donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   School wa Madaris Ka Nesabe taleem Aur Tasawwuf Ki Talimaat


اسکول ومدارس کا نصاب تعلیم اور تصوف کی تعلیمات


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک بیان میں تصوف کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسند طاقتیںصوفیہ کے نظریات کو کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔انھوں نے اس نظریے کو ہندوستانی تہذیب وثقافت اور ماضی کی روایت کا حصہ بتایا۔ وزیر اعظم کے اس بیان کو خوش آئند اور امید کی کرن قرار دینا چاہئے، اس پہلو پر غور کئے بغیر کہ جو کچھ انھوں نے کہا وہ ان کے دل کے بجائے صرف زبان کی آواز ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تصوف کا ہزار سال کا شاندار اتہاس رہا ہے اور پورے عالم اسلام میں یہ نصاب تعلیم کا اہم حصہ رہا ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہی تصوف بھی آیا اور اس کی اخلاقی وروحانی قدروں نے ہندو علماء کو بھی متاثر کیا۔ اسی کے زیر اثر یہاں بھکتی تحریک کا آغاز ہوا۔ تصوف کی خاص بات یہ ہے کہ جب تک یہ نصاب تعلیم کا حصہ رہا اانسانی اخلاقیات کا زوال اس انداز میں نہیں ہوا جس انداز میں آج ہورہاہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ صوفیہ کی اخلاقی تعلیمات کو ہندوستان کے تمام اسکولوں، کالجوں اور مدرسوں کے نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے۔ آج ہمارے سماج میں جس طرح سے جرائم بڑھ رہے ہیں اور اخلاقی قدروں کی ہورہی ہے، اس سے جنگ کا ایک بہتر ہتھیار ثابت ہوسکتی ہیں صوفیہ کی تعلیمات۔مودی جی جس طرح یوگ پر زور دے رہے ہیں اس سے زیادہ صوفی ازم پر زور دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یوگ سے جسمانی صحت درست ہوتی ہے مگر تصوف تو روحانی اور اخلاقی صحت کے لئے لازم ہے۔ ہم تاریخی مثالوں کی بنیاد پر یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس کی تعلیم طلبہ کو دی گئی تو جرائم، تشدد، دہشت گردی کے واقعات میں کمی آسکتی ہے۔ سرکاری دفتروں میں کام چوری کا کلچر ختم ہوسکتا ہے اور کرپشن پر لگام لگایا جاسکتا ہے۔  

خرابیوں کا سبب تصوف سے دوری

    تصوف اسلام کا جمالیاتی چہرہ ہے جس سے آج مسلمان ہی محروم ہوتے جارہے ہیں۔حالانکہ ان دنوں غیرمسلموں کے اندر ایک طبقہ اس کی جانب مائل ہورہا ہے اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہے۔مساجد،دینی مدارس اور خانقاہوں کو مسلمان ہر دور میں احترام کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔یہ وہ کارخانے ہیںجہاں شخصیت سازی ہوتی ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اب یہاں بھی کئی قسم کی کمیاں اور اخلاقی خرابیاں نظر آرہی ہیں۔ حضرت ابو بکر ورّاق رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ:

    ’’ ــلوگ تین طرح کے ہوتے ہیں۔علمائ،امراء اور فقرائ۔ جب علماء خراب ہو جاتے ہیں تو خلق کے طاعت واحکام تباہ ہو جاتے ہیں،اور جب امراء خراب ہو جاتے ہیں تو لوگوں کی معیشت تباہ وبرباد ہو جاتی ہے اور جب فقراء خراب ہوجاتے ہیںتو لوگوں کے اخلاق برباد ہو جاتے ہیں۔،،(کشف المحجوب،صفحہ ۲۱۵)  اور جہاں سب کے سب خراب ہو جائیں وہاںکیا کیفیت ہوگی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ انھیں ٹھیک کرنے والے اداروں کے ذمہ داران خود بگڑتے جا رہے ہیں۔ مساجد کی ذمہ داری جاہل اوراخلاقیات سے عاری لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ خانقاہوں پر وہ قابض ہیں جنھوں نے تصوف کو پس پشت ڈال دیا ہے۔درگاہوں کو اکتساب زر کی دکان میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ پیر صاحبان کو سجادہ نشینی کی جنگ سے فرصت نہیں۔ مدارس دینی تعلیم اور شخصیت سازی کے بجائے مسلکی فتنوں کی آماجگاہ بن گئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ د یگر اداروں کی طرح اب مدرسوں کے تعلیم یافتہ افراد میں بھی اخلاقی زوال دیکھنے کو مل رہا ہے۔ انھیں گڑبڑی کے مواقع کم ملتے ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر افراد اونچے سرکاری عہدوں تک نہیں پہونچ پاتے ہیں لہٰذا وہ گھپلے گھوٹالے بھی کم ہی انجام دیتے ہیں، لیکن یہ کام وہ اپنے مدرسوں اور دوسرے چھوٹے چھوٹے اداروں میں بھی کر لیتے ہیں۔ایسے NGO,s کی کمی نہیںجو انھیں علماء کی طرف سے صرف اس لئے چلائے جاتے ہیں کہ عرب ممالک سے زکوٰۃ،خیرات اکٹھی کرکے عیش وعشرت کے محل تعمیر کئے جائیں۔ سماوی آفات اور فرقہ وارانہ فسادات کے بعد یہ حضرات عرب ملکوں کے دورے پر چندے اکٹھے کرنے چل پڑتے ہیں۔ وہ دینی مدرسے جہاں اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں اور انسانی برابری کا درس دیا جاتا ہے ، وہا ں طلباء کے ساتھ کئی طرح کی نابرابری بھی دیکھی جاتی ہے ۔ بعض اوقات علاقائی ،لسانی اور نسلی امتیاز دیکھنے کو ملتا ہے اور اس کا ایک بڑا سبب صوفیانہ تعلیمات وتربیت کا فقدان ہے۔

 تصوف کی تعلیم دِل بدل سکتی ہے
    مولانا جلال الدین رومی کا قول ہے:

    ’’جو پرندہ زمین سے اوپر اڑتا ہے اگر چہ وہ آسمان میں نہیں پہنچتا مگر اتنا تو ہوتا ہے کہ حال سے بہت دور ہوجاتا ہے اسی طرح اگر کوئی درویش ہوجائے اور وہ کمالِ درویشی کو نہ پہنچے مگر اس قدر تو ہوتا ہے کہ مخلوق میں عوام کے گروہ سے ممتاز ہوجاتا ہے ، اور دنیاکی زحمتوں اور جھمیلوں سے چھوٹ جاتا ہے اور ہلکا پھلکا بن جاتا ہے۔ ، ، 

(نفحات الانس صفحہ ۷۰۰)

     تصوف کی اخلاقی تعلیمات کواگر نصاب میں شامل کردیا جائے تو اس کے اچھے نتائج لازمی طور پر طلباء کے اخلاق پر پڑیںگے ۔ تصوف، تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہے۔ صوفیہ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ اگر کوئی ان کے پاس روحانی تعلیم کے لئے آتاتو وہ اس سے مجاہدہ بھی کرایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی امیر ووزیر بھی ہوتا تو اسے اس منزل سے گزرنا پڑتا تھا۔اونچے عہدوں پر فائز افراد میں اکثر احساسِ برتری اور انانیت کے جذبات ابھر آتے ہیں۔ مجاہدہ اسی احساس کو ختم کر کے آدمی کے اندر انکساری لاتا ہے ۔ اسے بندہ ہونے کا احساس دلاتا ہے ،اسے یہ بتاتا ہے کہ وہ اللہ کا ایک معمولی بندہ ہے ۔

   عہدِحاضر میں تعلیم کا مطلب

    اس وقت جن علوم وفنون کادنیا میں رواج ہے وہ وہی ہیں جو مادہ پرستی سے عبارت ہیں۔ جو انسان کو دنیا کی دولت سے مالا مال کرنے والے ہیں، جن کی ڈیمانڈبڑی بڑی کمپنیوں کو ہے اور جو ہماری زندگی کو دنیاوی جاہ وحشمت سے ہمکنار کرنے والے ہیں۔ اخلاقی علوم چونکہ دنیا کی دولت نہیں دیتے لہٰذاانکی کوئی قدروقیمت نہیں۔ موجودہ دور میں صرف انھیں لوگوں کو پڑھا لکھا اورکامیاب سمجھا جاتا ہے جو اپنے چھل بل کی بنیاد پر مالی منافع کمانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔شاید یہی وجہ ہے کہ آدمی دولت کمانے کی مشین بن چکا ہے اوراخلاقیات سے عاری ہوتا جارہاہے۔ جنگلوں میں رہنے والے جاہل اور غیر مہذب لوگ، انسانوں کا قتل جہالت میں کر دیتے تھے، مگر آج کا انسان تو پڑھا لکھا ہے۔ وہ انسانی جان کی قیمت کو سمجھتا ہے، پھر بھی وہ خونریزی سے باز نہیں آتا۔کیا ایٹم بم بنانے والے جاہل اور ان پڑھ ہیں؟ کیا کیمیائی اسلحوں کے سائنسدا ں علم سے بے بہرہ ہیں؟ کیاہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم برسانے والے ان پڑھ و جاہل تھے؟

تصوف علم کے غلط استعمال سے روکتا ہے

    تصوف کی تعلیم کی یہی خوبی ہے کہ وہ انسان کو انسان بناتی ہے اور درندہ بننے سے روکتی ہے۔ وہ اسے بتاتی ہے کہ علم کا صحیح استعمال کیا ہے؟وہ اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ انسان دولت کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک چلا جائے اور ہلاکت خیزی پر اتر آئے۔صوفیہ کی نظر میں وہی علم، علم ہے جو انسان کو خالق کی معرفت تک پہونچائے۔ جس سے اپنے مالک کا عرفان حاصل ہو۔ وہ علم سرے سے علم ہی نہیںبلکہ جہل سے بدترہے جسکی بنیاد تعمیر کے بجائے تخریب پر رکھی گئی ہو۔ جو آبادیوںکو ویران اورشہروں کو مسمار کرے وہ سائنس نہیں، تخریبِ سائنس ہے۔جو لوگ اپنے علم کا غلط استعمال کرتے ہیں ان کے لئے سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ ،حضرت مجددالف ثانی احمدسرہندی لکھتے ہیں :

     ’’یہ( برے علمائ)پارس پتھر کی طرح ہیں کہ تانبے اور لوہے کی جوچیزبھی اس کے ساتھ رگڑکھاتی ہے ،سونا ہوجاتی ہے اور وہ خود اپنی ذات میں پتھر ہی رہتا ہے،اور اسی طرح وہ آگ جو پتھر اور بانس میں پوشیدہ موجودہے،دنیا کو اس آگ سے بہت سے فائدے حاصل ہیں لیکن وہ پتھر اور بانس اپنے اندرکی موجودہ آگ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے ۔‘‘

(مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی،دفتر اول ،مکتوب ۔۳۳ )   

    تصوف کی بنیادی خوبی یہی ہے کہ وہ انسان کو ایک مقصدِ زندگی دیتا ہے۔علم کا حصول وہاں بھی لا زم ہے مگر اسکا مقصد خیرو صلاح ہے نہ کہ سماج اور انسانیت کی بربادی۔ وہ پیسہ کمانے اور روزگار کے حصول سے نہیں روکتا مگر وہ اسکی بھی اجازت نہیں دیتا کہ آپ اسکے لئے ہر جائزوناجائز طریقے کو اپنا لیں۔تصوف انسان کو اخلاقی ضابطوں کے ساتھ زندگی جینے کا سلیقہ عطا کرتا ہے ۔اس لئے اگر تصوف کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنا دیا جائے تو یہ طلباء کے اندر حیرت انگیز تبدیلی لا سکتا ہے۔

 تصوف پر ستم

     ماضی میںتصوف نے جو تاریخی کردار اخلاق و کردار سازی میں ادا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور اسکی بنیاد پر یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ آج کے اس خیر وصلاح سے عاری ماحول میںاس کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ تصوف کو ابتدائی دور میں ہی اسلامی ملکوں کے نصابِ تعلیم میں شامل کر لیا گیاتھااور ایک ہزار سال سے زیادہ یہ نصاب کا حصہ رہا مگر اس وقت اس موضوع کو نصابِ تعلیم سے تقریبا خارج کر دیا گیا ہے۔ اگر ہندستان کی سطح پر دیکھیں تو اب اسکی تعلیم بالکل نہیں ہوتی۔ صرف ان یونیورسیٹیوں میں جہاں اسلامیات( IslamicStudies)  کا شعبہ ہے تاریخِ تصوف ( HISTORY OF SUFISM )پڑھایا جاتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ یہاں بھی اسلامیات پڑھانے والے بیشتر اساتذہ اسے غیر اسلامی علم قرار دیتے ہیں اور اس کے بدعت ہونے کی بات کہتے ہیں۔ ایسے حالات میں انکی تدریس کتنی مثبت ہوگی یہ سمجھا جا سکتا ہے۔ جب سینکڑوں سال تک یہ نصاب کا حصہ رہا تو کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ تصوف بدعت ہے مگر آج اس سوال کو اتنا اچھالا جا رہا ہے کہ اچھے خاصے مسلمان بھی غلط فہمی کا شکار ہو رہے ہیں اور وہ غیر مسلم جوتصوف کے مطالعے کی وجہ سے اسلام سے متاثر ہوئے ہیں تذبذب کا شکار ہیں کہ اصل اسلام کون سا ہے؟ خواجہ معین الدین چشتی،نظام الدین اولیاء اور صوفیہ والا اسلام یا اسامہ بن لادن ،ایمن ا لظواہری، لشکرطیبہ ، القاعدہ اور داعش والا اسلام؟

نصابِ تعلیم سے تصوف کا اخراج

    تصوف پر ایک بڑا ستم خود مسلمانوں نے ڈھایا کہ انھوں نے اسے مدرسوں کے نصاب سے نکال باہر کیا ۔دینی مدرسے جنھیں عام مسلمان اسلام کا قلعہ پناہ قرار دیتے ہیں، اب وہا ں بھی ا سکی پڑھائی نہیں ہوتی،بلکہ ان میں سے بعض مدارس کے نگران خود وہ حضرات ہیں جو صوفیہ کی اولاد ہیں اور انکی اپنی پہچان بھی اسی کی مرہونِ منت ہے۔ انتہا یہ کہ بریلی اور کچھوچھہ جہاں مزارات پر حاضری کے لئے ساری دنیا سے عقیدت مند آتے ہیں ،اور یہاں کے پیر صاحبان ساری دنیا میں گھوم گھوم کر تصوف کے موضوع پر تقریریں کرتے ہیں ، نیز انکے مریدین لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں، وہاں کے مدرسوں میں بھی تصوف کی پڑھائی نہیں ہوتی ۔ دیوبند کی شہرت عظیم الشان دارالعلوم کی وجہ سے پوری دنیا میں ہے ،اور اس نظریۂ فکر کے لاکھوں مدرسے ملک اور بیرونِ ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔یہاں کے بزرگوں میں بیشتر چشتی سلسلے سے وابستہ رہے ہیں اور انھوں نے تصوف کے موضوع پر کتابیں بھی تحریر کی ہیں مگر اس مسلک کے کسی بھی مدرسے میں اب تصوف کی تدریس نہیں ہوتی۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں مدرسوں کے طلباء دورانِ تعلیم اس بات سے مطلقاً بے خبر رہتے ہیں کہ تصوف جیسا کوئی علم بھی دنیا میں موجود ہے۔ یہی نہیں ملک کے بیشتر صوبوں میں مدرسہ بورڈ ہیں ،جن کا اپنا نصابِ تعلیم ہے ،ان میں بھی تصوف اور تاریخِ تصوف پر کوئی کتاب نہیں ہے۔ جن گروپوں کے علماء اسے بدعت قرار دیتے ہیں ان سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ اپنے اداروں میں اسکی تعلیم دینگے، مگر جو لوگ اسے عین اسلامی علم سمجھتے ہیں اور اسلام کی لگ بھگ ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ سے واقف ہیں،پھر خود کو خواجہ معین الدین چشتی، نظام الدین اولیاء اور صوفیہ کا پیروکار بتاتے ہیں ان سے یہ امید بجاہے کہ وہ اپنے مدرسوں کے نصاب میں اسے شامل کریں گے۔

طلبہ کے اخلاق وکردار پر تصوف کا اثر

    تصوف کی تعلیم اور تربیت انسانی شخصیت میں بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔ طلباء پر اسکے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیںاور بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اخلاقی خوبیوں اور اچھی صفات سے مالا مال ہو سکتے ہیں۔ جو روحانی صفات اہلِ مدارس وخانقاہ کی شناخت رہی ہیں، افسوس کہ آج انھیں کا فقدان ہوتا جا رہا ہے اور ایک حد تک اس کمی کو تصوف کی تعلیم اور روحانی تربیت سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام طلباء کوصوفی بنا دیا جائے،میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ،اگر تصوف کی تعلیم نے طلباء کے اندر کچھ اخلاقی خوبیاں پیدا کر دیں تو اس سے وہ پوری زندگی ایک اچھے او رذمے دار انسان کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ وہ قتل وغارت گری، تشدد، رشوت ستانی ، بدعنوانی،جھوٹ، غیبت، حسداور دوسری غیراخلاقی باتوں سے بچ سکتے ہیں۔ تصوف کو مدرسوں کے ساتھ ساتھ اسکولوں کے نصاب میںبھی شامل کرنا چاہئے۔ اس سے طلباء کے اندراچھی صفات پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔تصوف ہمیں اپنی تاریخ اور تہذیب سے جوڑتا ہے اس سے دور ہوکر ہم بہت کچھ کھوتے جارہے ہیں،جس کا احساس ہمیں شایددیر سے ہو۔

(یو این این)

***********************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 608