donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Obaid Qamar : Ahad Aashob Ka Afsana Gar


عبید قمر- عہد آشوب کا افسانہ گر


شمیم قاسمی


تیز رفتار زندگی کے شب وروز میں انسانی زندگی کا ہر عمل عجلت پسندی کاشکارہے۔ ادیب و شاعر کی زندگی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ وقتی شہرت ا ورخود نمائی کے جنون میں معاصر زبان و ادب کے قلم کار بھی ایک دوسرے سے کم نہیں۔ نئی نسل کے بیشتر قلم کار تو ادب کے چور دروازے سے داخل ہوکر جلد ازجلد ’’ایوارڈ یافتہ‘‘ اور بین الاقوامی شہرت یافتہ وغیرہ ہونے کی دوڑ میں شامل ہونے کے لئے ہاتھ پائوں مارتے نظر آرہے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے بعد کی نسل کے نام پر ان کے مختلف ہونے کی آخر بنیادی اساس کیاہے؟ اس نسل میں ایسے قلم کار بھی شامل ہیں جو ۶۵-۱۹۶۶ کے درمیان پیدا ہی ہوئے لیکن ۱۹۸۰ء کے بعد کے اردو ادب میںاپنی شمولیت پر پرزور اصرار کرتے نظر آتے ہیں ۔اپنے پیش رو ادبی سرمایوں اوراپنے بزرگوں کو نظرانداز کرنے میںاس نسل کا جواب نہیں۔ بہرحال ۱۹۸۰ء کے بعد کی اردو شاعری ؍ فکشن کا شوشہ چھوڑ کر ایک مخصوص نسل کے چند کائیاں ( مالی طورپر خوشحال بھی) قسم کے ادبا و شعراء کی غیر ادبی سرگرمیوں سے کون واقف نہیں۔سندرہے کہ اردو اکادمیوں کے مالی تعاون اور کچھ جیب خاص سے رواں صدی میں کچے پکے شعری وافسانوی مجموعوں کی اشاعت دھڑلے سے ہورہی ہے۔ جس طرف دیکھئے’’ لو آج ہم بھی صاحب دیوان ہوگئے‘‘ کا شور برپاہے۔ یوں تازہ واردان ادب جھوم رہے ہیں   ؎

مرغ کا  ذکر کیا  کریں  جمُن         اب تو چوزے بھی بانگ دینے لگے

۱۹۷۰ء کے دہے میں اپنی پہچان بنانے والے زیر مطالعہ افسانوی مجموعہ   ’’ننگی آوازوں کی گونج‘‘ کے خالق کامعاملہ اوروں سے بہت مختلف ہے۔ تقریباً تین دہائی سے مسلسل مالی بحران اورغیر موافق حالات کا شکاررہے ممتاز کہانی کار عبید قمر کا ادبی سفر مخالف ہوائوں کا تھپیڑا کھاتے ہوئے بھی سوئے منزل گامزن رہا۔

یہ حقیقت پسندانہ اظہار ہے کہ معاشی بدحالی اور رہائشی اعتبار سے ایک قسم کی بے سروسامانی انسانی زندگی کے سکھ چین چھین لیتی ہے۔ ایسے میں ذہنی یکسوئی ختم ہوجاتی ہے توپھر قصے کہانیوں کے بارے میں کون سوچتا ہے۔ زندگی کے اذیت ناک اورنہایت ناگفتہ بہ حالات میںبھی کوئی قصے کہانیوں سے اپنے عہد کے آشوب کو اپنی تخلیق کے ذریعہ ایک اچھوتا زاویہ نگاہ دیکرمشینی عہد کی استحصالی قوتوں سے خندہ بہ لب نبرد آزمائی پرآمادہ نظر آتاہو تو یہ یقینا قابل تحسین ہے۔ سچ ہے کہ عبید قمر نے کسی صلہ کسی ستائش کی تمنا کئے بغیر ایک قسم کی شان بے نیازی سے عصری زندگی کے نت نئے مسائل کو اپنی فکر کا محور بنایا ہے ۔ یوں اپنی نجی زندگی کی ناآسودگی کو لاشعوری طور پر بھول بیٹھے ہیں۔عبید نے اپنی ذاتی اورسماجی زندگی کے متعلقات سے جوزندگی بردوش کردارخلق کئے ہیں ان سے متعارف ہونے کے بعد پتہ چلتاہے کہ ننگی آوازو ں کے خالق کا سماجی سرورکار بڑا اٹوٹ ہے۔ گزشتہ برسوں سے کہانیوںسے جو کردار غائب ہورہے تھے ان کی واپسی کے امکانات کے تناظرمیں بطورخاص زیر مطالعہ کتاب ہمیں متوجہ کرتی ہے۔

یہ وہی عبید قمر ہیں جنہوںنے آج سے تقریباً ۳۰ سال قبل ’’مرغا‘‘ جیسی بولڈ کہانی لکھی اور عظیم آباد( پٹنہ) کی ایک ادبی نشست میں اپنے مخصوص اندازمیںکہانی پڑھ کر ہنگامہ برپا کردیاتھا۔ تب چند خودساختہ ناقدین؍ ادبی بزرگوں کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے تھے۔اس کہانی میںآخرکیا تھا؟ بات بس اتنی سی تھی کہ اس کہانی میں عبید قمر نے انسانی زندگی کی جنسی جبلت کے ایک مخصوص اورتاریک گوشہ کوبڑے ہی فنکارانہ ڈھنگ اورتازہ فکری کے ساتھ فوکس کرنے یا Limelightمیںلانے کی ایک ذرا غیر روایتی انداز میں جسارت کی تھی۔ ان کی اس جسارت یا ’’جرأت بے باکانہ‘‘ کوبڑے بزرگوںنے’’انداز گستاخانہ‘‘ کانام دے کر خوب واویلا مچایاتھا۔ میرے خیال سے جنسی بے راہ روی اور لذت کوشی کے پس نظرمیں عبید قمر کی کہانی’’مرغا‘‘ بھیEristic writingکی عمدہ مثال ہے۔ زیر تبصرہ کہانیوں کے مجموعے کوالٹ پلٹ کر دیکھنے لگا تو یہ ضمنی باتیں یاد آگئیں۔سچ تو یہ ہے کہ ’’مرغا‘‘ جیسی ہنگامہ خیز کہانی کے بعدکہانی کاربرسوں خاموشی کی چادراوڑھے پڑارہا اور جب جاگا تو اسکے آس پاس کا بہت کچھ بدل چکاتھا۔ خواہ انسانی زندگی ہو کہ تخلیق شعر وادب سے ذہنی وابستگی، سائنس اورٹکنالوجی کی نئی دریافتوں اورعالم کاری کے تصور نے سب کچھ الٹاپلٹا کررکھاتھا۔ ترقی کے نام پر شہری زندگی تو سب سے زیادہ متاثر ہوئی تھی۔چہارجانب منافقانہ ماحول میں اپنے پرائے کی تمیز ختم ہوتی جارہی تھی۔ ہر شخص عہدموجود کی پراگندہ اورمشکوک فضا میں خود کوغیر محفوظ محسوس کرہاتھا۔ صنعتی انقلاب اور شہری زندگی کے سنگین مسائل سے پیداشدہ غیرصحت مند سماج میں حساس دل انسان کیلئے زندگی بسر کرناکوئی آسان کام نہیں لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ زندگی نام ہے مرمر کے جیئے جانے کا۔تو یہ بھی سچ ہے کہ ہم سب اس حقیقت پسندی کے ساتھ زندہ رہنے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اس میں ننگی آوازوں کی گونج کا خالق بھی شامل ہے اور اس کی کہانیوں کے سارے جیتے جاگتے کردار بھی۔ زیر مطالعہ مجموعے میں شامل تقریباً تمام کہانیوں کے کردار اس بات کے گواہ ہیں کہ عبید قمر نے اپنے کرداروں میںڈوب کر جینے کا ہنر سیکھ لیاہے۔

عالمی شہرت یافتہ بزرگ فکشن رائٹرجوگندرپال نے عبیدقمر کی اس قبیل کی کہانیوں کو پڑھ کر اپنی یہ گراں قدر رائے دی تھی کہ’’ آپ نے کہانیوں نہیں لکھی ہیں،بستیاں بسائی ہیں‘‘ ہر چند کہ ان بستیوں کے مکان و مکین اب بہت تیزی سے تغیر پذیر معاشرہ کا بڑے میکانکی انداز میں حصہ بنتے جارہے ہیں۔ گارے اورمٹی سے بنے ان بستیوں کے پرسکون مکانوںکی جگہ فلک کا بوسہ لیتی ہوئی سی عمارتوں کے نیم تاریک چھوٹے چھوٹے کمروںمیںبند ہم نہایت مصنوعی رہائشی زندگی جینے پر بے بس نظر آتے ہیں۔ ان کمروں کی دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ ہماریPrivacyپرکہانی کار نے ایک بڑاسا سوالہ نشان لگایا ہے۔ دراصل ننگی آوازوں کی گونج نے ہماری ذاتی زندگی کے Secretsکو بڑی بے رحمی سے بے نقاب کردیاہے   ؎

 دیواروں کے کان کھڑے ہیں
جو بھی بولو، آہستہ سے

عبید قمر بلاشبہ عہد آشوب کا باخبر کہانی کار ہے۔ افسانہ گر ہے اور اسکی تقریباً تمام کہانیوں میں اس کا ظاہر و باطن عیاں ہے بلکہ خوف اور’’ایک اخبا ر کی سرخی‘‘ میں تووہ اپنی دائمی محرومی کے ساتھ ہر سطر ہر منظر میںموجو د ہے۔ اس نے پورے عصری شعور کے ساتھ کہانیوں کی جو ایک جانی انجانی سی بستی بسائی ہے وہ عہد سفاک اور شہر آشوب کا فکر افروز اور پر درد نوحہ ثابت ہوئی ہے۔ ذاتی اور اجتماعی کرب کے اظہارمیں اس کے یہاں نہ صرف حد ت و شدت ہے بلکہ زبان اور طرز بیان میں ندرت و جدت بھی ہے۔ زیر تبصرہ مجموعہ میں بطور خاص آدمی، دہشت زدہ حالات ، خوف اور’’ایک اخبار کی سرخی‘‘ وغیرہ کہانیوں کونظرانداز نہیںکیاجاسکتا۔ اس قبیل کی کہانیاں کسی معنوی تہہ داری کے بغیر بھی موضوعی اعتبار سے ہماری روز مرہ کی زندگی کے تاریک و روشن پہلوئوں ، ذہنی انتشار کے ساتھ اجتماعی دکھ سکھ کی رفاقتوں اورشہر آشوب کے درپیش مسائل کا موثر اورمعنی خیز اشاریہ ہیں۔ فکر وفن کی سطح پر اکہرے بیانیہ اورمعنی ومفہوم کی ان کہانیوں پر علامتی طرز اظہار کی ایک ہلکی سی دھند ضرورہے لیکن ان کہانیوں میں ترسیل وابلاغ کاکوئی مسئلہ نہیں۔

زیر مطالعہ کہانیوں کی روشنی میں کہاجاسکتاہے کہ عبید قمرعصری کہانیوں کاایک جنوین درد مند اوربیدار ذہن کہانی کار ہے۔ وہ عام فہم اورسادہ زبان و اسلوب میں بڑے فن کارانہ ڈھنگ سے چھوٹی چھوٹی باتوں کوکہانی بنانے کا گرجانتاہے اوران کہانیوں کے کرداروں کے ساتھ جینے میں اسے بڑامزہ ملتا ہے۔ محدود واقعات کوایک بڑے کینوس پرپھیلاکر اسے لامحدود کرنے میں اس کاجواب نہیں۔ وہ اپنے موقف کے اظہار میں ہرجگہ کامیاب وکامران نظر آتا ہے۔ اسکی بیشتر کہانیوں میں آپ بیتی کو جگ بیتی بناکر پیش کرنے کا شعوری عمل ملتاہے خواہ’’ اخبار کی ایک سرخی‘‘ میں خود کشی کرنے والا حالات کا مارا بزدل نوجوان ہو یا’’کترن‘‘ کوایک نئی جہت ومعنویت سے ہمکنار کرنے والاCutting Masterیا کہانی ’’دہشت زدہ‘‘ کا وہ نوجوان جو کسی دواکمپنی میںMedical Represntativeہے۔ جواپنے اطراف کے مشکوک ماحول سے اس حد تک سراسیمہ ہے کہ وہ دوست اوردشمن کی تمیز بھی کھوبیٹھاہے۔ کہانی خوف میںیہ باور کرایاگیا ہے کہ زندگی کے ناہموار اورغیر موافق ماحول اور معاشی بدحالی میں انسانی ذہن پرکبھی کبھی خوف بھوت بن کر یوں مسلط ہوجاتاہے کہ انسان اپنی بشری نیکیوں، سماجی ذمہ داریوں اور بحیثیت گارجین اپنے فرائض سے بھی دانستہ کنارہ کش ہونے پر آمادہ نظر آتاہے۔ معاشی بحران کے بطن سے ابھرنے والے ایک نامعلوم سے خوف نے اسے بزدل بنادیا ہے۔ چنانچہ خوف کی سائیکی کاشکار اس کہانی کا’’منجھلا بھیا‘‘ جواپنی بنیادی ذمہ داریوں اور رشتے ناتوں سے دامن جھٹک کر راہ فرار کے لئے کمربستہ تو ہے لیکن اسے عملی جامہ پہنانے سے غیرارادی طور پر خوف زدہ بھی ہے۔ یہ کیسا خوف ہے؟ایک طرح سے مردہ پرست معاشرہ پربھرپور چوٹ ہے۔کہانی ’’پنکھاشاہ‘‘توہم پرست کہانی ’’حالات‘‘ملک کے دہشت گردانہ ماحول میں آئے دن جنم لینے والی چھوٹی موٹی چوری اورچلتی ٹرین میںلوٹ مار کے واقعات و حادثات کے تناظر میں لکھی گئی ایک عام  سی بمبیّا ٹائپ کہانی ہے۔ لیکن اس کہانی کے ذریعہ کہانی کارنے ہماری بہوبیٹی کی عزت وعصمت بچانے کے لئے’’مرنے مارنے‘‘ کے لئے باہیں چڑھالیا کرتے تھے۔ آج عالم یہ ہے کہ ہم خود بھی برباد ہوتے ہیں اور دوسروں کی بربادی کا تماشا دیکھنے پرمجبور ہیں۔ اس صورت حال کیلئے ہم سب ذمہ دارہیں۔ موت کے خوف نے ہمیں بزدل بنادیا ہے۔ اور شاید اسی خوف نے ہم سے قوت مدافعت بھی چھین لی ہے۔ میرے خیال سے کہانی کاربنیادی طور پر یہی نکتہ چینی پیش کرنا چاہ رہا ہے کہ دفاعی تدابیر کے فقدان کی وجہ کر ہم ہر محاذ پرپسپا ہورہے ہیں۔ یہ سچ بھی ہے کہ دہشت زدہ ماحول میں ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پوری طرح مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایسے حالات میں ہمارا رویہ Defensiveنہ ہوکر Offensiveہوجاتاہے۔ اور جس کانتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ Burning Topicکے باوجود زیر مطالعہ کہانی اپنے خالق سے اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے مزید محتاط ہوکر قلم بند کیاجائے۔

مختصر یہ کہ زیر مطالعہ مجموعہ میں آدمی سے لے کر کلنڈر تک کی ساری کہانیاں (زخمی مسکراہٹ کو چھوڑ کر) ہمارے ارد گرد کے ماحول اورمعاشرہ سے جنم لیتی ہیں۔ عبیدقمر کا قلم حقیقت آشنا ہے اورکترن جیسی عہد خیز کہانی میں تواس کا قلم عرفان و ادراک کی بلندیوں کو چھوتانظر آتا ہے۔ نظریاتی طور پر عبید کسی خاص نظریے یا کسی ادبی تحریک سے براہ ر است وابستہ نہیںرہے بلکہ جیسادیکھا ویسا ہی پیش کرنے پرقادر رہے۔ ان کے طرز اظہار میں سادگی اور والہانہ پن ہے۔ وہ اپنی بات کوگھما پھرا کر کہنے کے عادی نہیں۔ حرف و لفظ سے معنی کشید کراپنی کہانیوں کی بستی کونئی سج دھج کے ساتھ ڈھیر ساری کہانیوں کے درمیان نمایاں کرنے کافن کارانہ ہنرانہیں خوب آتا ہے۔ روز مرہ کی بول چال بلکہ علاقائی رنگ وآہنگ نے ان کی کہانیوں کوایک بے تکلف اور غیر تصنع ماحول دیا ہے۔ ان کی بیشتر کہانیوں میں ایک استعجاب ،ایک تحیر کا ماحول آشکارا ہے۔ عصری زندگی کے گوناگوں مسائل سے جوجھنے اور پھر حالات کے جبر سے نکلنے کی سعی نے عبید کی کہانیوںمیں’’کہانی پن‘‘ کے تصور کو استحکا م بخشا ہے جو یقینا خوش آئند ہے۔

 ’’ننگی آوازوں کی گونج‘‘ عبید قمر کے قلم سے نکلی ایک ایسی ’’تخلیقی گونج‘‘ ہے جو باذوق قارئین کی سمعی اور بصری کائنات کو جھنجھوڑ نے میں بے حد کامیاب نظرآتی ہے۔
٭

      (تحریک ادب،بنارس۔ شمارہ ۔ ۴)   

****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 477