donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Ahmad Qadri
Title :
   Aalmi Manzar Name Me Musalmano Ko Hashiye Par Dalne



عالمی منظر نامہ میں مسلمانوں کو حاشیہ پر

ڈالنے کی کوششوں کا سدّباب ضروری ہے

 

 ڈاکٹر سید احمد قادری

 رابطہ: 09934839110


       ایک ماہ کے اندر فرانس میں ہوئے دہشت گرد حملے میں 127  لوگ اور امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینومیںمعزور افراد کے ایک مرکز میں جاری ایک تقریب کے دوران پر تشدّد حملہ میں 14افراد ہلاک اور 17 لوگ زخمی ہوئے ۔ ان دونوں حملوں میں جس طرح  معصوم اور بے قصور عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کا ، جیسا کہ کہا جا رہا ہے ،نام نہاد اسلامی تنظیم نے ناحق خون بہایا ہے ۔ اس ظالمانہ ، جارحانہ ، غیر انسانی اور غیر اسلامی حملے کی عالمی سطح پر مزمّت کی جا رہی ہے اور بلا شبہ ایسا ہونا  ہی چاہئے ۔ اس لئے کہ کوئی بھی مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے مذہب کے نام پر  بے گناہ لوگوں کا خون بہائے ۔ اسلام میں تو ایسے عمل کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا جس نے بھی مطالعہ کیا ہے ، وہ اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ اسلام کسی بھی بے گناہ، انسان پر ظلم  وتشدّد کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیتا ، خواہ بے گناہ شخص مسلم ہو یا غیر مسلم یا اس کا تعلق کسی بھی ملک ، قوم اور ملّت سے ہو ، جبر وزیادتی کرنے والا اگر خلیفۂ وقت بھی ہو ، تو بھی اسلام اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کرتا ۔ اس لئے کہ اسلام وہ دین رحمت ہے ، جوساری انسانیت کے لئے امن  وعافیت کا پیغام دیتا ہے ۔ ایسے میں اسلام کے نام پر جو کوئی بھی دہشت گردی پھیلا رہا ہے ، معصوم اور بے گناہوں کو ہلاک کر رہاہے ، یہ عمل نہ صرف غیر انسانی بلکہ غیر اسلامی ہے ۔ جس کی مذّمت ہر مکتبئہ فکر کے ذریعہ کیا جانا جائز اور بر حق ہے ۔

     لیکن ان حالات میں یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ ایسے وہ کون  لوگ ہیں ، کہ جب کبھی جبر و ظلم اور دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے اور دنیا میں امن وآشتی  اور یکجہتی کی باتیں کی جاتی ہیں ، بعض ناعا قبت اندیشوں اور خاص طور پر، تشدّد اور بربریت کی فصل اُگانے والوں کو ناگوار گزرتی ہے اور ایسے ہی لوگ مظلوم کو ہی ظالم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں اور دنیا کے کئی ممالک کے منظر نامہ سے جھانکتی ہوئی مل جائینگی۔ فی الحال فرانس کا  ایک منظر نامہ دیکھئے کہ گزشتہ اگست ماہ میں فرانس میں فلسطین کے وزارت خارجہ کے ممبر ریاد المالکی کی ملاقات فرانس کے وزیر خارجہ لو رینٹ فیبیس سے ہوئی تھی اور اس کے بعد فرانس کی جانب سے فلسطین کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا گیا تھا کہ ’ ’فلسطین کو یا تو جلد از جلد عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے یا پھر اس پر اقوام متحدہ کی قرار داد لائی جائے ‘ ‘۔ اس بیان کے خلاف 19 اگست 2015ء کو اسرائیل کے ایک صحافی ہرب کیونن کا بہت سخت مضمون اسرائیل کے مشہور اخبار ’’ دی یروشلم پوسٹ‘‘ میں شائع ہوا تھا ۔ جس میں پوشیدہ طور پر فرانس کو دھمکی دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا گیا تھا کہ فرانس کا ایسا بیان دنیا میں امن و امان کے لئے خطرہ ہے اور یہ اندیشہ گزشتہ 12 نومبر کو سچ کر دکھایا گیا ۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی پچھلے دنوں فلسطین پر اسرائیل کے ظلم  وتشدّد کے خلاف سخت بیان دے چکے ہیں ۔ ادھر اسرائیل گزشتہ ساٹھ برسوں سے فلسطین پر کئے جا رہے پر تشدّد اور سفّاکانہ حملوں کی تصاویر کے سوشل میڈیا پر آنے سے فلسطین کے تئیں دنیا کے اہم ممالک کے ہمدردانہ رویۂ سے پریشان ہو کر اس نے سرچ انجن گوگل سے چند روز قبل ایک معاہدہ کیا ہے ۔ اس امر کا انکشاف کرتے ہوئے اخبار’ انٹرنیشنل ٹائمز ‘نے بتایا ہے کہ گوگل کمپنی اور نائب اسرائیلی وزیر خارجہ نے باہمی تعاون کے ایک سمجھوتہ پر مشترکہ طور پر دستخط کئے ہیں ۔ جس کی رو سے اسرائیل اور گوگل مل کر
 یو ٹیوب پر اسرائیل مخالف مواد کی نگرانی کرینگے ۔

     ان دونوں اہم بیان اور معاہدہ کو سامنے رکھ کر حالیہ فرانس اور کیلی فورنیا کے دہشت گرد حملے کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو ، کئی  پوشیدہ حقائق سامنے آ سکتے ہیں ۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ان دونوں  پُر تشدّد سانحات کے بعد فلسطین کے تئیں جو ہمدردانہ رویۂ چند ممالک میں جنم لے رہا تھا ، وہ نہ  صرف  ختم ہو گیا بلکہ فلسطین سمیت  تمام مسلم ممالک کے مسلمانوں سے  نفرت  بھی بڑھا دی ۔ یہ فرانس اور کیلی فورنیہ میں حملوں کا ہی نتیجہ ہے کہ نام نہاد اسلامی تنظیم کے پس پشت اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے خلاف امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی وغیرہ متحد ہو رہے ہیں ۔ جس سے خوف زدہ ہو کر کئی ممالک کے امن پسند لوگ تیسری عالمی جنگ  کے خطرہ کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ۔ اس خطرہ کے پیش نظر کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا، پوپ فرانسس نے اسلام اور عیسائی کے درمیان ڈائلاگ پر  زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالات تیسری عالمی جنگ جیسے ہو رہے ہیں، دنیا کئی خیموں میں منقسم ہو رہی ہے اور جنگ کی وجہ بنے گی تباہی ، جرم اور قتل و غارت گری ۔ پوپ فرانسس نے بڑے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ انتہا پسندی کا کسی بھی مذاہب سے کو ئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ بدلا اور تشدّد اور خصوصاََ ایسا تشدّد جو مذہب کے نام پر کیا جائے ۔ اس کی سخت مخالفت کرنا چاہئے ، یہ وہ تشدّد ہے جس کا مخالف خدا بھی ہے ۔ پوپ فرانسس نے  ایک  اور بہت اہم  بات کہی کہ صرف اسلام ہی ایسا مذہب  نہیںہے ، جو  تشدد اور انتہا پسندی کی وجہ کر متاثر ہو رہا ہے ، بلکہ دیگر مذاہب میں پائی جانے والی انتہا پسندی بھی خطرناک ہے ۔ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے پوپ فرانس نے وسطیٰ افریقہ جمہوریہ میں اپنے ایک خطاب میں مسلمانوں اور مسیحیوں کو بھائی بھائی قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مذہبی منافرت اور نفرت کا خاتمہ کر دینا چاہئے ۔ پوپ فرانسس نے گزشتہ 29 نومبر15 ء کو دار الحکومت بنگوئی کے نواح کی اس مسجد میں بھی تشریف لے گئے ، جس علاقہ میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان کافی کشیدگی پائی جاتی ہے ۔ اس مسجد میں پوپ کا ،مسلمانوں نے پر تپاک استقبال بھی کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ پوپ فرانس نے افریقہ کے اپنے پانچ روزہ دورہ کے درمیان اپنے طور پر دنیا میں بہت تیزی سے بڑھ رہی منافرت ، تشدّد اور دہشت کے خاتمے کے لئے اور تیسری عالمی جنگ کی نوبت نہ آئے ، اس کے لئے ہر ممکن ایسا بیان دیا جو کسی بھی مذہب کا مبلغ دے سکتا ہے ۔ عالمی سطح پر برف پگھلانے کی ایسی کوششوں کا ضرور خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔ لیکن کئی ممالک ایسے ہیں ، جو ایسا نہیں چاہتے ہیں ، اس لئے کہ عالمی دہشت اور تشدّد میں ہی ان کا مفاد پوشیدہ ہے ۔

     دنیا کے مسلمانوں کو منصوبہ بند سازش کے تحت ہدف بنائے جانے اور انھیں حاشیہ پر ڈالنے کوشش کی کڑی میں مذید ایک کڑی کا اضافہ کرتے ہوئے امریکہ میں اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخاب کے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ جو اپنے متنازعہ بیان کے لئے کافی مشہور ہیں ، انھوں نے امریکہ کے مسلمانوں کے خلاف بیان  دیا  ہے کہ مسلمانوں کو امریکہ میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کر دینا چاہئے ۔ یہ بیان نہ صرف امریکی دستور اور یہاں کے جمہوری اقدار ، بلکہ ریپبلکن پارٹی کے بھی خلاف ہے ۔  اس بیان کو دنیا کے بیشتر ممالک نے غیرذمّہ دارانہ بیان قرار دیتے ہوئے اس کی کافی مذمت کی ہے ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کے ترجمان کے ساتھ ساتھ فرانس، برطانیہ اور  کیناڈاکے وزرائے اعظم نے بھی ٹرمپ کے اس بے ہودہ بیان کی زبردست مخالفت کی ہے ۔ مصر کے معروف اسلامی قانونی ادارہ ’’دارالافتا‘‘ نے بھی جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلام اور مسلمان کے بارے میں اس قسم کے مخاصمانہ انداز سے امریکی معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف غلط رجحان پیدا ہوگا ۔ واضح رہے کہ امریکہ میں پُر امن اور وفادار امریکی مسلم شہریوں کی آبادی اس وقت 80 لاکھ سے زائد ہے ۔ ٹرمپ کے غیر ذمّہ دارانہ بیان کی مذمت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے 35 ہزار سے زائد برطانوی شہریوں نے ٹرمپ کے برطانیہ میں داخلہ پر پابندی عائد کئے جانے کا مطالبہ حکومت برطانیہ کو پیش کیا ہے ۔ اپنے وقت کے عالمی شہرت یافتہ باکسر محمد علی نے بھی ٹرمپ کے بیان کی مزمت کرتے ہوئے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ ـ ’ ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے ان لوگوں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا ، جو اپنے ذاتی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے اسلام کا سہارا لیتے ہیں ، جیسے کہ صدارتی امیدوار امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانا چاہتے ہیں ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حملہ کرنے والے نام نہاد جہادیوں کا بے رحمانہ تشدد ہمارے مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہے۔  ڈونالڈ ٹرمپ کو اپنے اس بیان کی اس قدر عالمی سطح پر مذمت ہوگی ، اس کا انھوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا ۔ اسکاٹ لینڈ کے تجارتی سفیر کی ذمّہ داری سے بھی ٹرمپ کو فرسٹ منسٹر نکولا اسٹرجن نے ہٹا دینے کے اعلان کے ساتھ ہی کہا ہے کہ ٹرمپ اپنے حالیہ تبصرے کی بنأ پر وہ اب تجارتی سفیر بنے رہنے کے لئے موزوں نہیں ہیں ۔ ٹرمپ کو پئے در پئے کئی طرح کی ذلّت اور رسوایوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ادھر رابرٹ گورڈن یونیورسٹی کے ذریعہ 2010 ء میں ٹرمپ کو دئے گئے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کو یہ کہہ کر واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے کہ ان کا بیان یونیورسٹی کے اقدار و مزاج کے خلاف ہے ، اس لئے وہ اس اعزازی ڈگری کے لئے ناموزوں ہیں ۔ ادھر مشرق وسطیٰ کی ایک بڑی ریٹیل چین کے مالک گروپ لینڈ مارک نے بھی ٹرمپ کے غیر ذمّہ دارانہ بیان کے بعد ان کی کمپنی کے تیار کردہ مصنوعات کی فروخت کو متحدہ عرب امارات، کوویت، سعودی عرب اور قطر کے اسٹور ز میں  بند کر دیا ہے ۔

      اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح اسلام کے نام پرنام نہاد مختلف تنظیم ،تشدد اور دہشت گردی کا کار گناہ انجام دے رہے ہیں ، اور جس طرح  پوری دنیا کے مسلمانوں پر تنقید کی جارہی ہے ، اس سے عام مسلمانوں کو نہ صرف شرمندہ ہونا پڑ رہا ہے بلکہ ان کے اندر خوف و ہراس اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ ایسے  ناگفتہ بہ حالات میں عالمی سطح پر  اپنی ایک خا ص پہچان بنا چکے فیس بک کے بانی اور مالک، مارک زکر برگ کا ایک بیان ہوا کے خوشگوار چھونکے سے کم نہیں ۔ مارک زکر برگ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں اپنی برادری اور دنیا بھر میں موجود مسلمانوں کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کے ساتھ اپنی آواز ملانا چاہتا ہوں ۔ مسلمانوں کو دوسروں کے اعمال کے باعث ستایا جاتا ہے ۔ انھوں نے بڑے جزباتی انداز میں اپنا درد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک یہودی کی حیثیت سے میرے والد ین نے مجھے یہ تربیت دی ہے کہ کسی بھی حملے کے خلاف ضرور کھڑے ہو جاؤ، یہاں تک کہ آج یہ حملہ آپ پر نہ ہوا ہو ، لیکن کسی کی آزادی پر حملے سے بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ مارک نے یقین دلایا ہے کہ فیس بک دنیا بھر کے مسلمانوں کے حق کی لڑائی لڑے گا ۔

    اس پورے عالمی منظر نامہ کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک مسلمانوں کو خوف زدہ ، حراساں کرکے انھیں بے وقعت بنانے کی منصوبہ بند سازش رچ رہے ہیں ، لیکن دوسری جانب مارک زکر برگ جیسے لوگوں کے بیانات مسلمانوں کے اندر ایک نئی امید اور توانائی پیدا کر رہے ہیں ۔ مارک کے اس حوصلہ افزا پیش کش سے دنیا میں امن و امان چاہنے والوں کے دلوں سے مسلمان یہ غلط فہمی نکالنے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں کہ اسلام کے چاہنے اور ماننے والے کبھی بھی ظالم، جابر ، قاتل اورتشدّد و دہشت پسند نہیں ہو سکتے ہیں ،  مذہب اسلام ہر  طرح کے غیر انسانی اور غیر منصفانہ عمل کا  مخالفت کرتا ہے ۔

 

*************************


 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 538