donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abid Anwar
Title :
   Rajdhani Delhi Me Daingu Aur Chikan Gonia Ka Qahar


قومی راجدھانی دہلی میں ڈینگواور چکن گنیا کا قہر 

 

حکومت اور میڈیا بے حسی کا شکار 


عابد انور 


    ہمارے ملک کے سیاست داں جب لمبی لمبی ہانکتے ہیں تو ہنسی اور افسوس ہوتا ہے۔ ایک صاحب تو اب تک صرف پھینک رہے ہیں۔ ملک کے عوام کو 2014میں خواب دکھانا شروع کیا تھا اب تک خواب ہی دکھا رہے ہیں اور ہندوستان کے بھولے بھالے عوام خواب دیکھنے میں مصروف ہیں۔ اس کی تعبیر کی کہیں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ چاند تاروں کو مسخر کرنے کی بات تو بہت آرام سے کرتے ہیں لیکن زمین پر کیا ہورہا ہے اس کی کسی کوئی فکر نہیں ہے۔ یہاں اسمارٹ سٹی بنانے کی بات کی جاتی ہے۔ صنعت کاروں کے لئے کسانوں کی زمین چھین کر شاپنگ مال اور عالیشان عمارت تعمیر کرنے کا خواب دکھا یاجاتا ہے۔ ہر شخص کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپے پہنچانے کا لالچ دیا جاتا ہے۔دفاع پر ان گنت پیسے خرچ کئے جاتے ہیں۔ وزرائے کے ناشتے اور کھانے اور دوروں اور وزیر اعظم کے ملکی و بیرونی دوروں اربوں روپے پھونک دیتے ہیں لیکن ملک میں بنیادی سہولت کا فقدان ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو اس کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک دوسرے پر ڈال کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ گزشتہ سال گاندھی جی سالگرہ کے موقع پر یوم عدم تشدد منانے کے بجائے سوچھ بھارت ابھیان (پاک صاف ہندوستان مہم) چلایا گیا تھا اور پوری دنیا کو بتایا گیا تھا کہ ہندوستان بہت گندہ شہر ہے ، ہر جگہ بدبو ہی بدبو پھیلی ہوئی ہے۔ کانگریس نے گزشتہ ساٹھ برسوں میں بدبو پھیلانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا ہے۔ اقتدار پر قابض ہوتے ہی مودی نے کہا تھا کہ وہ تمام کاموں کو کریں گے اور گڈھے بھرنے کا کام کریں گے۔سوچھ بھارت ابھیان چلاکر انہوں نے جھاڑو لگائی تھی اور مرکزی وزرائے بھی پہلے سے پھیلائے گئے کاغذوں کے ٹکرے یکجا کرکے اس مہم کو چار چاندلگایا تھا۔کسی نے سوچھ بھارت مہم کو تاروں سے سجایا۔ بی جے پی کے ممبران اسمبلی سے لیکر ممبران پارلیمنٹ تک سوچھ بھارت میں جی جان (صرف تصویر کھینچوانے کے لئے) سے لگ گئے۔ ہرلیڈر اپنے ہاتھ میں جھاڑوں لے کر نکل آیا تھا۔ صفائی تو نہیں ہوئی لیکن اس مد میں اربوں میں ضرور بہہ گئے۔ صاف بھی کیسے ہوتا پہلے انہیں اپنا دل، اپنا دماغ اور اپنے دماغ میں بھرا کچرا صاف کرنا تھا ، اپنے دل میں نفرت اور امتیاز والی سوچ کو ختم کرنی تھی اس کے بعد صفائی کرتے تو شائد ملک کا بھلا ہوجاتا۔ اربوں روپے سوچھ بھارت ابھیان کے اشتہارات پر خرچ کئے گئے۔ لیکن اس کا کتنا فائدہ ہوا اس کا اندازہ ملک میں بیماری سے ہونے والی اموات سے لگایا جاسکتا ہے۔ پورے ملک ڈینگو ، ملیریا اور دیگر موسمی بیماری نے اپنی زد میں لے رکھا ہے۔مشرقی یوپی کا علاقہ اور اس سے متصل بہار اور نیپال کا علاقہ مسلسل کئی برسوں سے دماغی بخار (جاپانی بخار) سے متاثر ہے۔ اب تک ہزاروں بچوں کی جان جاچکی ہے۔ روزانہ تین چار بچوں کے مرنے کی خبر آتی ہے۔ اس کے علاوہ دور دراز علاقوں میں ملیریا، ڈینگو، اسہال، الٹی دست اور اس طرح کی موسمی بیماریوں سے مرنے والے بچوں اور انسانوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ ہندوستان کے بہت سے علاقے میں ڈینگو کے بارے میں لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی ڈینگو کو جانچنے کا آلہ دستییاب ہے۔ ایسے علاقوں میں سینکڑوں افراد ڈینگو سے مرجاتے ہیں لیکن لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کس بیماری سے مرے ہیں۔ 

     ہندوستان کا دل کہی جانے والی قومی راجدھانی ان دنوں ڈینگو کی زد میں ہے۔ گزشتہ سال اس مرض سے درجنوں افراد ہلاک ہوچکے تھے اور ڈھائی ہزارسے اس مرض سے متاثرتھے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ قومی دارالحکومت میں ڈینگوں لوگوں کو اپنی زد میں لیا ہے۔ ہر سال اس طرح کے معاملے پیش آتے ہیں۔ جس درجنوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ 2010اور  2012میں ڈینگو دہلی قہر برپا کیا تھا۔ جس میں کئی درجن افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور کئی ہزر افراد اس بخار سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود قومی راجدھانی میں صفائی ستھرائی کا انتظام بہت خراب ہے۔ جگہ جگہ گندگی کا ڈھیر اور کوراکرکٹ نظر آتا ہے۔ کارپوریشن پر بی جے پی کا تقریباً دس سال سے قبضہ ہے۔اس لئے دہلی کی صفائی ستھرائی کی بہت دگرگوں ہے۔ہر جگہ دہلی میں کوڑے کا ڈھیرنظر آتا ہے، بی جے پی حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے دوسروں پر الزام لگانے میں ماہر ہے۔بارش ہوتی ہے پوری دہلی تھم جاتی ہے۔ اس کا مزہ اس بار امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو چکھنا پڑا جب انہیں 29اگست کے دن دو گھنٹے جام میں پھنسنا پڑا۔ان کے سامنے  ہندوستان کی ترقی پول کھل گئی ہوگی۔انہوں نے سوچا ہوگا کہ جب قومی راجدھانی کا یہ حال ہے تو پورے ملک کا کیا حال ہوگا۔دہلی اس وقت پوری طرح ڈینگو اور چکن گنیا کی زد میں ہے۔ ڈاکٹروں کی مانیں روزانہ تقریباً پانچ ہزار ڈینگو اور چکن گنیا کے نئے مریض اسپتال میں آرہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی اس بات کی تصدیق دہلی کے اسپتالوں کا جائزہ لے ہوجاتا ہے۔ جس  اسپتال میں جائیں خواہ وہ سرکاری اسپتال ہو یا پرائیویٹ یا اعلی درجے کا پرائیویٹ کہیں بستر خالی نہیں ہے۔ کسی اسپتال میں جگہ نہیں ہے۔ڈینگو سے ہی گزشتہ 21اگست کو فرحان حبیب کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس کی خبر جب میڈیا میں بڑے پیمانے پر آئی تو میڈیا نے تھوڑی بہت خبر دینی شروع کی لیکن اب بھی ہندوستانی میڈیا اس بارے میں خاموش ہے۔ بی جے پی کا خوف یا بی جے پی کے ہاتھوں ہندوستانی میڈیا پوری طرح بک چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں دہلی میں چکن گنیا اور ڈینگو کا وبا نظر نہیں آرہا ہے۔ صرف شاہین علاقے سے ہی چھ لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ حکومت بالکل خاموش ہے اسے گورکشا اور گورکشک کے تحفظ، لو جہاد، گھر واپسی اور نقلی حب الوطنی سے فرصت کہاں ہے وہ ان چیزوں کو دیکھے۔حکومت نام کی کوئی چیز کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ 

    پوری دنیا میں ڈینگو کا وائرس ایک سال میں تقریبا 400 ملین لوگوں کومتاثر کرتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے مچھر کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری کو پوری دنیا میں سب سے اعلی درجے پر رکھا  ہے۔ تقریباً 2.5 بلین لوگ، 100 ممالک میں اس انفیکشن کا شکار ہیں۔ ایسے میں لوگوں کو ہیمریجک (خونی) بخار اور ڈینگو شاک سنڈروم کا شکار رہتا ہے۔ابھی تک پوری دنیا میں اس کے لئے کوئی ویکسین یا دوائی نہیں بنائی گئی ہے۔ ڈینگو ایک ایسا مرض ہے جو ایڈیج اجپٹی مچھروں کے کاٹنے سے ہوتا ہیں جس میں تیز بخار کے ساتھ جسم اور سر میںتیز درد ہوتا ہے، پٹھوں اور جوڑو ںمیں خوفناک درد ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہی اسے ہڈی توڑ بخار کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ جسم پر سرخ چکتے بھی بن جاتے ہیں جو سب سے پہلے پیروں پہ پھر سینے پر اور کبھی کبھی سارے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پیٹ خراب کا ہو جانا، اس میں درد ہونا، کمزوری،اجابت کی شدت ،مسلسل چکر آنا، بھوک نہ لگنا  اس کی خاص علامت ہے۔ڈینگو کے مچھر کے کاٹنے پر اس کے ڈنک میں موجود ڈینگو وائرس کافی تعداد میں انسان کے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں جو جلد میں موجود امیون سیلز کو متاثر کرتے ہیں جس کے بعد وہ وائرس جسم کے انتہائی اہم لیمفیٹک نظام میں داخل ہو کر اس پر اثر انداز ہوتے ہیں جس کے بعد مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے،  شروعاتی دور میں بشن پیریڈ میں اس کا کچھ اثر ہوتا ہے لیکن اس کے بعد یہ اعصاب میں گھس کر خون کے ذریعہ پورے جسم میں پھیل جاتا ہے ویرمیا کہتے ہیں۔ پھر یہ مرض دوسرے مچھر کے ذریعہ دوسرے لوگوں تک پہنچتا ہے ۔ یہ چار قسم کے قربت سے جڑے وائرس سے ہوتے ہے جو پھلیوی وائرس گن اور پھلیووراڈ خاندان کے ہوتے ہیں، اور ان اکثر ان علاقوں میں پھیلتے ہیں جن میں ملیریا پھیلتا ہے،یہ مرض خاص طور پر سنگاپور، تائیوان، انڈونیشیا، فلپائن،  ہندوستان،پاکستان اور برازیل بھی شامل ہے، میں پایا جاتا ہے اور اس کا ہر وائرس اتنا مختلف ہوتاہے کسی ایک سے منتقلی کے بعد بھی دیگر کے خلاف تحفظ نہیں ملتی ہے، اور جہاں یہ مہاماری کے طور میں پھیلتا ہے وہاں ایک وقت میں کئی قسم کے وائرس فعال ہو سکتے ہیں۔ تقریبا ًنصف دنیا اس وقت ڈینگو کے مچھروں سے متاثر ہے لیکن اس کے باوجود کسی بھی ملک میں ڈینگو جیسا مرض وبا کی فہرست میں نہیں ہے جبکہ ہندوستان میں ہر سال کافی تعداد میں لوگ اس کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ اس وقت بھی صورت اے حال یہی ہے کے روز بہ روز موت کی خبریں آ رہی ہیں، اور نئے نئے کی معاملے سامنے آ رہے ہیں جس  پر قابوب پانے میں فی الحال مرکزاور دہلی کا محکمہ صحت پوری طرح ناکام ثابت ہو رہا ہے۔

    8اکتوبر 2006تک شہر دہلی میں اس مرض کے886مریض پائے گئے جبکہ کیرالہ میں713،گجرات میں424،راجستھان میں326،مغربی بنگال میں 314،تامل ناڈو میں 306،مہارشٹر میں226،اترپردیش میں79،ہریانہ میں 65کرناٹک میں59اور اندھیراپردیش میں 70افراد اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ ملک میں دو ہزار نوسو افراد ڈینگو وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 673 افراد کا تعلق دلی سیتھا۔ ان کے مطابق ڈینگو سے ہونے والی 38 میں سے پندرہ اموات دارالحکومت دلی میں ہوئیں جبکہ گجرات میں تین ، راجستھان میں سات، مغربی بنگال میں تین اور کیرلا میں چار اموات ہوئی ہیںاور ملک میں دو ہزار نوسو افراد ڈینگو وائرس سے متاثر ہوئے تھیجن میں سے 673 افراد کا تعلق دہلی سے تھا۔2005 پورے ملک میں ڈینگو وائرس کے گیارہ ہزار نو سو کیس سامنے آئے تھے اور اس بیماری نے 157 افراد کی جانیں لیں تھیں۔ہندوستان میں ڈینگو بخار کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہسپتالوں میں روز نئے مریض داخل ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ڈینگو بخار ایک خاص طرح کے ایڈیز نامی مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے اور اس کی علامتوں میں تیز بخار، متلی ، جسم میں اینٹھن اور پیٹھ میں درد جیسی شکایات شامل ہیں۔بخار کی تیزی کی وجہ سے بعض معاملات میں دماغ کی رگ پھٹنے یعنی برین ہیمرج کا بھی خطرہ رہتا ہے۔

    مختلف ممالک میں ڈینگو اور اس سے ملتی جلتی بیماری وبا کی صورت  اختیار کرتی رہتی ہیں۔ لاطینی امریکہ اور امریکی ممالک میں زیکا وائرس سے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ ڈینگو اور اس طرح بیماری دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے۔میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اگست سے اکتوبر 2006میں ڈومنکن ری پبلک میں ڈینگو بخار پھیلا جس سے44سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ستمبر سے اکتوبر 2006میں کیوبا میں اس بیماری سے اموات ہوئیں۔جبکہ ساوتھ ایسٹ ایشیاء میں بھی یہ وائرس پھیل رہا ہے۔فلپائن میں جنوری سے اگست2006کے دوران اس مرض کے13468مریض پائے گئے جن میں 167افراد ہلاک ہو گئے۔مئی2005میں تھائی لینڈ میں اس وائرس سے 7200افراد بیمار ہو گئے جن میں 21سے زائد ہلاک ہو گئے۔2004میں انڈونیشیا میں 80000افراد ڈینگو کا شکار ہو ئے جن میں800سے زائد ہلاک ہو گئے۔جنوری2005میں ملائیشیا میں33203افراد اس بیماری کا شکار ہوئے۔سنگا پور میں 2003میں4788افراد اس مرض کا شکار ہوئے جبکہ2004میں9400افراد اور2005اس مرض سے 13افراد کی ہلاکت ریکارڈ کی گئیں۔15مارچ2006کو آسٹریلیا میں اس مرض کے پھیلنے کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی۔ستمبر2006میں چین میں اس مرض میں70افراد مبتلا ہوئے۔ستمبر2005میں کمبوڈیا میںڈینگو سے38افراد ہلاک ہوئے۔ 2005میںکوسٹا ریکا میں19000افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے جن میں سے ایک فرد کی موت ریکارڈ ہوئی۔2005میںہندوستان  کے صوبے بنگال میں900افراد بیمار ہوئے جبکہ15افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔2005میں انڈونیشیا میں80837افراد اس بخار میں مبتلا ہوئے جبکہ1099افراد کے مرنے کی تصدیق ہوئی۔2005میں ملائشیا میں32950افراد اس بیماری کا شکار ہوئے اور83افرادہلاک ہو گئے۔2005میں مارطنیقمیں6000افراد ڈینگو کا شکار ہوئے جبکہ2ستمبر کو اس مرض سے دو افراد ہلاک ہوگئے۔2005میں ہی فلپائن میں 21537افراد اس بیماری کا شکار ہوئے جن میں سے280افراد ہلاک ہو گئے۔2005میں سنگاپور میں12700افراد اس بیماری کا شکار ہوئے جبکہ19افراد کی اس مرض کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔2005میں سری لنکا میں 3000سے زائد افراد اس موذی مرض کا شکار ہوئے۔2005میں تھائی لینڈ میں 31000افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے جبکہ58کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی جبکہ2005میں ویتنام میں اس مرض کا شکار 20000

سے زائد افراد پائے گئے جن میں28افراد ہلاک ہو گئے۔
    ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جس پر قابو پایا نہ جاسکے۔ صرف عزم کی کمی ہے۔دہلی میں صفائی ستھرائی کی ذمہ داری بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہے کیوں کہ دہلی کارپوریشن پر اس کا قبضہ ہے ۔ اس نے سمت میں کوئی کام نہیں کیا  اور اس کی ساری ذمہ داری کیجریوال حکومت پر ڈال دی۔ زرخرید میڈیا کے سہارے وہ کیجریوال حکومت کو بدنام کرتی رہی۔ اس کا مطلب قطعی کیجریوال کو کلین چٹ دی جارہی ہے۔ وہ دہلی میں حکومت کررہے ہیں ان کی بھی ذمہ داری ہے لیکن سب سے بڑی ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہے۔ جس کے تحت دہلی کے بڑے بڑے اسپتال ہیں۔ ڈینگو صفائی ستھرائی نہ ہونے کی پھیلی ہے اور پھیل رہی ہے اس لئے اس کی تمام تر ذمہ داری بی جے پی کی حکمرانی میونسپل کارپوریشن اور نئی دہلی میونسپل کارپوریشن اور مرکزی حکومت کی ہے۔ لیکن ہندوتو کے ہوش ربا خواب میں مدہوش عوام اس کی جواب دہی اور ذمہ داری طے کرنے میں ناکام ہیں ۔ جس کی وجہ سے ملک کا سارا سسٹم ناکارہ اور درہم برہم ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود دہلی کی بی جے پی صرف سیاست کرنے لگی ہوئی ہے۔ اس کے ترجمان نہایت بے شرمی ٹی وی چینلوں پر ہونے والے مباحثے میں جھوٹ بولکر چلے جاتے ہیں۔کیوں کہ انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ شرم کس چیز کا نام ہے۔


ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25


9810372335،9891596593 
abidanwaruni@gmail.com

**********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 499