donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Taleem Ki Ahmiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashfaqur Rahman Sharar
Title :
   Hamari Badhali Ke Khas Asbab Taleem Se Doori Aur Bahami Ikhtelafat

ہماری بدحالی کے خاص اسباب تعلیم سے دوری اور باہمی اختلافات


از قلم اشفاق الرحمن شررؔ 

مئو ناتھ بھنجن، یو۔پی۔

حال مقیم مکہ مکرمہ سعودی عربیہ


    اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب کے اوپر پہونچ چکی ہے جس میں مختلف مذاہب کے تناسب پر نظر ڈالیں تو سب سے زیادہ عیسائی 33.39 فیصد یعنی تقریباً 2؍ ارب 40 کڑور، مسلم 23.4 فیصد یعنی ایک ارب 70 کڑور کے قریب، سناتن دھرمی (ہندو) 13.8 فیصدایک عرب کے قریب، بودھ 6.7 فیصد 48 کڑور، سکھ 0.35 فیصد ڈھائی کڑور، یہودی 0.22 فیصد ڈیڑھ کڑور کے قریب ہیں۔ ان کے علاوہ بھی مذاہب ہیں جن کا ذکر ضروری نہیں لگتا۔ دنیا میں سب سے بڑی آبادی عیسائیوں کی ہے اور اپنی آبادی کے لحاظ سے انھوں نے اپنا مقام بھی قائم کر رکھا ہے دنیا کے ہر ملک میں کم و بیش موجود ہیں تو ان کا مرکز امریکی ممالک ہیں امریکی ممالک میں تقریباً 95 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ان کی تعداد ہے اور دنیا کے نظام پر پوری طرح قابض ہیں۔ تیسرا مقام ہندو کا ہے جو دنیا کے بہت کم حصوں میں ہیں سب سے زیادہ نیپال میں 81 فیصد ہیں جب کہ بھارت میں 70 فیصد کے قریب ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلا دیش، پاکستان، سری لنکا، دبئی، ماریشش، انڈونیسیا برما وغیرہ ممالک میں یہ بہت کم تعداد میں ہیں۔ نیپال میں کچھ خاس قابل بیان نہیں لیکن بھارت میں یہ اپنے تناسب کے اعتبار سے پوری طرح قابض ہیں، حکومت،ملازمت، تجارت، صنعت، زراعت، تعلیم ہر شعبے میں ان کی نمائندگی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔ اسکے بعد بودھ ہیں بودھ بھی دنیا کے کم حصوں میں موجود ہیں جاپان، چین، سری لنکا اور برما میں ان کی اکثریت اور حکومت ہے جن میں چین دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں کھڑا ہو چکا ہے کھلونے، الیکٹرانک سامان، کپڑے وغیرہ جو انسانی زندگی میں زیادہ استعمال ہونے والی اشیاء ہیں ان کو تیار کرنا اور کم سے کم قیمت میں دنیا کے بازاروں تک پہونچانے میں چین مشہور ہے۔ جاپان اور جرمنی کا دنیا کی صنعت پر قبضہ تھا وہ دنیا کے بازاروں میں چین کا تیزی کے ساتھ چھانے سے خوف زدہ ہیں۔ دوسری طرف بودھ کا سب سے مضبوط ملک جاپان دنیا کے لئے ایک بڑی مثال ہے۔ چھ سال ایک روز چلنے والی دوسری عالمی جنگ میں مکمل طور پر تباہ ہو جانے والا ملک جاپان آج عالمی تجارت و صنعت اور ملکی ترقی میں نمبر ایک ہے۔ واضح ہو کہ دوسری عالمی جنگ یکم ستمبر 1939 تا 2؍ ستمبر 1945 تک چلی تھی یعنی جنگ ختم ہوئے ابھی صرف 69  سال ہی گذرے ہیں اور عالمی بازار میں جاپان ایک نمبر پر ہے۔ دنیا میں سکھوں کی تعداد بہت مختصر ہے پھر بھی کم تعداد میں ہی صحیح یہ ہر علاقوں میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ تجارت و صنعت میں ان کی اچھی پکڑ ہے۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ سکھ چھوٹی ملازمت اور مزدوری کرتے ہوئے بہت ہی کم دکھائی دینگیں اور بھیک مانگتے ہوئے تو بالکل ہی نہیں دکھائی دینگے۔ سکھوں کی تنظیم اپنے لوگوں کی پوری مدد کرتی ہیاس لئے وہ کامیاب ہیں۔ دنیا کی سب سے گندی قوم یہودی بہت مختصر تعداد میں ہیں لیکن دنیا کو اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ جس امریکا نے انھیں اپنے یہاں سے نکال باہر کیا تھا آج وہی ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ صرف 0.22 فیصد ہیں، انکا کوئی وطن نہیں دوسرے کے ملک پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں اور ہم 23.4 فیصدیعنی ان سے 106 گنا سے بھی زیادہ ہیں اور نصف سیکڑہ سے زیادہ ممالک میں ہماری حکومت ہے پھر بھی وہ ہم پر غالب ہیں یہی نہیں جنگی آلات کی صنعت میں دنیا میں ان کا ایک مقام ہے آج امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک اور بھارت جیسا بڑا ملک ان سے جنگی آلات خریدتے ہیں۔ گو کہ وہ ظالم ہونے کے ساتھ بے وفا اور احسان فراموش بھی ہیں لیکن تکنیکی ترقی کی وجہ سے ان کی ساری کمیوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور دنیا کے با اثر ممالک سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان کی حمایت کرتے ہیں۔


    ہماری مسلم قوم دنیا کے دوسری سب سے بڑی آبادی ہے ، نصف سیکڑہ سے زیادہ ممالک میں ہماری حکومتیں ہیں اور ان میں اکثر ممالک معاشی طور پر مضبوط بھی ہیںمسلم ممالک کی معاونی تنظیمیں بھی ہے سب سے بڑی تنظیم OIC  (Organization of Islamic Conference) اسلامک کانفرنس تنظیم ہے جس میں کل 57 ممالک ممبر ہیںاس کے باوجود بھی دنیا میں نہ ہماری کوئی اہمیت ہے نہ ہی وقار۔ ہم خود کو بھلے ہی اعلیٰ، خوشحال، ترقی یافتہ، حاکم، با شعور اور بہادر مانتے ہوں لیکن دنیا کے سامنے ہماری حیثیت بے کار، ملزم، بزدل، پسماندہ اور غافل سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ان اسباب پر غور کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کی دیگر قومیں ہم سے کافی آگے نکل گئیں اور ہم راہبر اور امام ہوتے ہوئے بھی کافی پیچھے جا چکے ہیں تو میرے محسن استاد اور مخلص دوست مرحوم ڈاکٹر ارشد کریمیؔ کا ایک شعر ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے:  ’’جو لٹھ گنوار تھے منزل کو پالئے ٭ ہم خود کو باشعور جتانے میں رہ گئے ‘‘ ۔


    اگر غور کریں تو تمام قوموں میں دو خوبیاں یکساں طور پرپائی جاتی ہیں ایک تعلیم کو فوقیت دوسرے آپس میں اتفاق و اتحاد یہ دو خوبیاں ایسی ہیں جو مسلم قوم کے علاوہ تمام قوموں میں اول مقام پر ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں نہ انکے یہاں قیادت میں اختلاف ہوتا ہے، نہ معاشرہ میں نہ ہی سیاست میں اگر نظریاتی یا سیاسی اختلاف ہوتے بھی ہیں تو قوم کے نام پر اسے پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ جب کہ ہماری قوم میں ان دونون کا فقدان ہے تعلیم کو ہم نے ساری ضروریات کے بعد رکھا ہے تو اتحاد سے ہم کافی دور ہیں۔ اتحاد اور تعلیم ہماری بنیادی خوبی تھی جسے ہم نے گنوا دیا اور غیروں نے اپنا کر دنیا کا میدان سر کر لیا۔ ہماری حالت یہ ہے کہ اچھے کپڑے پہننا، فیشن کرنا، شادی بیاہ اور تقریبات میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنا، تفریح اور فضول خرچی میں سب سے آگے رہناہماری زندگی کا مقصد ہے اگر ان سب کے بعد وقت اور پیسہ بچا تو بچوں کی تعلیم پر بھی کچھ خرچ کر لیتے ہیں۔ نیز جو لوگ تعلیم کے تئیں بیدار ہیں وہ صرف بچوں کو اسکول مدارس میں داخل کردینا انکی کاپی کتاب و دیگر ضروری اشیاء کے ساتھ فیس کا انتظام کر دینا ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ کبھی اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ بچے کی تعلیمی پروگریس کیسی ہے۔ باہمی اختلافات دیکھیں تو جتنے اختلافات ہمارے یہاں ہیں اورکہیں نہیں ہیں، سیاست کے نام پر، زبان کے نام پر علاقہ کے نام پر، مسلک کے نام پر عقیدہ کے نام پر قیادت کے نام پر یعنی ہر شعبہ میں اختلافات اپنے عروج پرہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تمام مسلمان تسلیم کرتے ہیں اور اسی پر ایمان ہے کہ اللہ ایک ہے صرف وہی معبود ہے۔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہہ وسلم نبی اور رسول ہیں، قرآن اللہ کا کلام ہے، موت برحق ہے، قیامت آنی ہے، محشر قائم ہونا ہے، جنت اور جہنم ہیں، فرشتے ہیں، ہمارے نبیؐ کے پہلے بھی بہت سارے انبیاء اور رسول آئے۔ ان میں کسی بات کا بھی کوئی مسلمان منکر نہیں ہو سکتا اس کے باوجود بھی فرقہ، مسلک اور عقیدہ کے نام پر زبردست اختلافات ہیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ دنیا تحقیق میں کہاں سے کہاں پہونچ گئی دنیا کے سائنسداں قرآن و حدیث کی روشنی میں نئی نئی دریافتیں اور ایجادات کر رہے ہیں لیکن ہمارے علماء 14 صدی سے زیادہ زمانہ گذر جانے کے بعد بھی یہ تحقیق نہیں کر پائے کہ کون صحیح ہے۔ یا تو ہمارے علماء صداقت جاننے کی کوشش نہیں کرتے یا پھر جانتے ہوئے بھی اسے نہ خود تسلیم کرتے اور نہ عام کرتے۔ اور یہ اختلافات اس قدر دھار دار ہیں کہ بعض دفعہ معاملہ تشدد تک بھی پہونچ جاتا ہے۔ یہی حال قیادت کا ہے مختلف قائدین ہیں جو خود کو مسلمانوں کا مخلص ہمدرد بتاتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی قیادت میں متحد ہونے کی کی تلقین کرتے ہیں لیکن یہ چند افراد خود اخلاص کے ساتھ غور کر کے قوم کے نام پر اپنے ذاتی مفادات قربان کر کے متحد نہیں ہوتے توعوام بھلا کس کو اپنا قائد مانیں الٹا الزام عوام کو دیا جاتا ہے کہ یہ کسی کو قائد نہیں مانتے۔ ہمارے یہاں اتحاد کی جگہ بے وجہ کے اختلافات ہیں اور باہمی ایثار و مدد کی جگہ نفرت اور کدورت ہے ان حالات کا جو نتیجہ ہونا تھا ہم اسی نتیجہ کو پہونچے ہیں اور جب تک ہماری روش نہیں بدلتی ہم یوں ہی ذلیل ہوتے رہیں گے۔سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ ہمیں اپنی کمی کا احساس بھی نہیں جب احساس ہی نہیں تو اصلاح کا سوال ہی کہاں۔ہم تو صرف اپنے روشن ماضی کو بیان کر کے خوش ہو لیتے ہیں اور فیشن کو ہی ترقی اور خوشحالی
مانتے ہیں اپنے اسلاف کی روایات پر فخر ضرور کرتے ہیں لیکن اس سے نصیحت نہیں لیتے۔


****************************

 

Comments


Login

  • Anees
    07-02-2016 04:32:33
    Ashfaque Rehman Sahb Buht Hi Achi Tahreer Hai. Hum Sirf ye Qoum Wo Qoum Karte rahege To Koi Faidah Nahi Hoga jab tak Hum Khud Amli Muzahira Nahi Karte Tab Kuch Theek Nahi Hone wala.
  • Naveed Bashir Baloch
    03-05-2015 18:18:44
    V.very Nice Ashfaqur Rahman. Ye Qoum tab ik Sacha or Emandar hoga Jb inko Esas hoga,Or in me apna pan or badapan katam hoga ,apny apko dosre se km smjna Ilm se aga hona or Ilm ko apna Mustakbil smjna .jb ye sab chezeen ink andr hoga tab ye ik Sacha Qoum khelane k like hon ge.bilkul apny sai lika ha yahan shahdi wagera me ziada krch krna, apny apko dosro\\\'n se acha samajna.jb tak ye chezen in k andr katam nai hoga ye Qoum kabi b kamiyab nai ho pain ge..
You are Visitor Number : 3048