donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar - Baune Ko Tha Qad Aawari Ka Junoon


بہار:بونے کو تھا قد آوری کا جنون


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

موبائل:09431414586

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

 


    ہندستان کی انتخابی تاریخ میں بہار اسمبلی انتخاب بہ ایں معنیٰ تاریخی اہمیت کا حامل تھا کہ اس انتخاب میں ایک ایسی سیاسی طاقت جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کے چراغوں کو بجھانے میں یقین رکھتی ہے ، وہ بہار کی زمین پراپنا آزادانہ پائوں جمانا چاہتی تھی۔ لیکن شاید اسے یہ یاد نہیں رہا کہ ریاست بہار گوتم بدھ کی دھرتی ہے ، مہاویر جین کا پرکاش یہیں سے پھیلا اورحضرت شیخ یحیٰ منیری کے پیغام انسانیت کا چراغ بھی اسی سرزمین پر روشن ہوا۔ گرو گوبند سنگھ نے واہے گرو کی آواز بلند کی اور سارے انسان بھائی بھائی ہیں اس کا پاٹھ پڑھایا۔ ماضی میں بھی ایک سے ایک مشکل دور آئے لیکن یہاں کے باشندوں نے اپنی شناخت برقرار رکھی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے چراغوں کو روشن رکھا۔ جب کبھی مسموم فضا سامنے آئی تو ایک نہ ایک ایسے جیالے پیدا ہوئے جنہوں نے طوفانوں کا رُ خ موڑ دیا ۔ ہندستان کی سیاست جب کبھی کروٹ لینی چاہی تو اس انگڑائی کا آغاز بھی بہار سے ہی ہوا۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے چمپارن سے جو آواز بلند کی وہ کشمیر سے کنیا کماری تک پہنچی اور ظالم وقت انگریز کو آخر کو ملک چھوڑنا پڑا۔ حالیہ دورمیں بھی جے پی تحریک نے ہندستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ اس بار بھی ایک ایسی طاقت جو ملک کی سا  لمیت میں یقین نہیں رکھتی اور فرقہ وارنہ شدت پسندی کی بدولت ملک کی تصویر بدلنا چاہتی ہے اس نے اپنا پھَن پھیلا رکھا تھا جس سے ملک کے ہر وہ شہری دہشت زدہ تھے جو اپنے ملک کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور رام رحیم کے اس ملک کو امن کا گہوارہ بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔نتیش کمار اور لالو پرساد یادو نے اپنے ریاست کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے جو جد جہد کی ہے وہ نہ صرف ریاست بہار کے لئے بلکہ ملک کی سیاست کے لئے چراغ راہ ثابت ہوگا۔ ورنہ بہار اسمبلی انتخاب میں جس طرح سنگھ پریوار جمہوریت کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ لمحۂ فکریہ تھا ۔ مگر اب بہار اسمبلی انتخاب کا نتیجہ سامنے آچکا ہے اور یہاں کے عوام نے اپنے اس تاریخی فیصلے سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مادر جمہوریت بہار آج بھی پاسدار جمہوری نظام اور علم بردارِسیکولرزم ہے۔ کیونکہ اس ریاستی انتخاب میں دورِ آغاز سے ہی فرقہ پرست طاقتیں وہ تمام حربے اپنا رہی تھیں جس سے جمہوریت کے وقار مجروح ہونے کا خطرہ اور سیکولرزم کے مستحکم ڈھانچوںکے متزلزل ہونے کا اندیشہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ بہار کی دانشوری اور سیاسی بصیرت و بصارت کا امتحان بھی تھا کہ کیا دنیا میں پہلا چراغِ جمہوریت روشن کرنے والا بہار اپنی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھ پائے گا یا نہیں۔لیکن نتیجے سے یہ ثابت ہو گیا کہ بہار ہمیشہ ہندستانی سیاست کو نئی سمت عطا کرتا رہا ہے۔ اس بار بھی بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج سے نہ صرف بہار کی سیاسی تصویر بدلی ہے بلکہ قومی سیاست کی تقدیر بدلنے کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں۔ اس انتخاب نے ملک و قوم کے ان تمام لوگوں کو راحت بخشی ہے جو گذشتہ ڈیڑھ سال سے ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی، عدم رواداری اور ایک خاص طبقے کے خلاف مہم سازی سے فکر مند تھے۔ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس ریاستی انتخاب میں جس طرح ملک کی ایک بڑی اقلیت مسلمانوں کے خلاف ملک کی اکثریت آبادی کے ذہن میں زہر بھرنے کی کوشش کی، اسے بہار کے عوام نے ناکام کر کے علمِ انسانیت کو بلند کیا ہے۔واضح ہو کہ ریاست میں پانچ مرحلوں میں انتخاب مکمل ہوا ہے۔سنگھ پریوار تو شروع سے ہی فرقہ وارانہ فضا بنانے میں لگا ہوا تھا لیکن دوسرے مرحلے کے بعد بھاجپا کے تمام لیڈران بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی صدر امیت شاہ نے کھل کر اس انتخاب کو فرقہ واریت کی  بنیاد پر جیتنے کی کوشش کی۔زعفرانی میڈیا نے بھی چنگاری کو شعلہ بنانے کا کام کیا اور پولنگ کے آخری دن بھی اخباروں میں گائے کی متنازعہ تصویر شائع کر ہندوتو کو جگانے کی کوشش کی گئی۔لیکن ہندستانی سیاست کی تاریخ میں یہ بھی ضرور درج ہوگا کہ بہار کے سیکولر ذہن عوام نے نہ صرف فرقہ پرستی کی چنگاری کو بجھانے کا کام کیا ہے بلکہ پاسدار انسانیت کا فریضہ بھی ادا کیا ہے۔ اس انتخاب میں بھی بھاجپا اور ان کے حامیوں کو محض چھبیس فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ عظیم اتحاد کو پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اس نتیجے سے یہ بھی پیغام عام ہوا ہے کہ پارلیمانی انتخاب میں محض ووٹوں کے انتشار کی وجہ سے نریندر مودی مرکز پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے۔ اگر اسی طرح آئندہ اترپردیش اور مغربی بنگال کے ریاستی انتخاب میں سیکولر اتحاد ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہو جائیں تو سنگھ پریوار کے تمام منصوبوں پر پانی پھر سکتا ہے کیونکہ ان ریاستوں کے نتائج ہی راشٹرپتی بھون کے راستے طئے کریں گے۔بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج سے سنگھ پریوار کا وہ خواب بھی چکنا چو ہو گیا ہے کہ اب وہ راج سبھا میں کسی قیمت پر 2019تک ا کثریت حاصل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اگر بہار کا نتیجہ ان کے حق میں چلا جاتا تو راجیہ سبھا کی بھی تصویر بدل سکتی تھی اور پھر سنگھ پریوار اپنی مرضی کے وہ تمام قانون بنانے کی پہل کرتی جو مودی حکومت کا خفیہ ایجنڈا ہے۔اس انتخاب کے نتائج نے ملک کو ایک یہ پیغام بھی دیا ہے کہ نریندر مودی کوئی کرشمائی شخصیت نہیں جیسا کہ ملک کی زعفرانی میڈیا کہتی رہی ہے۔ بلکہ نتیش کمار کی حکمت عملی کے آگے وہ بونے ثابت ہوئے ہیں اور لالو پرساد یادو کی سوشل انجینئرنگ نے ان کے ’’مداری پن‘‘ کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔ اس لئے بہار ریاستی اسمبلی انتخاب کے نتائج کو صرف ایک ریاست کے انتخاب کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے بلکہ اس انتخاب نے قومی سیاست کے رُخ کو موڑنے کا کام کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک کے ان تمام سیاسی بہروپیوں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے جو خود کو مبینہ طور پر سیکولرزم کے علم بردار کہتے ہیں۔بالخصوص ملائم سنگھ یادو، پپو یادو، شرد پوار اور اسدالدّین اویسی کے فیصلے نہ صرف غیر دانشورانہ تھے بلکہ پردے کے پیچھے فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت بخشنے والے تھے۔ ورنہ ملائم سنگھ یادو کا بیشتر سیٹوں پر امیدوار کھڑا کرنا اور اویسی کا مسلم اکثریت حلقوں میں بگل بجانا کیا معنی رکھتا ہے؟بہر کیف ! بہار کے عوام نے جو اپنی سیاسی بصیرت و بصارت کا مظاہرہ کیا ہے اور قدرے مسلم آبادی نے بھی اپنی سوجھ بوجھ دکھائی ہے وہ قابل ِ تحسین ہے اور مستقبل میں دوسری ریاستوں بالخصوص جہاں حالیہ برسوں میں انتخاب ہونا ہے،ان کے لئے مشعل راہ ہے۔بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ نتیش کمار کی حکمت عملی اور دانشورانہ فکر نے مودی جیسے ایک بونے جس کو قد آوری کا جنون تھا اس کی ہر ایک صدا کو صدا بہ صحرا ثابت کر دیا ہے۔ اور بہار کی جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، بھائی چارگی اور تکثیریت کی شناخت رہی ہے اس کو نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کی مشترکہ کوشش نے اور تقویت بخشی ہے۔

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 507