donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Yeh Gharhi Mahshar Ki Hai Too Arsae Mahshar Me Hai

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے


حفیظ نعمانی

 

سابرمتی آشرم جیسی تاریخی جگہ سے ملک کے صدر محترم پرنب مکھرجی کا یہ کہنا کہ ’’سڑکیں نہیں دلوں کو صاف کرنا چاہئے اس طرف اشارہ ہے کہ خواہی نہ خواہی دلوں میں میل آگیا ہے اور ان کا یہ کہنا کہ اصل گندگی ہماری سوچ اور سماج کو بانٹنے والے ہمارے ان خیالات کو چھوڑنے کی ہچکچاہٹ میں ہے۔‘‘ صدر نے کہا کہ ’’گاندھی جی کا خیال تھا کہ ہندوستان ایک جامع ملک ہے۔ جہاں آبادی کا ہر ایک حصہ برابری کا یکساں فائدہ اُٹھاتا ہے۔‘‘ اور راجیہ سبھا میں وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ’’توتو میں میں سے ترقی نہیں ہوگی۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کا خیال بھی رکھنا ہوگا۔‘‘ انتہائی خوبصورت باتیں ہیں۔

ملک بڑا ہو یا چھوٹا۔ ہندوستان ہو یا پاکستان۔ باتوں سے نہیں چلتا۔ اس وقت ہندوستان کی حکومت سے وابستہ افراد یا اس کا سیاسی بازودونوں کے کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوگیا ہے۔ ملک میں ہو وہ رہا ہے جو سابق وزیر ششی تھرور کے بقول ’’مسلمانوں سے زیادہ ملک میں گائیں محفوظ ہیں۔‘‘ (اور حالات ثابت کررہے ہیں کہ بندر تو ممبرانِ اسمبلی، پارلیمنٹ اور وزیروں سے بھی زیادہ محفوظ ہیں کہ ان کے رائفل بردار محافظ بھی انہیں دیکھ کر اپنی جان بچانے کے لئے چھپ جاتے ہیں۔) تھرور نے لوک سبھا میں بولتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں بے حد شرمندگی ہوتی ہے جب بیرون ملک کے اخباروں میں ہندوستان میں عدم رواداری کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں عدم رواداری کا جو سلسلہ چل پڑا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔‘‘ اور عدم رواداری کی خبروں اور تبصروں کو حکومت کی طرف سے بے بنیاد قرار دینا ہمارے نزدیک اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ایک طبقہ اونچی آواز میں کہتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے ہی مودی کے وزیر اعظم بننے کی مخالفت کا اعلان کرچکے تھے اور دوسرا انہیں کانگریس کا ایجنٹ کہہ دیتا ہے۔
لوک سبھا میں راہل گاندھی نے بھی کہا ہے کہ ’’میں سرکاری سطح پر فعل اور قول میں فرق دیکھ رہا ہوں۔ شاید ہمارے وزیر اعظم اسے نہیں دیکھ پارہے ہیں۔ آج ملک میں آواز اٹھانے اور احتجاج کرنے کا نام بغاوت ہوگیا ہے۔‘‘ راہل گاندھی کی بات کو مخالف لیڈر کی بات کہہ کر اسے جتنا بھی وزن دیں یہ وزیر اعظم جانیں۔ لیکن کیا بی جے پی کے تمام ترجمانوں کا یہ رویہ صحیح ہے کہ دادری کے واقعہ کے بارے میں یوپی حکومت سے بات کی جائے۔ کلبرگی جی کے بارے میں کرناٹک حکومت جانے۔ عمران نام کے ڈرائیور کو بیل اور گائے لے جانے کے جرم میں مار دیئے جانے کی بات کانگریسی حکومت ہماچل سے بات کریں اور ایک عظیم دانشور جو وزیر اعظم کی سیاسی تقریریں لکھتے رہے ہوں انہیں صرف اس جرم میں کہ وہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ قصوری صاحب کی کتاب کی رسم رونمائی میں کیوں شریک ہونے جارہے ہیں؟ ان کا منھ کالک سے پوت دینے کے بارے میں شیوسینا سے بات کریں؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک میں جو ہورہا ہے وہ ایسے ہی ہوتا رہے گا جب تک کہ ملک کی ہر ریاست میں بی جے پی کی حکومت نہیں بنے گی؟

ایک انگریزی رسالہ آئوٹ لک نے وزیر داخلہ پر جھوٹا الزام لگایا۔ اسے جب سلیم صاحب نے لوک سبھا میں سنا دیا تو راج ناتھ صاحب کانپنے لگے۔ لیکن انہوں نے ہی اسی ایوان میں ان تیوروں سے بھی زیادہ بگڑے ہوئے تیوروں میںسیکولرازم کے بارے میں جو کہا تھا اس کا حاصل یہ تھا کہ ساری خرابیوں کی جڑ سیکولرازم ہے اور اسے 42  ویں ترمیم کے ذریعہ ٹھونسا گیا ہے ورنہ امبیڈکر بابا اسے شامل نہ کرتے۔ اور صاف صاف نظر آرہا تھا کہ اب وہ اسے دستور سے نکلوانے کی جنگ چھیڑنے ہی والے ہیں۔ اور یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ ایک مارے اور دوسرا سہلائے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے وزیر اعظم نے دستور میں کسی تبدیلی کے بارے میں سوچنے کو بھی گناہ قرار دیا۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ خودکشی جیسا پاپ ہے۔

وہ بات جو کوئی کہنے کی ہمت نہیں کررہا یہ ہے کہ ملک میں سب سے بڑی فیکٹری ناگ پور میں ہے جو لاکھوں نوجوانوں کے دماغوں میں مسلمانوں سے نفرت کرنے کے زہریلی انجکشن ہر دن لگا رہی ہے۔ ایک واقعہ آج بیان کردینا شاید اب ضروری ہو کہ میرے ایک انتہائی پیارے دوست پریم شنکر اگروال تھے۔ ہم دونوں ہی سنبھل کے رہنے والے ہیں۔ برسوں پرانی بات ہے کہ وہ اپنے بھتیجے مہندر کمار اگروال کو لے کر آئے اور بتایا کہ ہم لوگ صبح آتے ہی یونیورسٹی چلے گئے تھے۔ یہ مہندر کل تک میرا بھتیجا تھا اور اس کی تعلیم کی ذمہ داری میرے اوپر تھی اب یہ تمہارا بھتیجا ہے اور ذمہ دار تم ہو۔ پریم نے یہی بات مہندر سے کہی کہ ہر اتوار اور ہر چھٹی کی شام کو تم ان کے پاس آئو گے اور ہر ضرورت انہیں بتائو گے۔ مہندر پہلے سے ہم دونوں کی دوستی سے واقف تھا۔

پریم سنبھل چلے گئے اور مہندر پوری پابندی سے آنے لگا پھر اسے پریس میں دلچسپی ہونے لگی تو زیادہ آنے لگا۔ (یہ خاندان سنبھل کے آڑھتیوں میں شاید سب سے زیادہ دولتمند تھا) لکھنؤ میں پیسے کی تو اسے کمی کا سوال ہی نہیں تھا دوسرے مسائل میں وہ برابر مشورے لیتا رہا۔ دوسرا سال چل رہا تھا کہ ایک دن آیا اور کہا کہ چچا میں یونین کے سکریٹری کا الیکشن لڑنا چاہتا ہوں۔ آپ اجازت دے دیں۔ میں نے دو چار سوال کئے اور کہا کہ لڑلو۔ اور دیکھو پریس تمہارا ہے جو چاہو چھپوانا لیکن یہ برداشت نہیں کروں گا کہ تم ہار جائو۔ اس لئے کہ میں آج تک کسی مقابلہ میں نہیں ہارا ہوں۔ مہندر خوش خوش چلا گیا۔ پھر اشتہار چھپوانے اور دوسرے کاموں سے آتا رہا اور یقین دلاتا رہا کہ آپ کے نام کو بٹہ نہیں لگائوں گا۔

الیکشن سے تین دن پہلے آیا تو میں نے معلوم کیا کہ اب کیا پوزیشن ہے؟ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن اگر ملک بھائی ووٹ دے دیں تو پھر ہارنے کا سوال ہی نہیں۔ ہم دونوں برابر چل کر امین آباد کی طرف جارہے تھے۔ میں نے کہا کہ تم بس اتنا معلوم کرلو کہ ملک لکھنؤ کے ہیں یا باہر کے اگر لکھنؤ کے ہوئے تو پھر کوئی بھی ہوں وہ مجھے ضرور جانتے ہوں گے اور میری بات ٹال نہیں سکتے۔ مہندر نے کہا کہ ملک نہیں ملچھ بھائی۔ وہ رَو میں کہہ تو گیا۔ اور پھر وہ وہیں رُک گیا۔ میں نے جو مڑکر دیکھا تو وہ اپنی زبان دانتوں میں دبائے کھڑا تھا اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ میرے اوپر کیا گذری ہوگی؟ لیکن میں نے اسے اپنے سینے سے لگالیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ برسوں سے آر ایس ایس کی شاکھا میں جاتا تھا اور یہ سلسلہ لکھنؤ میں بھی تھا۔

میں مہندر کو لے کر سندر سنگھ ہوٹل میں جابیٹھا اور اس سے بس اتنا کہا کہ بیٹے یہ بتائو کہ جن مسلمانوں کو تم ناپاک سمجھتے بھی ہو اور اپنے چچا سے بھی کہہ رہے ہو وہ تمہیں ووٹ کیسے دے دیں گے؟ لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں ان کے ووٹ دلوائوں گا۔ اس لئے کہ بہت سے لڑکے وہ ہیں جن کا کام پریس میں چھپا ہے اور میرے جاننے والوں کے لڑکے لڑکیاں بھی ہیں اور انجام یہ ہوا کہ مہندر جیت گیا اور مٹھائی کا ڈبہ لے کر آیا تو پائوں چھوئے اور یہ کہا کہ آج نہ روکئے گا۔ اور اس نے کہا کہ اب آٹھ مہینے کے بعد تو میں چلا جائوں گا۔ لیکن آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ نہ لکھنؤ میں اور نہ جانے کے بعد سنگھ کے کسی بڑے سے تعلق نہیں رکھوں گا۔ آپ نے بتا دیا کہ مسلمان کیسے ہوتے ہیں۔ مگر چچا سب آپ کے جیسے نہیں ہوتے۔ شاید یہ پچاس برس پرانی بات ہے۔ مہندر چند سال پہلے تک آتا بھی تھا اور اب سماجوادی پارٹی میں ہے۔

یہ وہ فیکٹری ہے جس کے بنائے ہوئے وزیر اعظم بھی ہیں اور پوری وزارت بھی بلکہ ہریانہ، جھارکھنڈ، مہاراشٹر اور ان کی ریاستوں کے تمام وزیر۔ یہ سب مہندر کمار اگروال کی طرح نہیں ہیں بلکہ آج بھی اگر غلط ہو تو معافی مانگ سکتا ہوں کہ یہ سب اتنے دھرم کے پابند نہیں ہیں جتنے آر ایس ایس کے ہیں اور کسی کی مجال نہیں ہے کہ وہ موہن بھاگوت صاحب کے حکم کو ٹال سکے اور عدم رواداری کو روکنا یا اسے بڑھانا نہ مودی صاحب کے ہاتھ میں ہے نہ راج ناتھ سنگھ کے ہاتھ میں۔ اور وہ جو مندر کے پجاری سے کہنے آئے تھے کہ اخلاق کے گھر گائے کا گوشت رکھا ہے وہ بھی ان کے ہی پالے ہوئے ہیں جن میں سے ہر کسی نے ایک سینا بنا رکھی ہے جس پر کسی بھی صوبہ کی پولیس ہو، ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔

(یو این این)

*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 518