحصال ہوتا رہا ہے ۔ سوشلزم محض تصّو ر کی باتیں ہیں ۔شاید یہی بنیا دی وجہ ہے کہ کہانی کار خواب کی تعبیر نہیں بتاتا۔ یوں بھی کہانی کار کا کام ہے کہانی سنانا ۔اگر ہماری کہانیوں میں زمین کی سوندھی سوندھی خوشبو ؤں کے ساتھ حیاتِاانسانی کے نت نئے مسائل کی عصری معنویت کو فوکس کرتے ہوئے اس کے مثبت پہلوؤں کوفکرو فن کی سطح پر کچھ یوں انگیز کیا گیا ہوکہ اس پر یاسیت اور قنوطیت کا ایک زرا پرَچھاواں نہ پڑا ہو تو پھر کہانی کار کا اپنا موقف واضح ہے۔ اب اسے چھو کر بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے عہد کا کہانی کار محض قلم کا سپاہی ہے ۔ وہ کوئی خطیب یا سماجی مصلح نہیں ۔اسے بننا بھی نہیں چاہئے ۔بگڑتے ہوئے معاشرہ اور مفاد پرست سیاسی نظام کی گود میں پرورش و پرداخت پانے والی کہانیوں کو با مقصد ،لیکن معنی خیز بناکر اپنے مخصوص اندازبیان میں پیش کرنا ہی میرے خیال سے ایک کہانی کار کا اہم فریضہ ہے اور بس۔اس نقئط نظر سے آپ دیکھں تو رحمان شاہی نے بطریق حسن ایک کہانی کار کے اہم فریضہ کی ادا ئیگی کی ہے۔

’’لاوا‘‘ کی کہانیوں میں فکر وفن اور زبان و بیان کی سطح پر کوئی جھول نہیں ۔البتہ  ’’سانپ کا پھن پکڑنے والے‘‘ اور ’’مٹھی بھر آسمان‘‘ میں واقعات و حادثات کو غیرضروری طول دیا گیا ہے ۔ہرچند کہ ان کہانیوں میں دلخراش واقعات و روح فرسا حادثات بھی قلم بند ہوئے ہیں ۔اس قبیل کی کہانیوں میں معاشرہ میں جو بتدریج اخلاقی گراوٹ در آئی ہے اس پر گہرا طنز بھی ہے ۔سیاسی نظام (Political System) اور سماجی اسٹبلشمنٹ(  Social Establishment) سے لڑنے بھڑنے پر آمادہ قلم کا ر نے بڑی تخلیقی ہنر مندیوں سے اپنی کہانیوں کا  ’’انجام بخیر ‘‘ لکھا ہے۔مجھے ذاتی طور پر کہانی  ’’انصار بھائی کی چُنیا ‘‘ اور   ’’دھوپ کا سائبان  ‘‘ بے حد پسند آئی ۔ ’’انصار بھائی کی چُنیا‘‘میں لاشعوری طور پر غلام عباس کی  ’’آنندی  ‘‘ اور منٹو کی بیشتر کہانیوں کی اپنی قیامت خیزجوانی کے تیر و ترکش سے لیس ایک مکمل عورت کی شبیہ نظر آئی ۔یاد رہے کہ یہاں جنسی لذت کے لئے سطحی جذباتیت کا سہارا نہیں لیا گیا ہے ۔ اپنی تمام نسوانی کمزوریوں کے باوجود مسجد کے دروازے پر کھڑی چُنیا ایک غیر معمولی عورت ہونے کا بھر پور بھرم رکھتی ہے۔اس کہانی میں بطور خاص کسی فرد(انصار بھائی)کی محض ذاتی لغزشوں اور اس کی نجی زندگی کے کمزور لمحوں کو سماجی وقار کا مسئلہ بناکر سماج کے نام نہاد ٹھیکیداروں اور چند خود ساختہ پاکبازوں کی من مانی اورایک طرح سے ہٹ دھرمیوں کو بڑی فن کاری سے طشت از بام کیاگیا ہے۔’’دھوپ کا سائبان ‘‘ ملک کی تقسیم کے عوض میں وراثت کے طور پر ہمارے حصے میں آئے فساد وخون کے پس منظر میںلکھی گئی ایک سلجھی ہوئی کہانی ہے جس میں کہانی کار گنگا جمنی تہذیب کو گلے سے لگا تا ہوا نظر آتا ہے۔سماجی ساجھاداری ،قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے ’’دھوپ کا سائبان ‘‘ بھی ایک یاد گار کہانی ہے۔اس میں کہانی کار کا نقط نظر ،اس کا سیکولر ذہن بہت واضح اور قابل تقلید بھی ہے۔

کہنا چاہئے کہ رحمان شاہی کو اپنے عہد کی کہانی گڑھنے ،پیش کرنے یا سنانے کا گرُ معلوم ہے اور یہ بھی کہ ’’لاوا ‘‘ کی ان کہانیوں میں سماجی رشتوں کے استحکام ، اجتماعی دُکھوں اور زمینی مسائل کو موثر ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے ۔ان کہانیوں کا Social Concern ہی رحمان شاہی کو ان کے معاصرین کے درمیان ممتاز بناتا ہے۔  رحمان شاہی کہانی سناتے وقت شعوری طور پر قاری کو لفظ ومعنی کی بھول بھلیوں میں نہیں لے جاتے ،بلکہ دوران مطالعہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مکمل طور پر وہ رحمان شاہی کے تخلیقی عمل میں شامل ہے۔ ’’راستے بند ہیں ‘‘ سے ’’دُش چکر ‘‘ تک رُوئے زمین پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،بھائی چارگی، انسان دوستی اور امن و شانتی کے لئے جو خیر وشر کی جنگ جاری ہے اس میں بہر حال کہانی کار ’’خیر ‘‘ کا ہی طلبگار ہے۔صداقت و خیرہی زندگی کی بنیادی اور اعلیٰ اقدار کے غماز ہیں اور یہی ہمارے کہانی کار کا زوردار موقف بھی ہے،جس کے تخلیقی اظہار میں ’’لاوا ‘‘ کا کہانی کار بھی خاصہ کامیاب نظر آتا ہے۔ ’’لاوا ‘‘ کی تمام کہانیوں میں شعوری طور پر کہانی کار کا یہ منشا بھی صاف جھلکتا ہے کہ ہر کہانی کا ایک اصلاحی پہلو بھی پیش نظر ہو۔یہ سچ بھی ہے کہ رحمان شاہی کی تخلیقی نگاہ سے اپنے بزرگ فکشن رائٹر اور پیش روؤں کا سرمایہ ایک ماڈل کے طور پر کبھی اوجھل نہیں رہا اور یہی لاشعوری طور پر ان کی کہانیوں کو رسد پہنچاتا رہا ہے۔ہر چند کہ کہنے کو نئی کہانی کی بازیافت کا سفر ابھی جاری ہے۔ایک نہ ختم ہونے والا سفر۔شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ کہانی کا کوئی اختتام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہا ں سے شرو ع ہوتی ہے؟ اور کہاں پہ ختم  ۔۔۔۔۔؟؟؟

 مختصر یہ کہ زیر مطالعہ افسانوی مجموعہ ’’لاوا  ‘‘ زمینی حقائق کا معنی خیز استعارہ ہے اور بقول پروفیسر قمر رئیس

’’ اس مجموعہ کی کم وبیش ساری کہانیاں کبھی کھلے پن ، کبھی سرگوشی میں قاری سے کچھ کہتی ضرور ہیں ۔ ‘‘

 اور یہ ’’کچھ کہنا ‘‘ہی رحمان شاہی کی کہانیوں کا وصف ِخاص ہے۔
 

(سبق اردو: شمارہ۔ ۲۴)


^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

Comments


Login

You are Visitor Number : 527