donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Meem Zad Fazli
Title :
   Aur Adal Se Mahroom Khatarnak Shia Sahafat

سعودی عرب۔ایران تنازع


اورعدل سے محروم خطرناک شیعہ صحافت؟


میم ضاد فضلی


سعودی عرب کی جانب سے ممتاز شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو سزائے موت دینے کے بعد خطے بھر کی شیعہ آبادی کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے جبکہ تہران میں مظاہرین نے سعودی سفارتخا نے پر حملہ کیا۔جس کے رد عمل میں سعودی عرب نے ایرانی سفارت کار کو ملک چھوڑ دینے کا فرما جاری کردیا،مملکت سعودیہ کا یہ قدم سفارتی سیاست کے تقاضوں مطابق نہیں ہے۔دنیا کی تاریخ میں سفارتی سیاست میں اس قسم کے واقعات خال خال ہی نظرآ تے ہیں۔مگرایران نے سعودی عرب میں سزائے موت دیے جانے پر جس جابرانہ غرور کا مظاہرہ کیا ہے اس پر کچھ کہنے سے زیادہ مناسب یہی ہے کہ روحانی حکومت کو پہلے اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دیاجائے ۔ کیا اس میں کوئی شبہہ ہے کہ ایران دوسرے ممالک کی طرف مسلکی عصبیت کی رٹ لگاتا رہا ہے ،جبکہ خود اپنے یہاں سنیوں پر عرصہ حیات تنگ کردینے کا جو کھیل ایرانی حکومت کی سرپرستی میں تقریباً35برسوں سے جاری ہے اسے نہ تو کسی شیعہ دانشور نے دیانت کے ساتھ لکھا اور نہ کسی شیعہ اہل علم نے اس کی مذمت کی۔حالاں کہ ایران میں سنی مسلمانوں کے ساتھ چوتھے درجہ کے شہری کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔اس کا اعتراف کئی مغربی دانشوروں اور صحا فیوں نے کیا ہے۔یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ ایران میں سنیوں کیلئے کہیں بھی سیاسی نمائندگی نہیں ہے ،جبکہ افرادی قوت کے لحاظ سے سنیوں سے کئی گنا کم یہودیوں اور عیسائیوں کوایرانی پار لیامنٹ میں نمائندگی دی جاتی ہے۔مذکورہ دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو اعلیٰ سرکاری عہدے بھی تفویض کئے جاتے ہیں ۔مگرسنیوں کیلئے کلاس بی سے آ گے کی ملازمت کا کوئی تصور نہیں ہے۔اگرپولیس انتظامیہ میں ان کی نمائندگی کی بات کی جائے تو حالات اور بھی زیادہ مایوس کن ہیں ۔عموماً ایران میں پولیس محکمہ کے دروازے سنی مسلمانوں کیلئے لگ بھگ بند کئے جا چکے ہیں۔جیلوں میں ان کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے کافی زیادہ ہے۔یہ سب صرف اس لئے ہورہا ہے کہ وہاں سنی مخالف دہشت گردی کو مقامی پولیس ،خفیہ محکمہ اور حکومت کی سر پر ستی حاصل ہے ۔ایران نے النمر کو سزائے موت دیے جانے پر شدید بیتابی درج کرائی ہے۔ شیعہ شدت پسندوں کو سفارت خانہ میں گھسا کر بربریت کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال مسلک کی آگ میں گردنوں تک ڈوبے ہوئے ممالک مثلاً عراق وشام میں ہی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ورنہ عموماً عرب ممالک میں ملازمت یادیگر سرکاری امور میں سبھی طبقات کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ایران کی طرح کہیں بھی مسلکی زہر حکومتوں میں کارفرماں نہیں ہے۔مذکورہ سطور اس لئے لکھنا ضروری تھا کہ شیخ النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد سنیوں پر انتقامی کاروائی انجام دیے جانے کے اندیشے ایران کے تعلق سے سامنے آئے ہیں ۔کہاجارہا ہے کہ بڑے پیمانے پر جیلوں میں قید سنیوں کو ایران میں کبھی بھی پھانسی دی جاسکتی ہے۔کیا اس عمل کو سیاسی انتقام سے زیادہ کچھ کہا جائے گا اور اس قسم کی جارحیت کے ساتھ کسی ملک کو روادار قرار دیا جاسکتا ہے ۔اس کا جواب خود ایران اور شیعہ انصاف پسندوں کو ہی دینا چاہئے۔سعودی عرب میں گزشتہ ہفتہ جن لوگوں کو حکومت مخالف سرگرمیوں کے الزام میں پھانسی دی گئی ہے ،ان میں شیخ النمر سمیت صرف چار شیعہ تھے ،جبکہ ان کے ہمراہ اسی جرم میں43سنی مسلمانوں کو پھانسی دی گئی ہے۔اپنی کرسی کیلئے انسانی جانوں کے اتلاف کو ہم بھی جائز نہیں سمجھتے اورحقو ق انساں کیلئے سرگرم تنظیموں کے ذریعہ درج کرائی گئی تنقید کی حمایت کرتے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا شیعہ حضرات ایران میں ذبح کئے جانے والے بے گناہ سنی مسلمانوں کے قتل عام پر اسی طرح کا احتجاج کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ طبقہ کتنا تنگ نظر ہے اس کا اندازہ بس اسی بات لگایا جاسکتا ہے کہ صحافت جیسے دیانتدارانہ فن کو بھی ہندو ستا ن کی شیعہ صحافت میں داغدار کیا جارہا ہے۔آپ گزشتہ ہفتہ کا روزنامہ صحافت، روزنا مہ اودھ نامہ ،روزنامہ انقلاب دیکھ لیجئے جن کے مالکان یا تو شیعہ ہیں یاان اخبارات میں شیعہ حضرات کا دبدبہ ہے۔ وہ سبھی اس وقت ایک فریق کی طرح ایران کے ہرجھوٹ اورفراڈ کی حمایت کرتے نظرآ تے ہیں ۔اس کے برعکس سعودی عرب پر مدلل یا بے بنیاد الزامات کی جھڑی لگائے ہوئے ہیں۔یہاں صحافتی دیانتداری کا تقاضہ یہی تھا کہ سب سے پہلے کسی مخصو ص ملک پر شیعہ حضرا ت کے ساتھ جانبداری برتنے کا الزام لگا نے سے قبل غیر جانبداری سے کام لیا جا تا اوردیانتداری کیساتھ اصل مسئلہ کی جڑ تک پہنچنے کی زحمت نہیں کی گئی۔حالاں کہ صحافتی اصول کا تقاضہ یہ تھا کہ پہلے حقائق کا صحیح پتہ لگایاجاتا اوراس کے بعد کسی قسم کی مذمت یا جرح کی جاتی ۔مگر یہاں بھیڑ کے ریوڑکی طرح اندھا بن کر دوڑ نے کی غلطی کی گئی ،جس کا نقصان ہونا ہی تھا،اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہندوستان کی شیعہ صحافت ایران کے معاملہ دیانت سے قطعی طور پر یتیم ویسیر ہے۔

شیخ النمرسمیت 47لوگوں کی پھانسی پرامریکہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مشرقِ وسطیٰ میں فرقہ ورانہ دشمنی مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔مگر حقائق یہاں بھی امریکہ کی دوغلی پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں۔آخروہی امریکہ ایران میں سنیوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی دہشت گردی پرکیوں خاموشی اختیار کرلیتا ہے۔اس سے صاف ہوجاتا ہے کہ ہرطرف انسانی ہمدردی کے معاملے میں اپنے مفادات کی روٹی سینکنے کا بھوت سوار ہے۔انسانی جانوں کے ساتھ کسی بھی طرح کا تشددکسی بھی حوالے سے قابل مذمت ہے ۔مگرمسلک کی عینک چڑھا کر ظلم کی توضیح خود ایک ظلم ہے ۔اور یہی ظلم ان دنوں ہندوستان کے شیعہ اخباروں میں کھلے عام دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سعودی عرب میں احتجاج پر پابندی کے باوجود القطیف نامی علاقے میں احتجاج ہوا۔لبنان کی شیعہ کاؤنسل نے اسے بڑی غلطی قرار دیا ہے، جبکہ لبنان کی شیعہ حزب اللہ نے سعودی عرب کے اس اقدام کو قتل قرار دیا ہے۔ سعود ی عرب کے ہمسایہ ملک بحرین جہاں شیعہ آبادی اکثریت میں ہے میں پولیس اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا۔عراق کے شیعہ عالم موقاتدا السدر نے جلوس کی کال دی تھی، تاہم ان کا کہنا ہے کہ احتجاج پر امن ہونا چاہیے۔یمن، پاکستان اورہند کے زیرانتظام کشمیر سے بھی احتجاج کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔شیعہ اکثریتی شہر لکھنؤ میں بھی مظاہرے ہوئے اور سعودی عرب مردہ باد کے نعرے بلند کئے گئے۔ہندوستان میں مذکورہ دونوں مقامات کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی مظاہرے کئے گئے۔ہر جگہ بس یہی الزامات سننے کو ملے کہ سعودی عرب نے النمر سمیت 47لوگوں کو سزائے موت دینے کا یہ فیصلہ مسلکی عصبیت کی بنیاد پر کیا ہے۔حالاں کہ اگرا س فہرست پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سزائے موت کے اس عمل پر مسلکی عصبیت کی بات ایک جھوٹا اور بے بنیاد الزام ہے جس کی توقع ایران اور اس کی عنایات سے مستفید قوتوں سے ہی کی جاسکتی ہے۔جبکہ سزا یافتگان کی فہرست بتا تی ہے کہ یہ سزا مسلکی عصبیت پر منتج نہیں تھی ،بلکہ سزاپانے والوں میں بڑی تعداد سنیوں کی بھی ہے ،جنہیں شاہ خاندان نے اپنی کرسی کیلئے تہ تیغ کیا ہے۔  

امریکہ نے سزائے موت پر عملدرآمد پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے فرقہ ورانہ کشیدگی بڑھے گی جسے موجودہ صورتحال میں کم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔امریکہ محکمہ خارجہ نے خطے کے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے اپنی کوششوں کو دگنا کریں۔احتجاجی مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارتخانے کی عمارت کو آگ کے حوالے کردیا اورنام نہاد جموریہ خاموش تماشائی بنی رہی ،پولیس انتظامیہ شیعہ شدت پسندوں کے ساتھ معاون کے طور پر سرگرم عمل نظر آئی ۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے پیراملٹری رضاکاروں کے گروہ کو عمارت پر بم پھینکتے ہوئے دیکھا۔سعودی عرب کی حکومت نے سرکاری سطح پرایران کے سخت ردعمل پر ایران سے تحریری طور پر احتجاج کیا ہے۔ایران نے اپنے ردِعمل میں کہا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے شیخ نمر کو پھانسی دیا جانا مہنگا پڑ سکتا ہے۔سعودی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق ایران کے اشتعال انگیز بیان کے جواب میں ایرانی سفیر کو طلب کر کے ان سے سخت الفاظ میں تحریری طور پر احتجاج کیا گیا ہے۔اس سے قبل سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ شیعہ عالم شیخ نمر النمر سمیت 47 افراد کو موت کی سزا پر عملدرآمد کر دیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ افراد دہشت گردی کے مرتکب تھے۔شیع نمر سنہ 2011 میں ملک کے مشرقی صوبے میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت میں آواز بلند کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان علاقوں میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور وہ ایک عرصے سے نظر انداز کیے جانے کی شکایت کر رہے ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے پاسدرانِ انقلاب نے بھی اپنے بیان میں اس کا سخت بدلہ لینے کی بات کی ہے۔ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے سعودی عرب کی جانب سے کیے جانے والے اس اقدام کی دولتِ اسلامیہ کے اقدامات سے موازنہ کرنے کی تجویز دی ہے۔47 افراد کو موت کی سزا ملک کے 12 مختلف مقامات پر دی گئی۔ ان میں ایک کا تعلق کینیڈا اور ایک مصری باشندہ تھا جبکہ باقی سعودی عرب کے باشندے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ان میں سنی مسلک کے حامل افراد بھی ہیں جنھیں دہشت گرد حملوں کے لیے موت کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2004 میں اس کے کیمرہ مین سیمون کمبرز کی ہلاکت میں ملوث مجرم کی سزائے موت پر عملدرآمد ہوا۔

خیال رہے کہ سنہ 2011 میں عرب سپرنگ کے تحت تیل سے مالا مال مشرقی صوبے میں مظاہرے ہوئے تھے۔واضح رہے کہ دو سال قبل جب شیخ نمر پر گولی چلائی گئی اور انھیں گرفتار کیا گیا تھا تو سعودی عرب میں کئی دنوں تک کشیدگی رہی تھی۔اکتوبر میں شیخ نمر کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کی تصدیق کی گئی تھی۔ان کے بھائی نے بتایا کہ نمر النمر کو ملک میں ’بیرونی مداخلت‘ چاہنے، حکمرانوں کی ’نافرمانی کرنے‘ اور سکیورٹی فورسز کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔اس تفصیل کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان سطور کے ذریعہ سعودی عرب کی حمایت کی جارہی ہے،ہم بھی سعودی عرب میں اپنے حقوق کیلئے صدائیں بلند کرنے والوں کو سزائے موت دینے کی مذ مت کرتے ہیں ۔مگر حکومت کے اس عمل کو مسلکی عناد کی عینک سے دیکھنے کی بجائے اقتدار کی ہوس کواس کیلئے ذمہ دار قرار دیا جانا چاہئے۔اس کے برعکس اگر مسلکی مخاصمت کی بنیاد پر کسی بے گناہ کو سزا دینے کی بات ہے تو اس میں ایران اپنا ثا نی نہیں رکھتا۔


******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 423