donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imran Akif Khan
Title :
   Model Town Ki Sair


ماڈل ٹائون کی سیر

عمران عاکف خان

imranakifkhan@gmail.com

(85،ڈیگ گیٹ،گلپاڑہ،بھرت پور(راجستھان


 ایک دن کلاس میں انسانیت اور احساس کا ذکر چل پڑا۔خود بخود دو گروپ بھی تشکیل پاگئے۔ایک موجودہ وقت میں غریب انسانوں کی تباہی اوران کے تئیں عدم احساس کا ذمے دار امیر طبقے کو بتا رہا تھا تو دوسرا ان کا انکار کر تے ہو ئے غریبوں کو ہی ان کی تباہی کا ذمے دار ٹھیرا رہا تھا۔ 
موافق گروپ کے احباب نے موجودہ وقت میں انسانیت کی تباہی پردیر تک لیکچر دیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ’ امیرو ںنے کمزور اور غریبوں انسانوں پر زندگی کا قافیہ تنگ کر رکھا ہے ،انھوں نے قدرتی اور اپنی محنت سے کمائی دولت کو اپنی بڑی بڑی تجوریوں یا بنکوں کے لاکرو ںمیں بند کر رکھا ہے۔ان کا یہ اقدام انسانیت کے سراسر مخالف اور خدائی نظام کی توہین ہے۔اگر وہ لوگ دولت کی مناسب تقسیم کر یں اور اس میں نے قرآن  پاک کی تعلیمات کے مطابق ’سائل و محروم اور ضرورت مند ‘کا حق نکالیں تو دنیا سے غربت کا خاتمہ ہو جائے۔‘


مخالف گروپ نے مذکورہ بالا باتوں کا انکار کر تے ہوئے اپنا موقف اس طرح رکھا :’ جب ایک بزنس مین خون پیسنے کی محنت و مشقت سے پیسے کماتا ہے۔رسک لے کر اپنا مال محض بھروسے اور امید پر ایکسپورٹ امپورٹ کر تا ہے۔اس وقت غریب کہاں ہوتے ہیں ،مال دار اور امیر جب جان جوکھم میں ڈال کر ،رات کو رات اور دن کو دن نہ کہہ کر مسلسل محنت کر تا تو اس وقت غریب کہاں ہوتے ہیں ؟اور جب دولت مند مشقتوں کے بعد چند ساعت راحت کی ساعات بسر کرتا ہے تو غریب اس کی خون پیسنے کی اور رسک و امید کی دولت میں اپنا حصہ مانگنے آجاتے ہیں ،یہ کیسا نظام ہے اور یہ کیسا ضابطہ ؟اور پھر جب آپ کہتے ہیں کہ امیرو ںنے غریبوں کی زندگی تباکی ہے اور ان کے احساس کا خون کیا ہے تو ہم اس کی اعتراض کے جواب میں ’ماڈ ل ٹائون‘کی مثال پیش کرتے ہیں ،اگر آپ چشم بینا رکھتے ہیں تو وہاں جائیے اور دیکھئے وہاں کے امرا نے کس طرح غریبوں کی فلاح کے کام کیے ہیں۔ وہ غریبوں کی جنت اور امیروں کی فردوس ہے ۔‘مخالف گروپ موافق گروپ کو دعوت عمل دے کر خاموش ہو گیا۔


 جیسے ہی ’ماڈل ٹائو ن‘ چوراہے پر ریڈ لائٹ کا اشارہ ہوا ،بر ق رفتار گاڑیوں کے ٹائر چرچراکر رک گئے ۔ابھی چند ہی سیکنڈ ہوئے ہوں گے کہ ایک طر ف سے چند میلے کچیلے اور پھٹنے پرانے کپڑوں میں ملبوس بچے ڈھولک بجاتے اوربے سرے گانے گاتے ہوئے آکر چمچماتی گاڑیوں کے سامنے تھرکنے اور کرتب دکھا نے لگے۔ہاتھ سے بھیک کے لیے اشارے بھی کر رہے تھے اور عجیب طرح کے نئے نئے انداز دکھا رہے تھے۔مگرگاڑیوں میں براجمان امیر چہروں پر تیوریاںڈالے ،آنکھوں نفرت کے ڈونگرے لگاکر کبر ونخوت کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ انسان نہ ہوں بلکہ آسمانوں سے اتری ہوئی مخلوق ہوں ۔ہاں انسانوں کے خول ان پر چڑھے ہوئے تھے ۔


’ماڈل ٹائون‘ کی مثال دینے والے مخالف گر وپ نے یہ تصوردیا تھاکہ وہاںتعلیم یافتہ،انسانیت کے ہمدرد ،غمخوار، درد مند،بڑے بڑے صنعت کار ، بزنس مین اورپیشہ ور لو گ آباد ہیںجومجبور ،بے بس اور غریب انسانوں کی مدد کر تے ہیں ۔مگر یہ نظارہ کچھ اور ہی کہانی سنارہا تھا۔تھوڑی دیر بعد گرین لائٹ ہوئی اور گاڑیاں پھرہوا سے باتیں کرنے لگیں ۔بھیک مانگنے والوں کے کشکول اور ہاتھ ا بھی بھی خالی تھااور آنکھیں حسرت و یاس سے دور نزدیک سے گذرنے والی گاڑیوں کو تک رہی تھیں۔ 


’ماڈل ٹائون‘ کی شاہراہ سے گذرکر جب بلاکس،کالونیوں اور ونگس کی طرف توجہ کی گئی تو اولین نگاہ ان کی بلندیوںپر پڑی جنھیں دیکھ کر ایسا محسوس ہواجیسے وہ آسمانوں سے باتیں کر رہی ہوں ۔ بیرونی چمک دمک اور نقش و نگار ان کی اندرونی حالت بتا رہے تھے اور اندر کاروشن روشن سماں باہر جھلک دکھا رہا تھا ۔ان گھروں میں کیا نہیںتھا۔دنیا کی اعلا سے اعلا نعمت ان میں موجود تھی جن کی بدولت ان کے مکینوں کی زندگی قابل رشک اور قابل دیدبنی ہو ئی تھی۔ بقول شخصے ان کے گھر دنیا میں نہیں دنیا ان کے گھروں میں تھی۔مگرجب نگاہیں پست ہوئیں تو ان کے دامن میں آباد محنت کش اور مزدوری پیشہ لوگوں کی زندگی اوران کے ٹوٹے پھوٹے گھرنیزادھڑی چھانوں کو دیکھ کر ذہن و دماغ کو شدید جھٹکے لگے۔ آن واحد میں ماڈل ٹائون کے مکینوںکی عظمت و بلندی کے محلات آنکھوں میں گڑ گئے۔سامنے جو منظر تھا عجیب ،ناقابل یقین اور ناقابل تصور ۔دومتضادتصویر یں آنکھوں کے سامنے تھیں۔ ان دونوں طرح کے طرز معاشرت کو دیکھ کر ایسالگا جیسے آسمان اور زمین ہو ں، کہا ں آسمان، بلند بلند اور کہاں زمین، پست پست۔


’ماڈل ٹائون کی سیر‘سے اس خیال کو تقویت ملی کہ ’ماڈل ٹائون ‘کے طرز پر امیرلوگوں نے مال ودولت کو اپنے گھر وںکی لونڈی بنا کر رکھا ہے اور وہ نظام کائنات کے مالک کی اس ہدایت کی سرعام دھجیاں اڑارہے ہیں۔ جس میں اس نے کہاکہ ’تمھیں جو دولت ملی ہے اس میں سائل اور محروم کا حق ہے۔‘ یہ لوگ محلو ںکی نگری میں رہتے ہیں انھیں غریبوں کی مصیبتوں کاکوئی خیال نہیں اورنہ کوئی پرواہ ہے۔انھوں نے غریبوں کے احساس کا خون بھی کیا ہے اور ان کی حمایت کر نے والوں کے گلے بھی ریتے ہیں ۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی خداترس ان سے غریبوں پررحم کر نے متعلق کچھ کہتا ہے تو وہ اسے اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ کسی اور دنیا سے آیاہو۔دراصل امیرو ںکاوہ امیرانہ غرور ہوتا ہے جو ان کی گر دن جھکنے اور ان کی آنکھوں کو نم نہیں ہونے دیتا ۔اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ضابطہ قدرت کی خلاف ورزی کے باعث زمین میں بگاڑ اور ناانصافیوں کو فروغ ملتاہے ۔اس کا وہ عملی مظاہرہ تو کرتے ہی ہیں قولاً بھی ظلم ایجاد کرتے رہتے ہیں ۔ایک شخص انتہائی لاغر،پھٹے حال اور لرزیدہ بدن ایک متمول سے نادانستہ مس ہو گیا ۔بس پھر کیا تھا گالیوں ،مکوں ،لات ،گھونسوں اور طمانچوں سے اس معصوم کا ناقابل بیا ن حشر کر دیا گیا۔پورا بدن زخمی تھا اور آنکھیں خوف و دہشت سے پھٹی کی پھٹی تھیں ۔جب ایک صاحب نے بیچ بچائو کر نے کی کوشش کی تو اسے بھی نہیں بخشا گیا ۔دراصل امیروں کے سر میںیہ سود سمایا ہوا ہے کہ ان کی برتری ،بڑائی ،خودی اور عظمت تسلیم کر نا کم رتبہ اور غریب لوگوں کا پیدائشی حق ہے ۔ جسے انھیں کبھی اور کسی بھی حال میں نہیں بھولنا چاہیے اور اگر وہ بھول چوک کر تے ہیں انھیںاسی طرح بھول کی سزا دی جائے گی۔


مذکورہ بالا مناظر اس’ ماڈل ٹائون‘ میںدیکھنے کو ملے جسے غریب پروری اور انسانیت کے تحفظ کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔جسے غریبوں کی جنت کہا گیا تھا اور امیرو ںکی فردوس ۔ماڈل ٹائون تو جہنم ہے جہنم اور غریبوں کا مقتل ۔ماڈل ٹائون کے باشندگان کے متعلق ایسا نہیں سوچا جاسکتا کہ وہ بلندیو ںپر رہ کر بھی گر ے ہو ئے ہیں اور غیر شائستہ لوگوں میں ان کا بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ ماڈل ٹائون غیر مہذب لوگوں کی بستی ہے جن کی ذلت و پستی میںدن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 628