donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maulana Md. Miya Qasmi
Title :
   Zakir Nayak Masla Kya Hai


 ذاکر نائک ۔ مسئلہ کیا ہے ؟ 


مولانا محمد میاں قاسمی 

 

    ڈاکٹر ذاکر نائک ایک اسلامی اسکالر ہیں جو عرصہ دراز سے اسلام کی تشریحات کے ذریعہ دعوت کے کام میں مصروف ہیں ۔ غیر مسلموں کے ایک حلقہ میں کافی مقبول ہیں ۔ انہوں نے اپنے TV کانام Peace رکھا ہے ۔ جو غالباً اسلام کے پیغام امن کو عام کرنے کے لئے رکھا گیا ہے ۔ان کے پروگراموں میں بڑی تعداد میں غیر مسلم شریک ہوتے ہیں ۔ جن کو نمایاں اہمیت دی جاتی ہے۔ وہ کوئی عالم یا کسی مذہبی فرقہ کے نمائندہ نہیں ہے ۔ قرآن و حدیث ، بائبل ، گیتا ، وید، پرانوں سے براہ ِراست استفادہ کرتے ہیںاور اپنی بات ثابت کرتے ہیں ۔ انہیں عام طور پر اہلِ حدیث یا غیر مقلد سمجھا جاتا ہے ۔ کئی مرتبہ جوشِ بیان میں وہ امت کے اجماع سے ہٹ کر اپنا موقف پیش کر دیتے ہیں ۔ مثلاً یزید کے معاملہ پر انہوں نے اجماع امت سے ہٹ کر اپنا موقف رکھا تو مقلدین میں ان کے خلاف اشتعال ہوا ۔ حالانکہ ملک اور دوسرے ملکوںمیں کئی لوگ ہیں جو اس معاملہ میں ان جیسا یا ان سے زیادہ متنازعہ موقف رکھتے ہیں ۔ مگر ان کے خلاف مسلمانوں میں وہ غصہ نہیں پایا جاتا ۔ ہمارے سنبھل کے ہی مولانا عتیق الرحمن نے اپنی کتاب میں اجماع امت کے خلاف موقف پیش کیا ۔ مگر اس کو نظر انداز کر دیا گیا ۔ محمود عباس نے یزید کی حمایت میں تحریک چلائی مگر اس کو دہشت گرد ثابت نہیں کیا گیا ۔ ایسے ہی اور بے شمار مسائل میں جن میں کئی لوگوں نے اجماع سے اختلاف کیا ہے اور انہیں اختلاف رائے کا موقع دیا گیا ۔ 

    اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسئلہ ان سے اختلاف ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ہے ۔ کیونکہ امت میں بے شمار فرقے ہیں اور ہر فرقہ میں اختلاف موجود ہے مگر میڈیا میں ان کے خلاف ایسی تحریک یا ان پر دہشت گردی کا الزام نہیں لگا ۔ گویا بات یہ نہیں ہے کہ انہوں نے کیا کہا ہے اور کس نے ان کے خلاف فتوی دیا ہے ۔ یا ان کے موقف کی تردید کی ہے۔ بلکہ بات کچھ اور ہے ، اور اس وقت ان کے مخالفین نے جو ان سے مذہبی اختلاف رکھتے ہیں موقع غنیمت جان کر سنگھی میڈیا کے ساتھ آواز میں آوازملانی شروع کر دی ہے ۔ 

    اس وقت جو معاملہ ہے وہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش کے مشتبہ دہشت گردوں نے ان کو لائک کیا ہے یا ان کے موبائل میںان کی تقریر ملی ہے ۔ جس سے یہ سمجھا جارہا ہے کہ ان کا تعلق دہشت گردوں سے ہو سکتا ہے ۔ اس پر ہندوستان کی الیکٹرونک میڈیا کو ایک مدعا ہاتھ آگیا ہے ۔ اور انہوں نے ذاکر نائک کو دہشت گرد ثابت کرنا شروع کر دیا ہے ۔ اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی میڈیا جس پر سنگھی دماغوں کا غلبہ ہے ، ہر مسلمان کو اسی نظر سے دیکھ رہا ہے کہ اس کا تعلق دہشت گردوں سے ہو سکتا ہے چناچنہ کبھی پولس والوں کا رویہ سامنے آتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی ڈارحی پکڑ لی ، کبھی مدرسوں اور اماموں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ، کبھی برقے پر اعتراض ہوتا ہے اور کبھی مسلم رہنماؤں کے موبائل  Surveillanceپر رکھے جاتے ہیں اور اگر کسی کے خلاف کوئی موقع کچھ کہنے کو مل جائے تو اس کا بتنگڑ بنا دیا جاتا ہے ۔ اس طرح اچانک وہ شخص جو پُر امن طور پر اپنا موقف ساری دنیا کے سامنے رکھ رہا ہے (قطع اس کے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح) دنیا کا بڑا دہشت گردبنا دیا گیا ہے ۔ 

    ہمیں ذاکر نائک سے اختلا ف ہے اور بعض باتوں میں شدید اختلاف ہے ۔ دار العلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء نے ان کے خلاف کاپی پہلے اس کی وضاحت کر دی ہے ۔ اور ان کی باتوں کی تردید کی ہے کیونکہ مقلد ان کی بات کو اس وجہ سے بھی قبول نہیں کریں گے کہ وہ غیر مقلد ہیں اور ان کا طرز استدلال مقلدین سے ہٹ کر ہے ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے مسلمانوں کے وہ طبقے جو سنگھیوں سے نزدیکی پر فخر محسوس کر رہے ہیں یا نزدیکی چاہتے ہیں اس مسلکی اختلاف کو کسی کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے استعمال کرنے لگیں اور ان کی گرفتاری کے مطالبے کرنے لگیں اگر وہ کسی تعزیراتی جرم کے مرتکب ہیں تو ہم یقیناً ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں گے ۔ لیکن اگر وہ محض مذہبی اختلاف رکھتے ہیں تو کسی فرقہ کی جانب سے اس اختلاف کی بنیاد پر ان کی گرفتاری کا مطالبہ غیر اخلاقی ، غیر شرعی اور غیر قانونی ہے ۔ جو لوگ اس قسم کے مطالبات کر رہے ہیں وہ نہیں جانتے کہ جن سنھگیوں سے وہ اپنے مسلکی مخالفوں کو دہشت گرد بنا کر گرفتار کرانا چاہتے ہیں وہ سنگھی ان کے دین اور مذہب کے مخالف ہیں بلکہ اپنے علاوہ ہر کمزور اور دلت کی مخالفت ان کا دھرم ہے۔ منو وادیوں کا دھرم کمزوروں پر ظلم ڈھانے کا ہے اور وہ ہمیشہ اپنے مفاد کے لئے دوسروں میں پھوٹ ڈالتے ہیں۔ مسلمانوں میں لاکھ اختلاف ہیں مگر تمام مسلمانوں کے مشترکہ دشمن اور تمام دلتوں کے اور کمزوروں کے مشترکہ دشمن یہ منووادی ہیں ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر شخص کو آزادی رائے اور آزادی مذہب حاصل ہے اور یہی ہندوستان کی خوبی اس کو عالمی طور پر باعزت بناتی ہے ۔ اگر حق رائے اور حق اختلاف کو ختم کر دیا جائے اور ہندوستان پر جابرانہ آمریت کو مسلط کر دیا جائے تو وہ ایک سو پچیس کروڑ کی آبادی کے اس ملک کو تباہی کے غارمیں دھکیل دینے کے مترادف ہوگا  جہاں ۳۵ کروڑ مسلماناور اتنی ہی تعداد میں دوسرے مذاہب کے لوگ رہتے ہیں ۔ ۷۰۔۶۰ کروڑکی اس آبادی کو ظلم کی چکی سے نہیں کچلا جا سکتا ۔ اور نہ ظلم کی مدد سے ایک سو پچیس کروڑ کی عوام کی آواز کو بند کیا جاسکتا ہے ۔ اگر ہندوستان میں توگڑیا ، بھاگوت وغیرہ کو باوجود اس کے کہ وہ ہندؤں کو مسلح جد و جہد کے لئے بر سرِ عام اکساتے ہیں آتنک وادی نہیں مانا جاتا تو کسی مسلمان کو محض اس لئے کہ کسے شدت پسند نے اس کو ’’لائک‘ ‘کر لیا آتنک وادی کیسے بنایا جا سکتا ہے ؟کیا ہمارے مذہبی رہنماؤں کے سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے کہ کل کسی آتنک وادی کے موبائل میں ان کی تقریر مل جائے تو وہ کس طرح اپنے آپ کو  پُر امن ہندوستانی ثابت کریں گے ۔ اگر کسی کو آتنکوادی ثابت کرنے کے لئے یہ ثبوت کافی مان لیا جائے کہ کسی مشتبہ آدمی نے اسکو لائک کیا ہے تو سنگھی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے اور کسی پرگیا ٹھاکر سے کسی ساکشی مہاراج سے آتنک وادی کی تعریف پونچھ لیں گے اور ہندوستان کا ہر غیر سنگھی شہری غدار ثابت کر دیا جائے گا۔ حتی کہ راہل، پرمود کرشنم جیسے کانگریسیوں کو ، مایا وتی اور ملائم جیسے قومی لیڈروں کو محب وطن ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا ۔     

 

از۔ (مولانا) محمد میاں قاسمی 

پرنسپل، مدرسہ اسلامیہ عربیہ سراج العلوم ہلالی سرائے سنبھل 
رابطہ:۔9837371164
mohammad.miyaan@gmail.com

********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 452