donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Zaheerul Haque
Title :
   Horn Aahista Bajayen Qaum So Rahi Hai

 ہارن  آہستہ  بجائیں  ۔  قوم  سو  رہی  ہے


 محمد ظہیر الحق  ،  میسور

   فون : 9886657321


                         سب جانتے ہیں کہ ہندستان کی موجودہ آبادی  120 کڑوڑ ہے اور اسمیں مسلمان  بیس  کڑوڑ ہیں  یعنی اٹھارہ  فیصد  ۔اگر ہندستان  میں امن و امان قائم ہو نا ہے  اور ملک ترقی کرنا ہے تو ان  بیس  کڑوڑ مسلمانوں کو ایک اہم رول ادا کر نا ہے   سیاستدانوں کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ  ان بیس  کڑوڑ مسلمانوں کو نظر انداز کر کے ملک اس تیز رفتاری سے ترقی  نہیں کر سکتا  جس تیز رفتاری کو وہ قائم رکھنا چاہتے ہیں  ۔ ایسے حالات میں سوچنا یہ ہے کہ اسمیں مسلمانوں کا رول کیا ہونا چاہیے  ۔ اگر ہم ملک کو مستحکم اور پر امن رکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے خود ہمارے اندر موجود کمزوریوں کو دور کر نا چاہیے اور خود کو ملک اور انسانیت کے لئے  فائدے مند ثابت کر نا چاہیے  ۔ کمزوریوں کو دور کر نے کے لئے سب سے پہلے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارے مسائل کیا ہیں  ۔ ہمارے تین مسلے ہیں  ۔ پہلا ہے  شناخت  ، دوسرا ہے سیکوریٹی  اور تیسرا ہے  معاشی ترقی  ۔  جہان تک شناخت کا سوال ہے  ہم اس وقت تک شناخت نہیں بنا سکتے جب تک ہم اپنے آپ کو ایک مضبوط اور متحد گروپ ثابت نہیں کر تے  ۔  اتحاد دو طرح کا ہو تا ہے  ۔ ایک  مذہب  کے نام پر متحد ہو نا اور  دوسرا  تعلیم  ، سیاست اور معاشی ترقی کے نام پر  متحد ہو نا  ۔ تاریخ بتا تی ہے کہ ہم  ہچھلے ایک ہزار سالوں سے مذہب کے نام پر متحد نہ ہو سکے کیوںکہ مسلکوں کی دوری نے ہمیں ایک جسم اور ایک جان ہو نے نہیں دیا  ۔ مسلکوں کی شدت پسندی  جب تک موجود ہے ہمارا متحد ہو نا مشکل ہے  ۔ ہاں ۔ مذہبی اتحاد اسی وقت ممکن ہے جب ہم ذاتی انا  اور مسلکوں سے اوپر اٹھ کر سوچنے لگیں گے  ۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنے مسلکوں کو فکر میں تو رکھیں گے مگر ذکر میں نہیں لائیں گے  ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلکوں کی برتری کو لیکر شدت پسند ی  بڑھ گئی ہے  اور مسجدوں پر مسلکی قبضہ جمانے کے لئے مذہب ہی کا سہارالیکر ہتھکنڈے آزمانے لگے ہیں  ۔ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی بات کرنے کا بہانہ لیکر کچھ عرصہ تک دوسرے مسلکوں کی مساجد میں  جاتے ہیں مگر کچھ عرصہ بعد وہاں کے نوجوانوں کو اپننے ہم خیال بنا کر اس مسجد پر قابض ہو جا تے ہیں   ۔ اس سے مسجد تو مل جاتی ہے مگر لوگ دور ہو جا تے ہیں  ۔ یہ میں 1960  سے آج تک دیکھتے آ رہا ہوں  ۔   ۔ یہ مسلکی جھگڑے ہماری سب سے بڑی اندرونی کمزوری  بن گئے ہیں  اور حالات بلکل وہی ہیں جیسے اسپین اور عراق میں شاہ  فرڈیننڈ  اور  ہلاکو خان کے دور میں تھے   ۔ آج ہماری مسجدوں کو مسلکوں کے نام سے نہیں بلکہ اسلام کے نام سے جوڑ نا چاہیے  ۔ ہمارے اکابروں کی عزت ضرور کرنا چاہیے مگر دوسروں کے اکابروں کے متعلق غیر غلط کہنے سے بچنا چاہیے ۔  یہ  مسلکوں کے ٹھیکیدار جو ہمیں آپس میں ملنے نہیں دیتے  دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ سچے اور پکے  مسلمان ہیں  یا دشمنان اسلام کے ایجنٹ ہیں  یا نیم تعلیم یافتہ  کم عقل انسان ہیں  ۔ ایسے لوگوں سے اسلام اور مسلمانوں کو بچانا ضروری ہے  ۔ نوجوان دینی علماء  کی اکثریت ان خیالات کی حامی لگ رہی ہے اور وہ ہر مضمون پر رابطہ کر رہے ہیں  ۔ اسی میں ہمارے مذہبی  اتحاد کا راز مضمر ہے ۔  تیسری کمزوری یہ ہے کہ ہم ہندستان جیسے ملک میں  بیس  فیصد ہو نے کے باوجود ہر مسلے اور بحث میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ حل اسلام کی کتابوں میں ہے  ۔ حکمت عملی کا تقاضہ ہے کہ ہم اسلام ہی کے پیش کردہ حل کی بات کریں مگر اسلام کا نام نہ لیں کیوںکہ اسلام کا نام آتے ہی کچھ غیر مسلم جگہ خالی کر دیتے ہیں  ۔ یہ ترکیب کچھ مسلمانوں کو غلط لگے گی مگر یہ حکمت سے خالی نہیں ہے  ۔ دوسرا اتحاد جو آسان اور ممکن ہے وہ ہے تعلیم و تربیت  ، معیشت اور سیاست کا میدان ہے  ۔ یہ اتحاد تو ہمیشہ سے رہا ہے مگر پچھلے  ساٹھ سالوں سے  لیڈرشپ کے فقدان کے سبب  یہ اتحاد کمزور ہو گیا ہے  ۔ ۔ لیڈرشپ اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب دوسرے لوگ شعوری طور پر اس بات کے لئے راضی ہو جائیں کہ انکو معاون کا رول ادا کر نا ہے  ۔ یہی سب سے بڑی قربانی ہے  ۔ اس طرح اگر ہم متحد ہو کر کھڑے ہو گئے تو ہماری شناخت بن جائے گی اور ہر کوئی ہماری بات سننے اور اس پر عمل کر نے لگ جائے گا  ۔ ہمارا دوسرا مسلہ ہے سیکوریٹی  ۔ ہم آئے دن فرقہ وارانہ فسادات  ، پولیس کے مظالم  اور سرکاری افسروں کے تعصب  سے تنگ آ چکے ہیں  ۔ ان سے چھٹکارا پانے کے لئے ہمیں فرقہ وارانہ فسادات روک تھام بل  ، پولیس اور جوڈیشیل رفارمس بلس کو پاس کروا کر انہیں لاگو کروانا ہے  ۔  اس سے ہمارے  اور ملک کے  ستر  فیصد مسائل حل ہو جائیں گے  ۔ عوام میں اس کا شعور پیدا کر نے کے لئے ہمیں جمعہ کے خطبوں کو موثر بنانا ہو گا ۔  ہر مسجد کمیٹی  کو چاہیے کے وہ مسجد کے امام کو کمیٹی کی ظرف سے ایک اردو اخبار پیش کرے  تا کہ وہ اپنے آپ کو معلومات سے آراستہ کر سکے  ۔ ہمارا تیسرا مسلہ معاشی ترقی ہے  ۔ اسکے لئے ہمیں ہمارے بچوں کو  سائنس  ، ٹیکنالوجی اور ہیومیانٹیس کے میدان مین میعاری تعلیم کا بندونست کر نا ہے  ،  اسکالر شپ کا بندوبست کر کے میعاری کالیجوں میں ہونہار بچوں کو تعلیم دلانا ہے  اور انمیں مقابلاتی جذبہ پیدا کر نا ہے  ، کند ذہین نچوں کو  ITIs  میں کوئی نہ کوئی ہنر سکھا نا ہے  اور انہیں برسر روزگار بنانا ہے  ،  حکو مت کی فلاحی اسکیموں کو عام کر کے ان سے فائیدہ اٹھانے کے لئے ادارے قائم کر نا ہے  ، بنکوں سے قرض لینا آسان بنانا ہے  اور اوقافی جائیدادوں کو کمرشیل بنا کر ان سے مالی فائیدہ  حاصل کر نا ہے   ۔ خود کے تعلیمی ادارے ضرور قائم  کیجیے مگر دوسروں کے معاری تعلیمی ادارون  سے فائیدہ ضرور اٹھائیے  ۔  معصوموں کو جھوٹے کیسوں سے نجات دلوانے کے لئے  ایک فنڈ قائم کر نا ہو گا  ۔ یہ سب کر دینے سے پہلے ہمیں یہ کہنا چھوڑ دینا ہو گا  کہ ہماری ہر کمزوری کے لئے  دوسروں کی سازش ذمہ دار ہے   ۔ اگر سازش ہو بھی تو ہم اتنے بیوقوف تو نہیں ہو سکتے کہ دوسروں کی سازش کا شکار ہو جائیں  ۔ دوسرا یہ کہ ہمارے  خطیب و امام حضرات  تک ماڈرن  انگریزی دان علمائے دین  اور مذہبی ماہرین کے خیالات  اور مشورے پہنچانا ہے  تا کہ وہ جدید خیالات اور جدید تقاضوں سے آگاہ ہو سکیں  ۔ اس سے وہ عام لوگوں کی صحی ذہین سازی کر سکیں گے  ۔  ہمارا مالدار طبقہ جہاں تک ممکن ہو  رفاہی کاموں میں  حصہ لیں مگر اداروں پر قابض ہو نے سے اجتناب کرے  ۔  اس طرح ہم اندرونی طور پر مضبوط ہو نا ہے  اور ساتھ ہی ملک کی سا  لمیت  اور ترقی کی طرف توجہ دینا ہے  ۔ چوںکہ ہر ریاست کے الگ الگ مسائل ہیں اسلئے ایک طرف تو ہمیں ریاستی ادارے بنانا ہے اور دوسری طرف آل انڈیا سطح پر صرف ایک ادارے کے تحت کام کر نا ہے جیسے کہ پہلے مجلس مشاورت تھی  ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ دوبارہ مجلس مشاورت کے دو ٹکڑے پھر سے ایک ہو گئے ہیں  ۔  ملک و ملت دونوں کی خدمت کے لئے ہمیں سب سے پہلے میڈیا پر اپنا قبضہ جمانا ہے کیوںکہ اسی کے ذریعہ ہم ایک سو بیس  کڑوڑ  شہریوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں  ۔ ہر سیاسی پارٹی میں ہمارے پر خلوص نمائندے داخل کر نا ہے تا کہ وہ بغیر کرسی کی خواہش کے مسلم مسائل کو پارٹیوں میں  ، پارلیمنٹ اور اسمبلیوں  میں رکھ سکیں  ۔ ہمیں ملک کے ہر اندرونی اور بیرونی مسلے پر ڈبیٹ کر کے ہمارے مشورے حکام تک پہنچانا چاہیے اور ایسے بیانوں سے پرہیز کر نا چاہیے جس سے غیر مسلم بھائیوں کو تکلیف پہنچتی ہو  ۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم میں کسی بھی مسلہ کو لیکر ڈبیٹ کر نے کی صلاحیت اور خواہش نہیں ہے  ۔ ہم ر فروئی مسائل کو لیکر زوردار جذباتی تقاریر تو کر سکتے ہیں مگر سنجیدگی کے ساتھ کسی بھی مسلے پر ڈبیٹ کر نے سے گریز کر تے ہیں  ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس عادت کو بدل دیں  ۔ سوچنا یہ بھی ہے کہ کیا ہم عام آدمی پارٹی کے کجریوال اور انکے ساتھیوں کی طرح مذہب ،  مسلک اور ذات پات کو بنیاد بنائے بغیر ہر ایک کو قریب لانے والی مسلم قیادت کو ابھار سکتے ہیں  ۔ ان تمام کاموں کو کرنے کے لئے ہمیں ہر ریاست میں الگ الگ ادارے قائم کر نا چاہیے اور انکی مالی سرپرستی کے لئے  چند مالداروں کو ذمہ اری دینا ہو گا  ۔۔ مخلص حضرات نے جب بھی ایسے معاملات اٹھائے ہیں ہمارے مالدار حضرات نے دل کھول کر انکا ساتھ دیاہے  ۔  سیاست ایک ایسا میدان ہے جس میں ہمارا وزن بنانا ضروری ہے  ۔ اس کے لئے آج ہمارے سامنے کانگریس اور دوسری علاقائی سیکولر مگر خاندانی پارٹیوں کے ساتھ  ایک تیسرا متبادل  عام آدمی پارٹی ہے  ۔ یہ پارٹی صرف ایک سیاسی پارٹی ہی نہیں بلکہ ایک تحریک   Idealogy ہے  ۔ یہ وہ پارٹی ہے جو  مذہب  ، ذات پات  ، زبان  اور علاقے سے اوپر  اٹھکر صرف اور صرف معاشی ترقی  ، ایمانداری  ، امن  ، کھلا پن اور جوابدہی کے سلسلہ میں کام کر نے کا منصوبہ رکھتی ہے  ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مسلم لیڈر بھی اس طرح سوچ کر آگے آ سکتے ہیں  ۔  اگر نہیں آ سکتے تو ہم میں سے کسی نہ کسی کو ایسے کسی لیڈر کو آگے لا کر تمام کام کر نا ہو گا  ( کرناٹک میں وہ چاہے  مسٹر روشن بیگ ہوں یا کوئی اور  )  ۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم بھی ملک و ملت کی خدمت کامیابی کے ساتھ کر سکتے ہیں  ۔  اللہ کے فضل سے یہ کام کرناٹک میں کچھ دانشوروں نے شروع کر دیا ہے  ۔

(یو این این)

**************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 523