حق تعلیم قانون کا صحیح نفاذ ہو
عارف عزیز
(بھوپال)
٭ سابق یوپی اے حکومت اپنے دس سالہ دور میں بدعنوانی اور مہنگائی کی وجہ سے کافی بدنام ہوئی لیکن اپنے دورِ اقتدار میں اُس نے کئی اہم کام بھی انجام دئے ہیں، جن میں قومی دیہی روزگار فراہمی قانون، قانون حقِ اطلاعات اور حق تعلیم کا قانون شامل ہے۔ آخری قانون ۶ سے ۱۶ سال تک کی عمر کے بچوں کو بنیادی تعلیم سے آراستہ کرنے کے بارے میں ہے، جسے نافذ کرنے کی کارروائی ۲۰۰۹ء سے شروع ہوگئی تھی، پھر بھی کئی ریاستوں میں اِسے عملی جامہ نہیںپہنایا جاسکا، یہ قانون ہر بچہ کو تعلیم کا حق دیتا ہے، اگر اُسے یہ حق نہ ملے تو وہ سپریم کورٹ سے شکایت کرکے اِسے حاصل کرسکتا ہے۔ اِس قانون کے نفاذ میں مشکلات دو سطح پر ہیں۔ پہلی، بنیادی ڈھانچے کی کمی اور دوسری معیار تعلیم کا فقدان۔ جب بھی قانون حق تعلیم کی بات ہوتی ہے تو عموماً بنیادی ڈھانچے کے فقدان کی دہائی دی جانے لگتی ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ جن ۴۰ فیصد اسکولوں میں اساتذہ نہیں ہیں یا جن ۳۳ فیصد اسکولوں میں لڑکیوں کے لئے بیت الخلا کا انتظام نہیں ہے یا پھر ان ۳۹ فیصد اسکولوں میں جہاں معذور بچوں کے لئے ریمپ کی تعمیر نہیں ہوئی ہے۔ وہاں پر بھی بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ صاف پینے کا پانی، کھیل کے میدان، بیت الخلائ، بجلی، پختہ عمارت یہ سب چیزیں ضروری ہیں، لیکن ان تمام انتظامات کے باوجود اگر بچوں کو معیاری تعلیم نہیں مل پارہی ہے تو سب بیکار ہے۔ لہٰذا حکومتوں کی پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ بچوں کو اسکولوں میں بہتر معیاری تعلیم فراہم ہو۔ ساتھ ہی یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جب معیاری تعلیم اسکولوں میں ملے گی تو طالب علم ہو یا والدین اسکول کی چھوٹی موٹی خامیوں پر توجہ نہیں دیں گے۔ جب ہم اسکول میں معیار تعلیم کی بات کرتے ہیں تو معیار کا فیصلہ وہاں سے فارغ ہوئے بچوں کی انجینئر، ڈاکٹر اور اڈمنسٹریٹوی افسر بننے کی تعداد سے کیا جاتا ہے۔ آج معاشرہ کو قابل اساتذہ کی بھی ضرورت ہے، چاہے وہ ٹیکنالوجی اداروں میں ہوں، اڈمنسٹریٹیو اداروں میں یا پھر پرائمری اسکولوں میں۔
ملک میں اسکول کی سطح پر اب بھی گیارہ لاکھ اساتذہ کی کمی ہے۔ مرکزی حکومت نے اساتذہ مقرر کرنے کا جو معیار طے کیا ہے، اس کی تکمیل میں بھی مشکل پیش آرہی ہے۔ ایک شخص جب گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری لے کر یونیورسٹی سے باہر نکلتا ہے تو اسے ابتدائی اور ثانوی اسکولوں تک کے طلباء کو پڑھانے کے لئے اہل ماننا چاہئے، اس کے برعکس اساتذہ کی اہلیت کا پیمانہ بی ایڈ رکھا گیا ہے۔ جب کوئی طالب علم ۳ سال کی تعلیم حاصل کرکے بچوں کو پڑھانے کی اہلیت نہیں پیدا کرسکتا تو کیا ضمانت ہے کہ وہ ایک سالہ بی ایڈ کی تعلیم حاصل کرکے قابل ہوجائے گا۔ کسی کام کے لئے خاص ڈگری یا قابلیت کو مقررہ معیار تصور کر لیا جاتا ہے تو پھر یہ نئے کاروبار کو جنم دیتا ہے۔ استاد بننے کے لئے بی ایڈ کے لزوم نے ملک میں ہزاروں نجی اداروں میں بی ایڈ کی ڈگری کورس کی شروعات کی راہ ہموار کر دی۔ سوال یہ ہے کہ اتنی تعداد میں بی ایڈ پڑھانے کے لئے اساتذہ کہاں سے ملیں گے؟ پھر کسی طرح سال بھر نصاب چلا کر بی ایڈ کی ڈگری عطا کر دینا ہی تعداد کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اس کے عوض پھر ہزاروں لاکھوں روپے فیس وصول ہوتی ہے۔ اس طرح تعلیم مہنگی ہورہی ہے اور گاؤں کے کمزور لوگ اس تعلیم کو حاصل نہیں کرپاتے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ تعلیم بھی ایک فن ہے، اِس کے لئے ڈگری ضروری نہیں، بلکہ کچھ صفات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس لئے اگر تعلیم کا معیار بلند کرنا ہے تو اسکولوں میں اساتذہ کی بھرتی کے عمل پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ مزید برآں قانون حق تعلیم کو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
(یو این این)
*********************
|