donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gholam Ghaus
Title :
   Dahshat Gard Khud Bante Hain Ya Banaye Jate Hain


دہشت گرد  خود  بنتے  ہیں  یا  بنائے  جا تے  ہیں ؟


 از  : غلام غوث  ،  کورمنگلا  ،  بنگلور  ۔ فون  :  9980827221  

 
                  جب کبھی ہم یوروپ اور امریکہ کے میڈیا میں دہشت گردی کے واقعات پڑھتے یا دیکھتے ہیں تو وہاں اکثر و بیشتر مسلمانوں کے نام دیکھ کر ہم غصہ اور شرمندگی محسوس کر تے ہیں اور ان  دہشت گردوں  کا تذکرہ نفرت کے ساتھ کر تے ہیں  ۔  مسلمان جسے تھوڑا بھی قرآن و حدیث کا علم ہے  وہ یہ ماننے کے کئے تیار ہی نہیں ہو تا کہ کوئی سچا مسلمان دہشت گرد ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن صاف صاف دہشت گردوں کے ذریعہ معصوموں کے قتل کو اللہ اور اسکے رسولﷺ کے احکامات کے خلاف  بتا تا ہے  ۔  اکثر و بیشتر دہشت گرد  جو ٹی وی پر دکھائے جا تے ہیں ان کا حلیہ دینداروں اور علماء جیسا ہو تا ہے اور وہ یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ انہوں کے اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لئے ایسے قدم اٹھا ئے ہیں  ۔  اب آئیے ہم دیکھیں کے اس میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا  ۔  Trevor Aaronson نے اپنی کتاب The terror factory inside the FBIs manufactured war on terror میں پورے پورے ثبوتوں کے ساتھ لکھا ہے کہ اکثر و بیشتر دہشتگرد بنتے نہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں اور یہ کام امریکہ  ،  یوروپ اور اسرائیل کی جاسوسی ایجنسیاں کر تے ہیں  ۔  ہم دن رات ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ کس طرح ان ممالک کی جاسوسی ایجنسیاں دہشت گردوں کو عین بم اڑاتے وقت  یا اپنے پلان کو عملی جامہ پہناتے وقت پکڑ لیتے ہیں اور اور ان کے پلان کو نا کام بنا دیتے ہیں اور پھر ملک بھر میں واہ واہی ہو تی ہے اور ان ایجنسیوں کی تعریف ہو نے لگتی ہے  ۔  11.9.2011کے دن امریکی ٹورس کے گرنے اور قریبا تین ہزار جانوں کے ذائع ہو نے کے بعد دہشت گردی کے کے خلاف جنگ کا نعرہ لگاتے ہوے یوروپی ممالک نے ایک عجیب سی جنگ چھیڑ دی ہے جس کے پہلے شکار افغانستان اور عراق بنے  ۔  1980تک مسلم دنیا میں امن اور خاموشی تھی اور صرف اسرائیل  کے خلاف جد و جہد میں مشغول تھی  ۔  مغربی ممالک نے ویٹنام میں اپنی شرمناک شکست کا بدلہ لینے کے لئے اور مذاق اڑاتے ہوے روس کو بھی ایسی ہی شرمناک شکست سے دوچار  ر کرانے کے لئے 1980میں روس کو افغانستان پر قبضہ کر نے کے لئے اکسایااور جب روس نے اپنی فوجوں کو افغانستان میں داخل کر دیا تو انصاف کا ساتھ دینے  ،  دنیا میں امن قائم کرنے اور مسلمانوں کی حمایت کر نے کا بہانا بنا کر افغانوں کی مدد کر نی شروع کر دی  ۔  معصوم  مدرسوں کے بچوں کو آیات قرآنی کا غلط مطلب بتا کر اور جہاد کا نعرہ دیکر خود مسلم حکمرانوں اور نیم تعلیم یافتہ مذہبی لوگوں کو مالی مدد دیکر ان کے ذریعہ ان بچوں کو میدان جنگ میں روسی افواج کے خلاف اتارا  ۔  روس کے خلاف جنگ لڑنا اور اسے افغانستان سے نکال باہر کر نا ایک مذہبی فریضہ قرار دیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بیوقوف بنا کر میدان جنگ میں اتار دیا  ۔  خود مغربی ممالک نے ان لوگوں کو مجاہد کے لقب سے نوازا ،  انہیں ہتھیار دیے ،  روپیے پیسے دیے  ،  شہرت دی  ،  نام طالبان دیا ،  اسامہ بن لادن کی پیٹ تھپتھپائیاور روس کی مخالفت کر نے کو کار خیر اور عین دینی ضرورت قرار دیا  ۔  بے شمار جذباتی مسلمان اس سازش کے شکار ہو گئے اور اپنا سب کچھ گنوادیا  ۔  روس کی شکست اور پسپائی سے مغربی ممالک خوش ہو گئے  اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بغیر کسی کی مدد کئے چلے گئے  ۔  طالبان اور مجاہدوں کی شکل میں انہوں نے فرینکسٹن ( شیطان ) کو جنم دے دیا اور اسے آزاد چھوڑ دیا  ۔  اب یہ بھٹکے اور بہکے طالبان پورے افغانستان پر حکومت کر نے اور عوام کو اسلام کے نام پر ڈرانے دھمکانے لگے  ۔  انکی نگاہیں فلسطین میں مغربی ممالک اور امریکہ کی اسرائیل کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ستانے پر پڑی اور وہ ان ممالک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے  ۔  چونکہ انکے پاس جنگی ساز و سامان نہیں تھا اس لئے انہوں نے گوریلا جنگ شروع کر نے کی سوچی جسے مغربی ممالک نے دہشت گردی کا نام دے دیا  ۔  سچ یہ ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے لئے صرف اور صرف مغربی ممالک ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے فلسطین کا مسلہ انصاف کے ساتھ حل نہیں کیا اور بار بار  ظالم  اسرائیل کا ساتھ دیتے رہے  ۔  یہ لفظ  طالبان ،  القائدہ  وغیرہ سب کے سب انہیں  شاطر مغربی ممالک کے دیے ہوے ہیں جنمیں بیوقوف   ،  نیم تعلیم یافتہ  اور جذباتی  لوگ پھنس گئے  ۔ طا لبان  ،  القائدہ  اور داعش کے وحشیوں کو خارج اسلام قرار دیکر انہیں قید کر دینا چاہیے اور ہتھیار ضبط کر لیکر انکی سوچ بدلنے کی کوشش کر نا چاہیے  ۔  اگر فلسطین کا مسلہ حل ہو جا تا تو دنیا بھر میں دہشت گردی کا نام و نشان نہ ہو تا  ۔  ایسا لگتا ہے کہ کچھ ممالک اور لیڈر خود کو مشغول رکھنے اور اپنے ذاتی مفادات کو پروان چڑھانے کے لئے دہشت گردی کو ہوا دیتے رہتے ہیں جسمیں کچھ بیوقوف مسلمان پھنس جا تے ہیں  ۔  ٹریور  لکھتے ہیں کہ امریکہ کی یف بی آی کے پاس قریباـ 15000 انفارمرس ہیں جنہیں باقائدہ تنخواہیں دی جا تی ہیں  ۔  یہ لوگ ایسے مسلم نوجوانوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو جذباتی اور مسلم کاز کے لئے بیقرار رہتے ہیں اور جو یوروپ اور امریکہ کے خلاف منفی خیالات رکھتے ہیں  ۔  ایسے نوجوانوں سے انکے ہمدردوں کے روپ میں ملتے ہیں  ،  انہیں اپنا ہم  خیال بنا تے ہیں  ،  ان کے خیالات کی ہر طرح تائید کر تے ہیں  ،  انہیں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف اور زیادہ اکسا تے ہیں اور انہیں مالی مدد اور ہتھیار دے کر اکسا تے ہیں کہ وہ ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت ایک مقررہ دن اور مقررہ وقت پر کسی طئے شدہ جگہ پر توڑ پھوڑ اور فائرنگ کرے  ۔  پھر جب سب کچھ طئے شدہ پروگرام کے تحت چلنے لگتا ہے تو عین موقعہ پر انہیں گرفتار کر لیا جا تا ہے یا شوٹ کر دیا جا تا ہے  اور اعلان کر دیا جا تا ہے کہ ملک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے عین وقت پر دہشت گردوں کو مار گرایا اور ملک کو ایک زبردست دہشت گرد حملے سے بچا لیا گیا  ۔  مسٹر ٹریور  کا کہنا ہے کہ ہر تین میں سے ایک ایسا واقعہ انٹلیجنس ایجنسیوں کی رہنمائی اور لیڈرشپ میں ہو تے ہیں  ۔  یہ ایجنسیاں انہیں ناکارہ ہتھیار ،  روپیے ،  اور بم دیتے ہیں اور پلان بھی خود ہی بنا کر دیتے ہیں  ۔  بلیک میل کر نے کے لئے ایسے نوجوانوں کو چنا جا تا ہے جو جرائم سے وابستہ ہیں مگر پکڑے نہیں گئے ہیں  ۔  اس طرح یہ ایجنسیاں امریکی عوام اور کانگریس کو ان دہشت گردوں کے خلاف اکسا کر ہر سال قریبا تین بلین ڈالر کی مالی مدد لیتے ہیں  ۔  یہ ڈالر ہر سال لینے کے  لئے خود ہی ایسے کام کروا کر انہیں القائدہ اور دیگر تنظیموں کے نام دے دیتے ہیں اور مسلمانوں کو دہشت گردوں کے روپ میں پیش کر کے اپنی جیبیں بھر تے ہیں اور اپنے ممالک کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ انہوں نے ملک کو دہشت گردوں سے بچایا ہے  ۔  خود ہی شوشے چھوڑتے ہیں اور خود ہی اس کی مخالفت بھی  کر تے ہیں  ۔  ایسے منفی اور دہشت گرد خیالات سے متاثر ہو کر چند جذباتی معصوم مسلمان سچ مچ دہشت گرد بن جا تے ہیں اور اسلام کو بد نام کر تے ہیں  ۔  یہ ایجنٹس مذہبی مسلمانوں کے بھیس میں مسجدوں میں جا تے ہیں  ،  اسرائیلی اور امریکی مخالف تقریریں کر تے ہیں ،  نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں  ،  لڑنے کی ٹریننگ دیتے ہیں  ،  دین و ایمان کا حوالہ دیتے ہیں  ،  مسلکی نفرتوں کو بھڑکاتے ہیں ،  روپیے پیسے اور ہتھیار بھی دیتے ہیں  ۔  یف بی آئی کے اسسٹنٹ ڈئرکٹر جو دہشت گردی مخالف معاملات دیکھتے ہیں  ڈیل وا ٹسن  نے  مسٹر  ٹریور  سے کہا کہ یف بی آئی کو ایسے نوجوان چاہیے جنہوں نے کرائم تو کیا مگر ابھی پکڑے نہیں گئے تا کہ انہیں دہشت گرد بنا کر کنٹرول بھی کیا جا سکے  ۔  دہشت گردی کے ایک سو پچاس سے زیادہ کیس جو عدالتوں میں آئے انمیں زیادہ سے زیادہ ملزم چھوٹے موٹے چور ،  اچکے  ،  ڈینگیں مارنے والے اور نیم تعلییم یافتہ نوجوان ثابت ہوے جنہیں  جاسوسی ایجنسیوں نے شکار بنا یا تھا  ۔  اگر مغربی ممالک  عرب ممالک پر میزائیلوں اور ہوائی جہازوںسے حملہ کر  کے بے شمار بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کا قتل عام کر دیتے ہیں تو وہ عیسائی نہیں کر تے  اور وہ امن و امان اور انصاف کے لئے ہے  ، مگر جب عرب  اس کا انتقام لیتے ہیں تو وہ اسلام کر تا ہے اور  وہ  ظلم و زیادتی ہے اور اسلام کو بدنام کیا جا تا ہے   ،  عیسائیت کو نہیں  ۔کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے ؟ آج جو مسلکوں کو لیکر مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں وہ بھی ایسی ہی سازشوں کی دین ہے جسے ہمارے دیندار حضرات سمجھ نہیں رہے ہیں  ۔  میں ہر بار چیلنج کے ساتھ کہتا آ رہا ہوں کہ اگر کہیں بھی کوئی مسلمان اپنے مسلک کی بر تری ا ور  اپنے اکابروں کی برتری کا تذکرہ کر تے ہوے اور دوسروں کے خلاف کہتے ہوے  نظر آئے تو یقین کر لیجئے کہ وہ دشمنان اسلام کا ایجنٹ ہے یا بیوقوف ہے جو انکا شاگرد بن گیا ہے  ۔  آج جو کچھ دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے نام سے  ( طالبان ،  القائدہ اور داعش ) دینداروں کی شکل و صورت میں دہشت گردی کے کام کر رہے ہیں یہ لوگ  مسلمان نہں ہو سکتے  اور قابل قتل ضرور ہیں  مگر بہتر یہی ہے کہ ان کی سوچ بدل دی جائے جیسا کہ ڈینمارک میں کیا جا رہا ہے  ۔  خود امریکہ اور مغربی ممالک کو سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے کاموں اور سازشوں سے سوائے انکے اپنے نقصان کے کوئی فائدہ نہیں ہو گا  ۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ فلسطین کا مسلہ حل کر دے  تا کہ دنیا بھر سے دہشت گردی ختم ہو جا ئے  ۔  آج  جو کچھ افراتفری  ،  قتل و غارتگیری  ،  اور ظلم و زیادتی مسلم ممالک میں ہو رہی ہے اور جو مسلمانوں پر ظالم حکمرانوں کو مسلط کر دیا گیاہے وہ شاید اللہ کی طرف سے ایک واارننگ سگنل ہے کہ اب مسلمانوں کے جاگنے کا وقت آ چکا ہے  ۔  تاریخ اسلام گواہ ہے کہ ہمیشہ اللہ نے ایسے حالات پیدا کر کے مسلمانوں کو متحد اور طاقتور بنا کر انہیں دشمنوں سے بچایا ہے  ۔مذہبی حضرات سے گزارش ہے کہ وہ دو سو سال پہلے لکھی ہوی اپنے اکابروں کی کتابوں کے ساتھ ساتھ موجودہ زمانے کے اسلامک ریسرچ اسکالرس کی کتابیں پڑھیں اور دقیانوسی خیالات سے چھٹکارہ   پائیں ورنہ مسلمانوں کو ترقی کے بجائے تنزل کی طرف ہی لے جائیں گے  ۔ 

(یو این این)


************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 540