donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz, Bhopal
Title :
   Musalmano Ki Buniyadi Taleem Par Tawajjo Di Jaye


مسلمانوں کی بنیادی تعلیم پر توجہ دی جائے


عارف عزیز

(بھوپال)


    ہندوستان میں یوں تو ہر سطح اور ہر طبقہ کا معیار تعلیم انحطاط کا شکار ہے ، خاص طور پر بنیادی تعلیم حد درجہ متاثر ہوچکی ہے اور ا س میں بھی مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں کا حال سب سے زیادہ ابتر ہے چنانچہ شمالی اور وسط ہند کے اکثر ایسے اسکول جو مسلم انتظامیہ کے زیر اہتمام چل رہے ہیں کافی بدتر حالات سے دوچار ہیں، دوسرے یہ کہ ان اسکولوں میں داخلہ لینے والے طلباء کی تعداد میں قابلِ لحاظ کمی کے علاوہ درمیانی درجہ تک پہونچنے کے بعد تعلیم ترک کردینے والے بچوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جس کی متعدد وجوہ ہیں۔

    ان میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ محنت کش طبقہ سے تعلق رکھنے والوں اور شہروں میں آباد کاریگروں میں یہ عام رجحان فروغ پارہا ہے کہ ان کے بچوں کے لئے تعلیم کا حصول بے سود ہے وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کا لڑکا محنت ومشقت کے بعد گریجویٹ ہو بھی گیا تو اس کو کافی تگ ودو کے بعد ملازمت حاصل ہوسکتی ہے وہ۵-۴ ہزار روپے پر ہی مشتمل ہوگی جبکہ وہی لڑکا اگر چودہ پندرہ برس کی عمر میں اپنا آبائی پیشہ اختیار کرلے گا تو اسے بہ آسانی ماہانہ۱۲-۱۰ہزار روپے تک یافت ہوسکے گی لہذا اسی رجحان کے باعث اکثر شہروں میں محنت کش طبقات سے آنے والے بچوں کے ترک تعلیم کے اوسط  میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے۔

    خصوصیت سے وادی کشمیر جو مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور وہاں مسلمانوں اور پنڈتوں کا تناسب ۶۵ اور ۳۵ ہے لیکن یونیورسٹی کی سطح پر مسلم طلباء تیس فیصد سے زائد نہیں حالانکہ ثانوی مدارس میں مسلم طلباء کی تعداد ۵۰ اور پرائمری مدارس میں ۷۰ فیصد تک ہے مگر اس کے بعد یہ تعداد گھٹتے گھٹتے نصف سے بھی کم رہ جاتی ہے۔حال کے عرصہ میں ضرور کشمیری نوجوانوں نے ملک کے مختلف شہروں میں پہونچ کر تعلیم کی طرف توجہ درج کرائی ہے، بہرحال اس صورت حال کے اسباب کا جائزہ لینے کے لئے جب تفصیلی سروے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں کیونکہ پرائمری مدارس کی کارکردگی اور ان کا معیارِ تعلیم نہایت خراب ہے جس کی وجہ سے بچوں میں تعلیم سے رغبت ختم ہورہی ہے اور پرائمری میں داخلہ لینے والے بچوں کی بڑی تعداد ثانوی درجوں میں پہونچنے سے قبل ہی مدارس کی تعلیم کو ترک کر دیتی ہے، یہی سبب ہے کہ وہاں میٹرک کے نتائج کا تجزیہ کرنے پر انکشاف ہوتا ہے کہ ریگولر تعلیم پانے والے کامیاب امیدواروں میں مسلمانوں اور پنڈتوں کا تناسب ایک اور تین کے برابر ہے جبکہ پرائیویٹ امیدواروں میں مسلمانوں اور پنڈتوں کی تعداد تقریباً مساوی رہی ہے، اس سے یہ بھی اظہار ہوتا ہے کہ جب مسلم طلباء اپنے طور پر خود محنت کرتے ہیں تو ان کی کامیابی کا اوسط بڑھ جاتا ہے ، اس طرح ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم میں پچھڑنے کی ایک وجہ یہی مدارس ہیں جن کا معیار تعلیم توجہ طلب ہے۔

     جنوبی ہند کو چھوڑ کر سارے ملک میںتقریباً یہی صورت حال پائی جاتی ہے جس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جب تک بنیادی تعلیم کا معیار بلند نہ ہوگا مسلمان اعلیٰ تعلیم یا فنی تعلیم میں بہتر تناسب کی توقع نہیں کرسکتے، خاص طور پر مسابقتی امتحانات میں ان کا تناسب نہیں بڑھے گا،جہاں تک آئی اے ایس ، آئی پی ایس اور یونین پبلک سروس کمیشن کے مسابقتی امتحانات کا تعلق ہے تو ان میں بیشتر پڑھے لکھے خاندانوں اور متمول گھرانوں کے وہ لڑکے ہی کامیاب ہوتے ہیں جن کی تعلیمی بنیاد کافی مستحکم اور اچھے ماحول کے باعث ان کی ذہنی تربیت ہوجاتی ہے، کچھ ایسی مثالیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں کہ نادار خاندانوں کے بچے بھی اس مسابقت کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے اور یہ بات لڑکے کی غیر معمولی صلاحیت اور تعلیم سے رغبت پر منحصر ہوتی ہے اگر ایسے طلباء کی حوصلہ افزائی کیلئے ابتدائی درجوں سے ہی ان پر توجہ دی جائے تو یقینا ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہوسکتے ہیں لہذا ہمارا کہنا ہے کہ ہر ریاست اور ہر شہر میں معیاری اسکول قائم کئے جائیں یا موجودہ اسکولوں کا معیار بلند کیا جائے تو بلاشبہ ان میں تعلیم پاکر آگے بڑھنے والے طلباء کل ہند مسابقتی امتحانات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے ، اسی طرح مسلم ادارے اور تنظیمیں مسابقتی امتحانات میں لائق طلباء کی تربیت کرکے یہ کام کسی نہ کسی طور پر انجام دے سکتی ہیں۔

(یو این این)

**********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 427