donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Suhail Anjum
Title :
   Gaye Din Ke Tanha Tha Mai Anjuman Me


علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر لکھی گئی ایک رپورٹ نما تحریر


گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں


سہیل انجم


ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں             ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں             یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر            چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

علامہ اقبال اگر آج بقید حیات ہوتے تو اپنے نام پر دنیا بھر میں قائم ہونے والے اداروں کو دیکھ کر جھوم جھوم اٹھتے اور عالم رنگ و بو پر قناعت نہ کر کے نئے چمن اور نئے آشیانوں کی تلاش کی تلقین کو نئے ابعاد دے دیتے۔ جن اشعار کا میں نے حوالہ دیا ہے وہ آج عملی طور پر پورے عالم کو محیط ہو گئے ہیں اور اقبال شناسی اور اقبالی ادب کے نئے نئے پہلو تلاش کرنے کی کوششیں خاصی تیز ہو گئی ہیں۔ اُس اقبال کی جستجو آج پوری دنیا میں انتہائی لگن اور دلچسپی کے ساتھ کی جا رہی ہے جو بڑی کاوش اور بڑی مدت کے بعد زیر دام آتا ہے۔ اقبال نے خود کہا ہے کہ: اُسی اقبال کی میں جستجو کرتا رہا برسوں، بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہیں زیر دام آیا۔ اُس شاہین کو زیر دام کرنے کے لیے مختلف شہروں اور قصبوں میں ادارے تو قائم ہی ہوئے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے Toolsکو بھی آزمایا جا رہا ہے اور اقبال کے نام پر یکے بعد دیگرے متعدد ویب سائٹس قائم ہوتی جا رہی ہیں۔

ہندوستان کے گوشے گوشے سے اقبال نامی جوئے حیات ابل ابل کر محبانِ شاعرِ مشرق کو نئی ترغیب، نیا انسپریشن اور نئی پریرنا دے رہی ہے۔ ملک کے جنوب مشرقی ساحل پر بسے آندھرا پردیش کا شہر حیدر آباد دکن ہو، یا جنوب مغربی ریاست کیرالہ ہو، وسطی ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش ہو، یا دارالحکومت دہلی ہو، جموں و کشمیر ہو یا شمالی ہند کا اترپردیش ہو، کہاں پر اقبال شناسی کے لیے ادارے قائم نہیں ہیں۔ دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا، یہ اک مردِ تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا۔ پاکستان میں تو حکومت کی سطح پر اقبال اکیڈمی قائم ہے۔ اقبال ایئر پورٹ ہے۔ اقبال اوپن یونیورسٹی ہے۔ اقبال میڈیکل کالج ہے اور جانے کیا کیا ہے۔ اسی طرح امریکہ، برطانیہ، ڈنمارک، کناڈا اور دوسرے کئی ملکوں میں اقبال شناسی کے ادارے قائم ہیں۔

اس مضمون میں چند اداروں کا تعارف کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ جو اقبال دریچے کھلے ہوئے ہیں وہاں سے کچھ جھانکنے کا موقع مل سکے۔ ہندوستان کے حیدر آباد شہر کا اقبال سے ایک خاص رشتہ رہا ہے۔ یہاں پہلی بار اقبال کے منتخب کلام ، ان کے بعض مضامین کے مجموعے، ان کے منتخب خطوط اور فلسفہ ¿ عجم اور مرقع اقبال کی اشاعت ہوئی۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان اور ڈاکٹر امتیاز احمد نے پہلی بار اقبال پر اہم تنقیدی کام کیا۔ ایک مقبول رہنما سید خلیل اللہ حسینی نے ۹۵۹۱ میں حیدرآباد میں اقبال اکیڈمی قائم کی تھی۔ آج یہ ادارہ اقبال پر کام کرنے کے ایک اہم مرکز کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ یہاں متعدد قابل ذکر سمینار اور پروگرام منعقد ہو چکے ہیں۔ ۲۷۹۱ اور ۶۸۹۱ میں دو بین الاقوامی سمینار منعقد ہوئے جن میں ڈاکٹر انامیری شمل، ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد اور عثمانیہ یونیورسٹی کے غلام دستگیر اور عزیز احمد سمیت بڑی تعداد میں اقبال اسکالروں نے شرکت کی ۔اس اکیڈمی کے توسط سے اقبال کے فکر و فلسفہ کو پوری دنیا میں عام کرنے کی کوشش خاموشی سے جاری ہے۔ یہاں سے ”اقبال ریویو“ نام کا ایک شش ماہی جریدہ بھی شائع کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک اچھی لائبریری بھی ہے جس میں اردو، فارسی، انگریزی اور دیگر زبانوں کی تقریباً تیس ہزار کتابیں ہیں۔ اکیڈمی کی جانب سے اقبال سے متعلق چالیس کتابیں شائع کی جا چکی ہیں جن میں عالم خوندمیری کی ”اقبال: کشش اور گریز“، پروفیسر سید سراج الدین کی ”مطالعات اقبال: چند نئے زاویے“ اور صالحہ الطاف کی ”اقبال سے ملیں“ قابل ذکر ہیں۔

مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں ”اقبال مرکز“ کے نام سے ایک سرکاری ادارہ ہے۔ یہاں سے سالانہ علمی و ادبی کام کرنے والی کسی شخصیت کو ایوارڈ دیا جاتا ہے جس کا نام ”اقبال سمان“ ہے۔ اب تک متعدد اسکالروں کو یہ ایوارڈ حاصل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ سمیناروں اور دیگر پروگراموں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ بھوپال سے بھی علامہ اقبال کا گہرا تعلق رہا ہے۔ یہاں انھوں نے ۴۳۹۱ سے ۸۳۹۱ کے درمیان اپنے قیام کے وقت ۴۱ نظمیں کہی تھیں۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ جن عمارتوں ریاض منزل، راحت منزل اور شیش محل وغیرہ میں انھوں نے قیام کیا تھا وہ بے حد خستہ حالی سے دوچار ہیں۔ وہاں قریب میں ایک ”اقبال میدان“ بھی ہے۔ علامہ اقبال بھوپال میں بغرض علاج گئے تھے۔ بھوپال کے آخری حکمراں نواب حمید اللہ خاں نے ان کے لیے پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا۔ انھوں نے شیش محل ہی میں یہ اشعار لکھے تھے:

یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز        نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود    ہوتی ہے بندہ ¿ مومن کی اذاں سے پیدا

شیش محل کا ایک بڑا حصہ ۰۷۹۱ میں سڑک کو کشادہ کرنے کے دوران منہدم کر دیا گیا اور بقیہ حصے میں کوآپریٹیو بینک قائم ہے۔ یہاں ایک اقبال لائبریری بھی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی جو پہلے اس لائبریری کی مالی امداد کرتی تھی، اس کے ہاتھ کھینچ لینے کے بعد اب اس کے ساڑھے تین سو ممبران اپنی ممبرشپ سے اس کو چلا رہے ہیں۔

 ریاست کیرالہ میں ترو اننت پورم ضلع کے پیرنگامالا میں ۴۶۹۱ میں اقبال کالج ٹرسٹ قائم ہوا تھا۔ اس کے تحت ۳۰۰۲ میں علامہ اقبال انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ یونیورسٹی آف کیرالہ سے ملحق اور آل انڈیا کونسل آف ٹیکنیکل ایجوکیشن اور کیرالہ حکومت سے منظور شدہ ادارہ ہے۔ یہ مکمل رہائشی انسٹی ٹیوٹ ہے۔ یہ ادارہ کیرالہ میں بہترین اداروں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کے تعلیم یافتہ طلبہ کو ملازمتوں کے اچھے مواقع ملتے ہیں۔ 

اقبال اکیڈمی انڈیا بھی اب اقبال کے نام سے قائم اکیڈمیوں میں ایک اہم مقام حاصل کر چکی ہے۔ اس کے صدر جناب سید ظفر محمود اور وائس چیئر مین پروفیسر عبد الحق ہیں۔ اس کی مشاورتی کمیٹی میں پروفیسر توقیر احمد بھی شامل ہیں۔ اس کا قیام غالباً ۱۱۰۲ میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے بعد سے اس اکیڈمی کے تحت متعدد پروگراموں کا انعقاد ہو چکا ہے۔ اس کی ایک بہت خوبصورت سی ویب سائٹ ہے جس پر تحریر ہے:

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ        اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

اس اکیڈمی کے تحت یوم اقبال پر ”میرا پیام“ نام سے سالانہ مجلہ بھی شائع ہوتا ہے۔ اس کے صدر جناب ظفر محمود کے بارے میں بہ زبان اقبال یہی کہا جا سکتا ہے:

    تیرے ہنگاموں سے اے دیوانہ ¿ رنگیں نوا        زینتِ گلشن بھی ہے، آرائشِ صحرا بھی ہے
    جانبِ منزل رواں، بے نقشِ پا مانندِ موج        اور پھر افتادہ، مثلِ ساحلِ دریا بھی ہے
لے کے آیا ہے جہاں میں عادتِ سیماب تو        تیری بیتابی کے صدقے، ہے عجب بیتاب تو 

اور وائس چیئرمین پروفیسر عبد الحق کے سلسلے میں کہا جانا چاہیے:

اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل        اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو            رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز

جموں و کشمیر کے سری نگر میں اقبال انسٹی ٹیوٹ قائم ہے جہاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ میگزین اور رسالے بھی نکالے جاتے ہیں۔ کشمیر یونیورسٹی کی لائبریری کا نام بھی علامہ کے نام پر ہے۔ کشمیر سے اقبال کا ایک خاص تعلق تھا۔ ان کے اجداد کی جڑیں سرزمین کشمیر میں ہی پیوست ہیں۔ انھوں نے کشمیر کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا بھی ہے اور کشمیر اور علامہ کے تعلق پر بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اہل کشمیر علامہ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی دکانوں کے نام بھی علامہ کے نام پر رکھے گئے ہیں۔

مغربی اتر پردیش کے مظفر نگر میں علامہ اقبال یونانی میڈیکل کالج قائم ہے۔ اس کی تاسیس ۲۹۹۱ میں ہوئی تھی۔ یہ حکومت کے ادارے سی سی آئی ایم سے تسلیم شدہ اور چھترپتی شاہو جی مہاراج یونیورسٹی یعنی کانپور یونیورسٹی سے ملحق ہے۔ یہ کالج راو ¿ ایجوکیشنل سوسائٹی کے تحت چلتا ہے۔ یہاں یونانی میڈیسن اور سرجری میں بیچلر ڈگری دی جاتی ہے۔ 

ہندوستان کی سرحد سے باہر نکلیں اور پاکستان میں پہنچیں تو علامہ اقبال کے نام پر جانے کتنے ادارے ملیں گے۔ اسلام آباد میں ۲۶۹۱ میں اقبال اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے تحت علامہ کے فکر و فلسفہ کو عام کرنے کے لیے متعدد پروگرام چلائے جاتے ہیں۔ یہاں ۹۸۹۱ میں ٹرو ملٹی لینگول لائبریری ڈاٹابیس کا قیام عمل میں آیا۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق لاہور کی مرکزی عمارت ایوانِ اقبال میں قائم اقبال اکیڈمی پاکستان، اقبال کی میراثِ فکر کے فروغ کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ جدید سہولیات سے مزین ایوانِ اقبال کانفرنس سنٹر میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کے سیمینار منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ۲۳ سے زیادہ زبانوں میں کتابوں کی اشاعت، ملٹی میڈیا اور آئی ٹی کے جدید وسائل پر مبنی صوتی و صوری منصوبے، ویب سائٹس کی تیاری، تحقیق و تصنیف کے لیے وسائل کی فراہمی، کانفرنسوں، سیمیناروں، تقریبات اور نمائشوں کا اہتمام، بیرون ملک پیغامِ اقبال کی رسائی، دنیا بھر میں کتب، مجلات اور آئی ٹی مصنوعات کی عطیات اور لائبریری خدمات شامل ہیں۔اقبالیات کے حوالے سے اقبال اکیڈمی کی لائبریری میں کتابوں کا قدیم ترین اور سب سے قیمتی ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں نہ صرف پاکستان کی علاقائی زبانوں بلکہ بین الاقوامی زبانوں میں بھی اقبالیاتی ادب کا قابل قدر ذخیرہ موجود ہے۔ اقبال اکیڈمی کی لائبریری میں اقبالیات پر کتب کا دنیا بھر میں جامع ترین اور قدیم ترین ذخیرہ ہے۔ اقبال میوزیم (سابقہ جاوید منزل) اقبال کی تصاویر، دستاویزات اور یادگاری مواد کا مرکز ہے۔

اسلام آباد میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ہے جہاں فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت مختلف کورسز کرائے جاتے ہیں۔ فلسفہ اور دیگر علوم کی تعلیم کے سبب اس ادارے کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ جب اسے قائم کیا گیا تھا تو اس وقت یہ دنیا کی دوسری اوپن یونیورسٹی تھی۔ یہ ایشیا کی پہلی اوپن یونیورسٹی بھی ہے۔ شروع میں اس کا نام ”پیپلز اوپن یونیورسٹی“ تھا مگر ۷۷۹۱ میں علامہ کی پہلی صدی تقریب کے موقع پر اس کا نام ”علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی“ کر دیا گیا ۔اسلام آباد میں اس کا مین کیمپس ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں اس کی شاخیں ہیں۔ مشرق وسطی میں بھی اس کے ریجنل سینٹرس ہیں۔ یہاں ڈاکٹریٹ تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی اس کے وائس چانسلر ہیں۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے طلبہ کی تعداد ۳۱ لاکھ ہے۔ یہ ۴۷۹۱ میں قائم ہوئی تھی۔ 

بر صغیر ہندو پاک کی سرحد سے باہر نکلیں تو ٹورنٹو کناڈا میں انٹرنیشنل اقبال سوسائٹی ہے جسے نعمان وحید بخاری چلاتے ہیں۔ یہ سوسائٹی ۱۱ فروری ۹۰۰۲ کو قائم ہوئی۔ اس کی کھلی ممبرشپ ہے اور کوئی بھی شخص مرد، عورت، ہندو، مسلم اور دنیا کے کسی بھی کونے کا ہو اس کا ممبر بن سکتا ہے۔ ممبرشپ کی کوئی فیس نہیں ہے۔ البتہ اس کے سرگرم ممبران اس کو تعاون دیتے ہیں۔ اس کا مقصد اقبال کے پیغام کو سمجھنے میں مدد دینا، اعلی سطح پر اقبالیات کی تعلیم کے لیے راہ ہموار کرنا، اقبالیات پر پی ایچ ڈی کرنے والوں کو مواد کی سطح پر مدد کے ساتھ ساتھ مالی اعتبار سے بھی مدد دینا اور تعلیم کو عام کرنے کے سلسلے میں اپنی خدمات فراہم کرنا ہے۔ اس سوسائٹی کی ایک ویب سائٹ iqbalsociety.org ہے اور اس کا ایک فیس بک پیج بھی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں دہلی میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی اردو کانفرنس میں نعمان بخاری نے شرکت کی۔ انھوں نے یہ خوش خبری سنائی کہ ان کی اقبال سائٹ پر پچاس لاکھ سے زائد افراد ہیں۔ کانفرنس کے خاتمے کے بعد راقم نے جب اس دعوے کی سچائی جاننے کے لیے فیس بک پر اس کے پیج کو لائک کیا تو خاکسار کا نمبر اکیاون لاکھ ستاسی ہزار نو سو چھ تھا۔ اس کے بعد بھی جانے کتنے شائقین اس کو لائک کر چکے ہوں گے۔ اس ویب سائٹ پر یہ دو اشعار مستقل طور پر لکھے رہتے ہیں:

جوانوں کو مری آہِ سحر دے        پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے        مرا نور بصیرت عام کر دے

اس ویب سائٹ کے ایک ذمہ دار ڈاکٹر معین الدین نظامی کے مطابق پاکستان میں بھی کوئی فیس بک پیج ایسا نہیں ہے جس کو اتنے زیادہ لوگوں نے لائک کیا ہو۔ اس کے تحت مختلف کورسز بھی کرائے جاتے ہیں۔

اقبال اکیڈمی یو کے کا بھی ذکر کرنا مناسب ہوگا جسے ۱۷۹۱ میں میر سعید حسن بٹ نے انگلینڈ میں قائم کیا تھا۔ اس کا دفتر برمنگھم میں ہے۔ یہ ایک چیریٹیبل ٹرسٹ ہے اور حکومت پاکستان سے تسلیم شدہ ہے۔ وہ اس کو سالانہ امداد بھی دیتی ہے۔ اس کے بانی کا ۳۸۹۱ میں انتقال ہونے کے بعد ڈاکٹر سعید درانی ۷۸۹۱ سے اس کے چیئرمین ہیں۔ اس ویب سائٹ کا نام iqbalacademy-uk.org ہے۔

اسکینڈی نیویائی ممالک کے باشندوں کے لیے ایک ادارہ ”اقبال اکیڈمی اسکینڈی نیویا“ کے نام سے بھی قائم ہے۔ اس کے بانی غلام صابر ہیں اور اس کا دفتر کوپن ہیگن ڈنمارک میں ہے۔ ۲۰۰۲ میں یہ اکیڈمی قائم ہوئی اور ۰۳ اگست ۳۰۰۲ کو اس کا باضابطہ افتتاح ہوا۔ اسے اسکینڈی نیویائی ملکوں کی ایک بہترین اکیڈمی مانا جاتا ہے۔ 

اس کے علاوہ ابھی ۳۲ اکتوبر ۴۱۰۲ کو ”اقبال اکیڈمی مڈل ایسٹ“ کے نام سے قطر میں ایک ادارہ قائم ہوا ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب اقبال اکیڈمی پاکستان، مجلس اقبال لاہور اور حلقہ ¿ اقبال لاہور کے تعاون سے منعقد ہوئی۔ اس اکیڈمی کی داغ بیل ڈاکٹر فیصل حنیف خیال نے ڈالی ہے۔ گزشتہ دنوں قطر میں اس کا پہلا اقبال سمینار اور مشاعرہ بھی منعقد ہو چکا ہے۔

علامہ اقبال کے نام پر دوسری اور بھی بہت سی چیزیں موجود ہیں۔ اقبال لائبریری، Relics of Iqbal یعنی علامہ اقبال آثار و نوادر، بچوں کے اقبال سے متعلق ویب سائٹ اور یو ٹیوب پر علامہ کی بے شمار نظمیں گلو کاروں کی زبان میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں سے متعلق ان کی نظموں کو کیرکٹرائز کرنے کے ساتھ ساتھ معروف گلوکاروں کی آواز میں یو ٹیوب پر ڈال دیا گیا ہے۔ 

ہندوستان میں rekhta.org نامی ویب سائٹ پر علامہ اقبال سے متعلق ۲۲۱ کتابیں اسکین کر کے اپ لوڈ کر دی گئی ہیں جن میں کلام اقبال کی بھی کئی کتابیں ہیں۔ (ان میں پروفیسر عبد الحق کی کتاب ”تنقید اقبال اور دیگر مضامین“ اور پروفیسر توقیر احمد کی ”اقبال اور ہندوستان“ بھی شامل ہیں)۔ ایک اقبال اردو بلاگ بھی ہے جس پر اقبالیات سے متعلق مضامین ہیں۔ amazon.com پر علامہ سے متعلق بہت سی کتب موجود ہیں جنھیں آن لائن خریدا جا سکتا ہے۔ اقبال کی کتابیں مع تشرح بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ 
یہ علامہ اقبال سے متعلق کچھ ملکی و بین الاقوامی اداروں کا مختصر تعارف تھا۔ ورنہ ان کے نام پر تو لا تعداد ادارے قائم ہیں۔ انٹرنیٹ نے ان کے پیغام کو عام کرنے میں کافی اہم رول ادا کیا ہے۔ گویا: تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں، یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں۔ گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں، یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں۔

sanjumdelhi@gmail.com

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 728