donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Taleem Ki Ahmiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Insani Tareekh Mein Ilmo Amal Ki Yakjai Aur Elahdagi Ke Natayej

 

انسانی تاریخ میں علم و عمل کی یکجائی اور علیحدگی کے نتائج
 
 شاہنواز فاروقی
 
انسانی تاریخ میں علم کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ اس کے بغیر انسانی زندگی اور تاریخ کا تصور محال ہے۔ لیکن زندگی میں مجرد علم کی کوئی اہمیت نہیں۔ علم کا ناگزیر تقاضا عمل ہے۔ علم اور عمل یکجا ہوتے ہیں تو زندگی کی کلیّت وجود میں آتی ہے۔ البتہ علم اور عمل میں یہ تعلق ہے کہ عمل کے لیے علم ناگزیر ہے۔ علم نہ ہو تو عمل کا کوئی وجود ہی نہ ہو، اور اگر عمل علم کے بغیر ہوتا ہے تو اس کی کوئی معنویت اور افادیت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اور دیگر مخلوقات پر انسان کی فضیلت کی وجہ اس کو عطا کیا گیا علم ہے۔ تاہم انسانی تاریخ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ علم عمل سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تاریخ کے دھارے کا رخ بدل کر رہ جاتا ہے۔ اس کے برعکس علم اور عمل کی یکجائی بھی تاریخ کو انقلابات سے دوچار کردیتی ہے۔
 
سقراط انسانی تاریخ میں علم کی ایک بڑی علامت ہے۔ اس کی عظمت یہ ہے کہ ڈھائی ہزار سال گزرنے کے باوجود فکری دنیا میں اس کا نام آج بھی زندہ ہے۔ سقراط انفرادی سطح پر صاحبِ عمل بھی تھا۔ صداقت کے ساتھ اس کی وابستگی کا عالم یہ تھا کہ اس نے قید خانے سے فرار ہونے سے صاف انکار کردیا اور ہنستے ہوئے زہر کا پیالہ پیا۔ سقراط کی علمی جدوجہد ایسی تھی کہ اس نے فلسفے کو خواص الخواص کے بجائے عوام کی چیز بنادیا۔ اس کے خیالات کی مقبولیت دیکھتے ہوئے حکمرانوں کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں ان کے خلاف بغاوت نہ ہوجائے، لیکن سقراط کی فکر ریاست و سیاست اور معاشرے کے سانچے اور ڈھانچے کو نہ بدل سکی اور وہ تاریخ میں خیر، صداقت، علم اور دیانت کی بڑی علامت بن کر رہ گیا۔ سقراط کا شاگرد افلاطون تاریخ کی ایک اور بڑی شخصیت ہے۔ افلاطون کی عظمت یہ ہے کہ اس نے سقراط کی فکر کو آگے بڑھایا اور اسے نظام بنایا۔ اس نظام کی بنیاد پر اس نے مثالی ریاست کا خاکہ پیش کیا جسے اس نے ’’جمہوریہ‘‘ کا نام دیا۔ لیکن افلاطون کی جمہوریہ بھی تاریخ کی ایک بڑی علمی، فکری اور دانش ورانہ دستاویز بن کر رہ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی مثالی ریاست کو حقیقت بنانے کے لیے کوئی عملی جدوجہد کرنے والا نہیں تھا۔ افلاطون نے علم کو عام کرنے کے لیے اکیڈمی بنائی، مگر اکیڈمی نے صرف سقراط اور افلاطون کی فکرکے نظری پہلو کو عام کیا۔ اس فکر سے صاحبِ علم لوگوں کا کوئی گروہ پیدا ہوا نہ صاحبِ عمل لوگوں کی کوئی جماعت منظم ہوئی۔ پوری انسانی تاریخ کے تناظر میں یہ ایک المیہ تھا، اس لیے کہ افلاطون کے بارے میں وائٹ ہیڈ کی یہ رائے ایک ہزار بار دوہرائے جانے کے لائق ہے کہ پورا مغربی فلسفہ افلاطون کے فلسفے کے حاشیے یا فٹ نوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ ایسی فکری عظمت کے حامل شخص کی فکر کو انقلاب انگیز ہونا ہی چاہیے تھا، مگر نہ افلاطون نے اپنے علم کو عمل میں ڈھالا، نہ اسے کوئی اور ایسا شخص فراہم ہوسکا جو اس کے خوابوں کو حقیقت بناتا۔ مغربی فکر میں سرتھامس مور کی یوٹیوپیا بھی ایک مثالی ریاست کا خاکہ ہے، مگر یوٹوپیا بھی صرف نظری علم بن کر رہ گئی۔
 
علم کی کمی اور تفہیم کی قلت عمل کو کیسے ناممکن بناتی ہے اس کی ایک بڑی مثال مہا بھارت کا ایک اہم کردار ارجن ہے۔ ارجن، پانڈو کی فوج کا سپہ سالار تھا اور اس کی بہادی بے مثال تھی۔ لیکن جب اُس نے میدانِ جنگ میں جنگ شروع ہونے سے پہلے دشمن کی فوج کا معائنہ کیا تو دیکھا کہ اُس میں اس کے عزیز و اقارب کی بڑی تعداد موجود ہے، یہاں تک کہ دشمن کی فوج میں پانڈو کے بعض استاد بھی تھے۔ چنانچہ ارجن کو محسوس ہوا کہ وہ سیاست و ریاست کے لیے اپنوں کا خون بہانے پر تلا ہوا ہے، اور یہ ایک شرمناک بات ہے۔ چنانچہ اس نے جنگ لڑنے سے انکار کردیا۔ کرشن نے جب یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے ارجن کو سامنے بٹھا کر ایک تقریر کی جو بعد میں گیتا کے نام سے موسوم ہوئی اور جسے ہندوئوں کی مقدس کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ کرشن نے اس تقریر میں ارجن کو مذہب کا مفہوم سمجھایا اور بتایا کہ روح کیا ہے اور جنم کیا ہے اور دین کے سامنے انسانی رشتوں کی کیا حقیقت ہے؟ انہوں نے ارجن کو باور کرایا کہ وہ ’’جہاد‘‘ کرنے کے لیے میدانِ جنگ میں اترا ہے۔ اس جنگ کا ریاست و سیاست سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے اسے سمجھایا کہ تجھے حق کی بالادستی اور باطل کی سرکوبی کے لیے دادِ شجاعت دینی ہے۔ کرشن کی تقریر سن کر ارجن کے دل سے دنیا کی محبت رخصت ہوگئی اور اس نے معرکۂ حق و باطل میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس مرحلے پر کرشن موجود نہ ہوتے تو ہندوازم کی پوری تاریخ کچھ اور ہوتی۔ تاریخ کے اس مرحلے پر کرشن کے علم نے ارجن کے عمل کی راہ ہموار کی۔
 
ہندوئوں کی تاریخ میں رام علم و عمل کے توازن کی سب سے بڑی علامت ہیں، اس لیے ان کے دورِ حکومت کو ہندوازم کی تاریخ میں بے مثال سمجھا جاتا ہے۔اشوک کی ریاست بہت بڑی تھی لیکن زندگی کے ایک مرحلے پر اشوک بدھ ازم کی گرفت میں آگیا، اور بدھ ازم میں ترکِ دنیا ہی سب کچھ تھی۔ چنانچہ اشوک نے سیاست اور ریاست کو خیرباد کہہ دیا۔ علم کے بدل جانے سے اشوک کا عمل بھی بدل گیا۔ وہ بادشاہ سے بھکشو بن کر رہ گیا۔
 
انسانی تاریخ میں اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات علم و عمل کی یکجائی کا کامل ترین نمونہ ہیں۔ لاالہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ کہنے کو ایک کلمہ ہے مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلمے کو عالمگیر انقلاب میں ڈھال دیا۔ یہ انقلاب عقائد میں بھی تھا، عبادات میں بھی… اخلاقیات میں بھی تھا اور ریاست و سیاست میں بھی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ انقلاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک تک محدود نہ رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت نے صحابۂ کرام کی ایسی جماعت منظم کردی جو اس انقلاب کو لے کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اس عمل میں علم و عمل کی ایسی یکجائی تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا جو بوجھ حضرت عمرؓ سے نہیں اٹھ پارہا تھا، صدیق اکبرؓ کی صورت میں اس بوجھ کو اٹھانے والا موجود تھا۔ اس جماعت میں حضرت عمرؓ کے علم و عمل کی وہ یکجائی تھی کہ حضرت عمرؓ دریائے نیل کے نام خط لکھ سکتے تھے اور ان کا خط پڑھ کر خشک دریائے نیل رواں ہوسکتا تھا۔ چنانچہ اسلام دشمنوں تک نے کہا کہ اگر اسلام کو ایک اور عمرؓ فراہم ہوجاتے تو پوری دنیا مسلمان ہوجاتی۔ صحابۂ کرام کی ذات میں علم و عمل کی ایسی یکجائی تھی جس میں علم نے عمل کو فروغ دیا، اور عمل نے علم کے نئے خزانوں کو تخلیق کیا۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقائد کے بعد مسلمانوں کی تاریخ ان کے لیے سب سے بڑا تحرک یا Motivation بن گئی، اور اس تحرک نے مسلمانوں کو کبھی مکمل طور پر بے عمل نہ ہونے دیا۔ یہودیت، ہندوازم اور عیسائیت کی تاریخ کا المیہ صرف یہ نہیں کہ ان مذاہب کے لوگوں نے آسمانی کتب میں تحریف کرڈالی، بلکہ ان مذاہب کا المیہ یہ بھی ہے کہ ان کی تاریخ میں علم اور عمل یکجا نہ رہ سکے۔ نٹشے نے جب یہ کہا نعوذ باللہ خدا مرگیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ جو خدا نٹشے سے پہلے لوگوں کو نظر آتا تھا اب وہ لوگوںکو نظر آنا بند ہوگیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا کی موجودگی عیسائیوں کے عمل سے ظاہر ہونا بند ہوچکی ہے اور خدا محض ایک تصور بن کر رہ گیا ہے۔
 
مسلمانوں کی تاریخ میں بھی علم و عمل کی جدائی یا ان کے رشتے کی کمزوری نے مسلمانوں کے لیے ہزیمت تخلیق کی ہے۔ سقوطِ بغداد کے وقت مسلمانوں کی علمی حالت شاندار تھی۔ سمرقند و بخارا سے بغداد تک مسلمانوں کے پاس کئی بڑے علمی مرکز تھے، مگر مسلمانوں کو ایک بڑے مرض نے لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس مرض کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ مسلمان اپنے علم کو بسر کرنے والے نہیں رہ گئے تھے۔ ان کے لیے علم ایک ’’چاٹ‘‘، ایک ’’مشغلہ‘‘ اور ایک ذہنی تعیش بن گیا تھا، اور اس صورت ِحال نے ان کی قوت ِعمل کو زبردست نقصان پہنچایا تھا۔ اقبال نے اسی حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ رہ گئی رسمِ اذاں ’’روحِ بلالی‘‘ نہ رہی اور فلسفہ رہ گیا ’’تلقینِ غزالی‘‘ نہ رہی۔  روحِ بلالی یہ تھی کہ حضرت بلالؓ کے لیے لاالہٰ الا اللہ ایک وجودی حقیقت یا Existential Reality تھی، اور غزالیؒ کے لیے فکر ایک واردات تھی خیالات کا کھیل نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان چنگیز خان کا مقابلہ نہ کر پائے۔ برصغیر میں بھی انگریزوں کی آمد کے وقت مسلمانوں کے فکر و عمل میں فاصلہ پیدا ہو گیا تھا اور برصغیر کے مسلمان ایک ایسی خوداطمینانی میں مبتلا تھے جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ چنانچہ انگریز بہت کم قوت کے ساتھ برصغیر پر قابض ہوگئے۔ ٹیپوسلطان اگرچہ ایک چھوٹے سے علاقے کا ’’سلطان‘‘ تھا مگر اس کے یہاں فکر و عمل کی یکجائی موجود تھی، چنانچہ اس نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ اور اگر اس کے درمیان غدار نہ ہوتے تو وہ انگریزوں کو شکست دے سکتا تھا۔ ٹیپو کے مقابلے پر ’’دہلی کا بادشاہ‘‘ فکری سطح پر تو توانا تھا مگر عمل کی سطح پر اس کے یہاں ضعف ہی ضعف تھا۔ چنانچہ ٹیپو سے بہت زیادہ قوت اور وسائل رکھنے کے باوجود وہ انگریزوں سے بہت جلد شکست کھا گیا۔
 
1857ء کی جنگِ آزادی نے جہاں مسلمانوں کی مزاحمتی روح کو نمایاں کیا، وہیں اس سے ان کی قوتِ عمل کی کمزوریاں بھی آشکار ہو گئیں۔ مسلمان اس جنگ میں ناکامی کے بعد سکتے کی حالت میں آگئے اور انہوں نے خود کو اور اپنے حریف کو سمجھنے میں پچاس ساٹھ سال لگا دیے۔ مسلمانوں نے یہ عرصہ گزار دیا تو انہوں نے اقبال جیسی شخصیت کو پیدا کیا جس نے مسلمانوں کو ان کی قوت کے سرچشموں سے آگاہ کیا اور انہیں مغرب کی زوال آمادہ تہذیب کا شعور بخشا۔ مگر اقبال کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ صاحبِ عمل نہیں تھے، ان کے پاس صرف فکر تھی۔ خود اقبال کو بھی اس کا اندازہ تھا، چنانچہ انہوں نے جگہ جگہ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میں گفتار کا غازی ہوں کردار کا غازی نہیں ہوں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو قائداعظم محمد علی جناح اور اقبال میں ایک تکمیلی یا Complimentry تعلق ہے اور ایک کی فکر اور دوسرے کے عمل سے وہ دائرہ بنا جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں۔ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے اپنی حالیہ تاریخ میں فکر و عمل کی یکجائی کو ایک اکائی میں ڈھالنے والی ایک ہی شخصیت پیدا کی ہے اور یہ شخصیت مولانا مودودیؒ کی ہے۔ مولانا نے ایک جانب انقلاب آفریں لٹریچر تخلیق کیا اور دوسری جانب انہوں نے اس لٹریچر کو عمل میں ڈھالنے کے لیے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ قائم کیں۔ تاریخ جب بھی کروٹ لے گی جماعت اسلامی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر کی ملتِ اسلامیہ اور اس سے آگے بڑھ کر پوری امت ِمسلمہ کی قوت، اس کی تلوار، اس کی ڈھال اور اس کا دست ِخدمت بن کر سامنے آئے گی، اور ایک بار پھر ثابت ہوگا کہ فکر و عمل کی یکجائی کیسے کیسے معجزے کرکے دکھا سکتی ہے۔
 
شاہنواز فاروقی
 ++++
 
Comments


Login

  • Naveed Bashir Baloch
    22-05-2015 08:27:10
    Bohot Zabardast
You are Visitor Number : 3365