donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> Women Page
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Rafat Khan
Title :
   Khwateen Ke Khilaf Jurayem-Asbab Aur Tadaruk

 

خواتین کے خلاف جرائم ۔اسباب اور تدارک
 
ڈاکٹر رفعت
 
ہمارے ملک میں اِس وقت ایک اہم بحث جاری ہے۔ اِس بحث کا موضوع وہ جرائم ہیں جن کا نشانہ خواتین بنتی ہیں۔ منفی رُخ سے دیکھاجائے تو بحث کابنیادی سوال یہ ہے کہ خواتین کی حفاظت کس طرح ہو لیکن وسیع اور مثبت تناظر میں غور کیا جائے تو سوال یہ ہوگا کہ ایک پاکیزہ معاشرہ کس طرح وجودمیں لایا جائے۔ اِسلام اِس موضوع کو وسیع تناظر میں دیکھتا ہے۔ اسلام کے مطابق پاکیزہ معاشرے کی جانب پیش قدمی کے لیے تین سطحوں پر کوشش درکار ہے۔
 الف افکار، اقدار اور تصورِ کائنات 
ب معاشرتی آداب اور 
ج قانون۔ 
ان میں سے کسی پہلو کو بھی نظر انداز کردیا جائے تواندیشہ ہے کہ پاکیزہ معاشرے کی جانب پیش رفت جاری نہ رہ سکے گی۔ ظاہر ہے کہ اِن تینوں پہلوؤں میں بنیادی مقام تصورِکائنات اور افکار واقدار کوحاصل ہے۔ اگر تصور کائنات حقیقت پر مبنی نہ ہو یا ذہنوں میں راسخ نہ ہو تو معاشرتی آداب کااحترام ختم ہونے لگتا ہے۔ اور ان آداب کی حیثیت محضرسم کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اِسی طرح وہی قانونی نظام کامیاب ہوسکتا ہے جس کو پائیدار بنیادوں پر استوار کیاگیا ہو۔ اگر قانون درست تصورِ کائنات پر مبنی ہو تو دِل اُس کااحترام کرنے پر مجبور ہوں گے اور سماج میں اس کے نفاذ میں کوئی بڑی دُشواری پیش نہ آئے گی۔ اس کے برعکس اگر قانون کا رِشتہ تصورِکائنات سے کٹ جائے تو اُس کا احترام دِلوں میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ اُس کانافذ کرنا آسان نہ ہوگا۔
 
تصورِ الٰہ
اِسلام کائنات کا جو تصور پیش کرتا ہے، اُس کے مطابق کائنات اللہ وحدہ لاشریک کی تخلیق کردہ ہے۔ اور وہی اِس کائنات کا مدبّراور حاکم ہے۔ اس کےخلق اور حکمرانی میں کوئی اُس کا شریک نہیں ہے:
 
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ
یَعْدِلُونَOہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن طِیْنٍ ثُمَّ قَضَیٰٓ أَجَلاً وَأَجَلٌ مُّسمًّی عِندَہ، ثُمَّ أَنتُمْ
تَکْسِبُونَOتَمْتَرُوْنَOوَہُوَ اللّٰہُ فِیْ السَّمٰوَاتِ وَفِیْ الأَرْضِ یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَجَہْرَکُمْ وَیَعْلَمُ مَا
(انعام: ۱-۳)
 
’’سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، تاریکیوں اور روشنی کو بنایا۔ اِس کے باوجودکافر اپنے رَب کے ساتھ دوسروں کو برابر کیے دیتے ہیں۔ وہی ہے جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا پھر تمھارے لیےایک مدت مقررکردی اور ایک مدت اور بھی ہے جو اللہ کے علم میں ہے۔ پھر بھی تم شک کرتے ہو۔ اور وہی ہےاللہ آسمانوں میں اور زمین میں۔ تمھارے کھُلے اور چھپے سب احوال سے باخبر ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘
 مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اِن آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تمام آسمانوں اور زمین میں تنہا وہی معبود، مالک، بادشاہ، متصرف اور مدبر ہے اور یہ نامِ مبارک ﴿اللہ بھی صرف اُسی کی ذات متعالی الصفات کے لیے مخصوص رہا ہے پھر اوروں کے لیے استحقاقِ معبودیت کہاں سے آیا ؟ تمام زمین وآسمان میں اُسی کی حکومت ہے اور وہ بلاواسطہ ہر کھلی، چھپی چیز اور انسان کے ظاہر وباطن اور چھوٹے بڑے ہر عمل پرمطلع ہے۔ تو عابد کواپنی عبادت و استعانت میں کسی غیر اللہ کو شریک ٹھہرانے کی ضرورت نہیں رہتی ۔‘‘اِس تصور کا عین تقاضا ہے کہ اِنسان محض اللہ کی عبادت کرے اور کسی کو اُس کے ساتھ شریک نہ کرے۔
 
(وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہِ شَیْئًا۔﴿النّساء : ۶۳
 ’’اللہ کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔‘‘
 تنہا اللہ کی عبادت سے انسان کی شخصیت میں بلندی پیدا ہوتی ہے جو اُس کو برائیوں سے بچاتی اور اخلاقی خوبیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ اِس کے برخلاف شرک اِنسان کو پستی کی طرف لے جاتا ہے۔
 
حُنَفَاءَ لِلَّـهِ غَيْرَ‌ مُشْرِ‌كِينَ بِهِ وَمَن يُشْرِ‌كْ بِاللَّـهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ‌ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ‌
(اَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّ‌يحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ ﴿الحج:۳۱
 ’’ایک اللہ کے ہو کر رہو۔ اور مشرک نہ بنو۔ اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ گویا آسمان سے گر پڑا۔ پھر اُس کوپرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کودُور کے کسی مکان میں پھینک دے گی۔‘‘
 
مولاناشبیر احمد عثمانیؒ اِس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
 ’’توحید نہایت اعلیٰ اور بلند مقام ہے۔ اس کو چھوڑکر جب آدمی کسی مخلوق کے سامنے جھکتا ہے تو خود اپنے کو ذلیل کرتاہے اور آسمان توحید کی بلندی سے پستی کی طرف گرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اِس قدر اونچائی سے گر کر زندہ بچ نہیں سکتا۔اَب یا تو اہوائ وافکار ردّیہ کے مردار خور جانور چاروں طرف سے اُس کی بوٹیاں نوچ کھائیں گے یا شیطانِ لعین ایک تیز ہوا کے جھکڑ کی طرح اُس کو اڑا لے جائے گا اور ایسے گہرے کھڈ میں پھینکے گا جہاں کوئی ہڈی پسلی نظر نہ آئے ۔‘‘اسلام نے اللہ کا جو تصور پیش کیا ہے، اُس کا اہم پہلو اُس کے اسمائے حُسنیٰ ہیں۔ اِن ناموں کا استحضار انسان کے سامنے ایک اعلیٰ ترین معیار پیش کرتاہے،جو بہترین صفات کا جامع ہے۔
 
هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّ‌حْمَـٰنُ الرَّ‌حِيمُ+ هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ‌ الْمُتَكَبِّرُ‌ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يُشْرِ‌كُونَ+ هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِ‌ئُ الْمُصَوِّرُ‌ ۖ لَهُ الْاسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ+ ﴿الحشر:۲۲- 
 
’’وہ اللہ ہے اُس سوا کوئی معبود نہیں پوشیدہ اور ظاہر کاجاننے والا ، وہ رحمان ورحیم ہے۔ بادشاہ ہے۔ سب عیبوں سےپاک، سالم، امان دینے والا، پناہ میں لینے والا ہے، زبردست، جبّار اور صاحبِ عظمت ہے۔ پاک ہے اللہ اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ وہ اللہ ہے بنانے والا نکال کھڑا کرنے والا۔ صورت گری کرنے والا، اُس کے لیے سارےاچھے نام ہیں۔ اُس کی تسبیح کرتی ہے ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ وہ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘
 اللہ کی صفات انسان کے سامنے لانے کے بعد ، اسلام انسان کو ترغیب دیتا ہے کہ ﴿اِنسانی حد تک﴾ وہ اِن صفات سے اپنے کو متصف کرنے کی کوشش کرے:
 
  صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً وَنَحْنُ لَہ، عَابِدُوْنَ O 
    (البقرہ:۸۳۱)
 ’’﴿کہو﴾ اللہ کا رنگ اختیار کرو، اُس کے رنگ سے اچھا کس کا رنگ ہوگا اور ہم اُسی کی بندگی کرنے والے ہیں۔‘‘
 
تاریخ کے مختلف ادوار میں مشرکین نے بہت سے خیالی معبود ایجاد کیے اور قوت متخیلہ سے کام لے کر ان خیالی معبودوں کی سیرت (Mythology)مرتب کی۔ بالعموم اِن قصّے کہانیوں میں مشرکین کے معبودوں کی بہت گھٹیا سیرت پیش کی گئی ہے۔ چنانچہ ان کے عبادت گزاروں میں گھٹیا صفات کی طرف رجحان ایک فطری امر ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مذہبی جذبات عموماً انسان کو نیکی اور بھلائی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ جذبات شرک سے آلودہ ہوجاتے ہیں تو انسان نیکی کے بجائے برائی کی طرف جانے لگتے ہیں۔ پاکیزہ معاشرے کے قیام کے لیے توحید کا تصور ایک سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ اِس کے برعکس شرک کے زیر سایہ پاکیزگی کا پنپنا مشکل ہے۔ تصورِ انسان اِسلام کے مطابق اِنسان ایک ذمّہ دار ہستی ہے۔ وہ کوئی ادنیٰ مخلوق نہیں ہے۔ بلکہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ تخلیق آدم سے قبل اِنسان کے اِس بلند مقام کا اعلان کیاگیا:
 
وَ وَإِذْ قَالَ رَ‌بُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْ‌ضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُفِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ  قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ O
البقرہ:۳۰
 ’’یاد کرو وہ وقت جب تمھارے رَب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انھوںنے عرض کیا: کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑدے گا اور خوں ریزیاںکرے گا؟ آپ کی حمد وثنا کے ساتھ آپ کی تسبیح تو ہم کرہی رہے ہیں۔ فرمایا میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے۔‘‘انسان کے اِس بلند مقام میں اس کی آزمائش پوشیدہ ہے۔
 
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْ‌ضِ وَرَ‌فَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَ‌جَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَاآتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَ‌بَّكَ سَرِ‌يعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿الانعام:۱۶۵﴾
 ’’اُس نے تم کو زمین میں نائب بنایا ہے۔ تم میں سے بعض کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیے تاکہ تمھیں اپنے دیےہوئے احکام کے ذریعے آزمائے۔ بے شک تیرا رَب سزا دینے میں بہت تیز ہے اور بے شک وہ بڑا بخشنے والا اورمہربان ہے۔‘‘
 
انسان کے سپرد امانت کا بارکیاگیا ہے۔
إِنَّا عَرَ‌ضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَاوَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ؒ  لِّيُعَذِّبَ اللَّـهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِ‌كِينَ وَالْمُشْرِ‌كَاتِ وَيَتُوبَ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿الاحزاب، ۷۲-۷۳﴾
+++++++
 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1144