donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Taleem Ki Ahmiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Tariq
Title :
   Jamea Board Mein Anupama Rawat Ki Kamiyabi

جامعہ بورڈ میں انوپما راوت کی کامیابی
 
شمیم طارق
 
جامعہ ملیہ اسلامیہ -اسکول بورڈ کے (بارہویں سائنس) امتحان میں انوپما راوت کے 93فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے اور اس کے تین سو طلبا وطالبات میں امتیازی کامیابی حاصل کرنے کی خبر ملی تو ذہن میں جامعہ کا ماضی بھی روشن ہو گیا اور اس کا سیکولر کردار بھی۔ یہ احساس بھی ہوا کہ جدید ہندوستان میں غریب و پسماندہ علاقوں اور طبقوں کے طلبا بھی نہ صرف یہ کہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں بلکہ امتیازی نمبروں سے کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔ انوپما راوت کے والد جامعہ کے سیکوریٹی عملے میں شامل ہیں۔ اس کے بھائی بہن جامعہ مڈل اسکول میں پڑھتے 
ہیں۔ دوپہر میں اسکول ختم ہونے کے بعد انوپما اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ کسی پیڑ کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھاتی اور پڑھتی رہتی ہے۔ شام پانچ بجے کے بعد جب اس کے والد کی ڈیوٹی ختم ہوتی ہے تو وہ اور اس کے بھائی بہن گھر جاتے ہیں جو فرید آباد میں واقع ہے۔ اس بچی نے کبھی کوئی ٹیوشن نہیں لیا، کسی کوچنگ کلاس میں نہیں گئی۔ یہ رات میں نو بجے سو جاتی ہے، علی الصباح تین بجے اٹھ کر پڑھتی ہے اور چھ بجے صبح گھر سے نکل کر سات بجے اسکول پہنچ جاتی ہے۔
 
انوپما کے کیمسٹری کے استاد ڈاکٹر محمد خورشید اکرم صاحب کا، جوایک نمازی اور باریش شخص ہیں کہنا ہے کہ انوپما نہایت سنجیدہ، نرم گفتار اور ملنسار لڑکی ہے۔ یہ کبھی تاخیر سے کلاس میں نہیں آئی۔ اس نے گیارہویں میں بھی ٹاپ کیا تھا۔ اس واقعے سے ان لوگوں کو اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی کرنا چاہیے جو ہر مسلم ادارے کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھتے اور اس کے خلاف غلط فہمی پھیلاتے ہیں۔ انوپما کی کامیابی جامعہ کے سیکولر ہونے کی دلیل تو ہے ہی یہاں کے اساتذہ کے محنتی، باصلاحیت اور ایماندار ہونے کی بھی دلیل ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ قبولیت کی گھڑی تھی جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاح کے موقع پر شیخ الہند مولانا محمود حسن نے اس کے قیام کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہو ئے کہا تھا کہ ’’ہماری عظیم الشان قومیت کا اب یہ فیصلہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے کالجوں سے بہت سستے غلام پیدا کریں بلکہ ہمارے کالج نمونہ ہونے چاہئیں بغداد اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں کے اور ان عظیم الشان مدارس کے جنھوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا۔ ‘‘جامعہ کے پہلے جلسۂ تقسیم اسناد میں تقریر کرتے ہوئے امیر جامعہ حکیم اجمل خاں نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ ’’تعلیم و تربیت میں ماحول کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور اسلامیت کے ساتھ وطن کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا بھی ہمارے پیش نظر ہے۔ چنانچہ اس امر کا خاص طور پر لحاظ رکھا گیا ہے۔ جہاں ہندوطلبا کے لیے بہت سے اسلامی معاملات پر معلومات حاصل کرنا ضروری ہے وہاں مسلمان طلبا بھی اہم ہندو رسوم اور ہندو تہذیب و تمدن سے ناآشنا نہیں رہیں گے کہ ایک متحدہ ہندوستانی قومیت کی اساس محکم اس باہمی تفہیم پر منحصر ہے۔‘‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ملک کی تحریک آزادی سے کتنا گہرا رشتہ رہا ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ چار بانیان جامعہ نے انڈین نیشنل کانگریس کے مختلف اجلاس کی صدارت کی۔ حکیم اجمل خاں نے 1921میں احمد آباد میں، مولانا محمد علی نے 1923میں کوکناڈا میں، مہاتما گاندھی نے 1924میں بیلگام میں اور ڈاکٹر انصاری نے 1927میں مدراس میں۔ 
 
جامعہ ملیہ اسلامیہ مسلمانوں کی یونیورسٹی ہے مگر اس کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مہاتما گاندھی اس کے بنیاد گزاروں میں تو تھے ہی اس کا نصاب مرتب کرنے کے سلسلے میں بھی ان کے مشوروں کا بڑا دخل تھا۔ وہ اس فیصلے سے خوش تھے کہ جامعہ کے نصاب میں دینیات کو بھی ایک مضمون کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے۔ جامعہ ملیہ کے ساتھ’’ اسلامیہ‘‘ کو بھی وہ ضروری سمجھتے تھے۔ ایک بار مالی بحران کے سبب جب کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ جامعہ کے نام سے اگر لفظ ’’اسلامیہ‘‘ حذف کردیا جائے تو دوسرے بھی اس کی امداد کریں گے تو انھوں نے کہا کہ اگر لفظ ’’اسلامیہ‘‘ حذف کردیا گیا تو وہ اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ترجمہ ’’نیشنل مسلم یونیورسٹی‘‘ کیا کرتے تھے۔ گاندھی جی نے اپنے بیٹے دیو داس گاندھی کو جامعہ میں استاد کی حیثیت سے کام کرنے کی ہدایت دی تھی۔ انھوں نے اس ہدایت پر عمل بھی کیا اور جب وہ جامعہ سے وابستہ ہوگئے تو یہاں کھدّر کو مقبولیت حاصل ہوئی۔گاندھی جی نے اپنے ایک پوتے 
 
رسک لال گاندھی کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی جامعہ میں داخلہ دلوایا تھا۔ مگر اس کی عمر نے وفا نہیں کی۔ رسک لال گاندھی کی بیماری کے دوران جامعہ کے اساتذہ اور طلبا نے اس کی جس طرح تیمار داری اور دل جوئی کی اس نے گاندھی جی کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ ’’ینگ انڈیا ‘‘(21فروری1929) میں ان کی یہ تحریر آج بھی موجود ہے کہ ’’موت کے وقت رسک لال کی عمر سترہ سال تھی اور شروع ہی سے وہ قومی خدما ت میں مصروف رہنے لگا تھا اور دہلی جاکر دیو داس کی مدد کرنا چاہتا تھا جو جامعہ میں ہندی اور کتائی کے استاد تھے۔ ‘‘ دیو داس گاندھی تحریک سول نافرمانی میں شرکت کرنا چاہتے تھے اس سلسلے میں انھوں نے جب اپنے والد سے بات کی تو گاندھی جی نے 15 فروری 1930کے اپنے خط میں لکھا کہ ’’اگر تحریک سول نافرمانی میں شرکت کرنا ہے تو پہلے ذاکر صاحب سے اجازت لو تاکہ جامعہ میں کسی اور استاد کا انتظام کیا جاسکے۔ ‘‘ دیوداس نے یہی کیا اورذاکر صاحب سے اجازت ملنے کے بعد انھوں نے تو تحریک سول نافرمانی میں شرکت کی ہے، ان کے علاوہ بھی جامعہ کے کئی اساتذہ اور طلبا نے شرکت کی۔ جن اساتذہ اور طلبا نے تحریک سول نافرمانی میں شرکت کی ان میں شفیق الرحمن قدوائی، حافظ فیاض احمد، حسین حسان، کنک چندر ڈیکا اور کرشنا نائر کے نام شامل ہیں۔ 
 
گاندھی جی کو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اس درجہ رغبت تھی کہ وہ بغیر اطلاع دیے بھی جامعہ آجاتے تھے اورجب یہاںیا اس کے بارے میں گفتگو کرتے تو یہ ضرور کہتے تھے کہ جامعہ کو ’’مسلمانوں کی زندگی کا صحیح نمونہ ہونا چاہیے۔ اگر کسی غیر مسلم کو اسلام کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنا ہو تو وہ بس جامعہ میں ملنی چاہیے۔ ‘‘انوپما کی کامیابی اس پس منظر میں ایک پیغام کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ پیغام دور تک پہنچ سکتا ہے اگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جو کسی بے ہودہ شعر کہنے والے شاعر یا بے پر کی اڑانے والے سیاست داں کی خوب تشہیر کرتے ہیں ، جامعہ اسکول بورڈ میں انوپما کی کامیابی کی تشہیر کو بھی ضروری سمجھیں۔ اس سے ہندوستانی معاشرے میں صحت مند پیغام پہنچے گا۔دنیا دیکھے گی کہ ان مقاصد کی تکمیل ہو رہی ہے جن کے لیے جامعہ قائم کیا گیا تھا۔
 
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1470