donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nayab Hasan
Title :
   Roos : Sharam Tumko Magar Nahi Aati

روس: شرم تم کومگرنہیں آتی


نایاب حسن

9560188574


     ترکی نے اپنے فضائی حدودکی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے روسی طیارے کوکیامارگرایا، ایسالگتاہے کہ روسی حکومت آپے سے باہرہوچکی ہے اوربزعمِ خویش ترکی کاناطقہ بندکرنے کی ہرممکن کوشش کررہی ہے؛ شایداسے یہ غلط فہمی ہے کہ اس کی جانب سے لگائی جانے والی معاشی،اقتصادی،عسکری اورسیاسی پابندیوں کی وجہ سے ترکی مجبور ہو جائیگااوراسے معافی مانگنی ہی پڑے گی ، ایک جانب ترکی کے صدرہیں، جونہایت ہی سنجیدگی وحقیقت شناسی کے ساتھ صورتِ حال کی درست عکاسی کررہے ہیں، انھوںنے روسی طیارہ کے گرائے جانے پر افسوس کابھی اظہارکیاہے ،البتہ چوںکہ اس کوفضائی حدودکی خلاف ورزی کی وجہ سے عالمی قانون کے تحت گرایاگیا،اس لیے اردوگان اور ترکی حکومت اعتذارسے انکارکررہی ہے ۔جبکہ دوسری جانب روسی صدرولادیمیرپوتن ہیں، جونہ صرف مسلسل دروغ بافی وکذب بیانی سے کام لے رہے اور ترکی پرزبانی تیرآزمارہے ہیں؛ بلکہ اب انھوں نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ترکی کے ساتھ تجارتی وعسکری شراکت کے خاتمے کے کاغذات پربھی اپنے دست خط ثبت کردیے ہیں، اردوگان نے پیرکوپیرس میں منعقدہونے والی ’’عالمی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس‘‘کے بعد پوتن سے ملاقات اوردونوں ملکوں کے مابین پیدا ہونے والی کشیدگی پرتبادلۂ خیال کی خواہش کااظہارکیاتھا اورانقرہ نے کریملن سے اس سلسلے میں رابطہ بھی کیاتھا، مگرروس کی جانب سے افسوس ناک سردمہری کامظاہرہ کیاگیا؛ چنانچہ پوتن - اردوگان ملاقات بھی نہ ہوسکی ، اسی دوران ایک خبریہ بھی آئی تھی کہ روس کے ایک سینیرسیاست داں اوروہاں کی ’’لبرل پارٹی ‘‘کے سربراہ ولادیمیرجیرنوسکی نے ترکی سے بدلہ لینے کے لیے آبناے باسفورس پرایٹمی بم گرانے کی تجویزپیش کی ہے … اب اس درجہ بوکھلاہٹ کوکیانام دیا جائے

     مذکورہ کانفرنس کے بعداردوگان نے مقامی و عالمی میڈیاکے نمایندوں سے بات چیت کے دوران روس کی جانب سے عائدکی جانے والی پابندیوں کے حوالے سے کہاکہ روس ہمارااہم تجارتی پارٹنرہے اوراتنی جلدی میں اسے اس طرح کافیصلہ نہیں لیناچاہیے تھا، یہ واضح رہے کہ فی الوقت روس میں کم ازکم 90000 ترک شہری برسرِ ملازمت ہیں ، جن کے ویزوں میںعدمِ توسیع کافیصلہ کیاگیاہے، جس پرآنے والی جنوری سے عمل درآمدہوگا،اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین چارٹرڈطیاروں کی آمدورفت پربھی بین لگادیاگیاہے،مطلب اب نہ ترکی کے سیاح روس آسکتے ہیں،نہ روسی سیاح ترکی کا رخ کر سکتے ہیں، ساتھ ہی ترکی سے درآمدکی جانے والی غذائی وزرعی اجناس پربھی پابندی عائدکردی گئی ہے، اردوگان کاکہناتھاکہ ہم روس کے جواب میں ایساغیرسنجیدہ فیصلہ نہیں کرسکتے، ترکی ایک جمہوری ملک ہے، ہماری پارلیمنٹ غوروخوض کے بعداس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ لے گی ۔

     ویسے ترکی پرروسی پابندیوں کے بعدعربی اسلامی ملکوں میں ترکی کے حوالے سے غیرمعمولی ہمدردی کے جذبات دیکھنے میں آرہے ہیں، گزشتہ دوتین دنوں میں سوشل میڈیامیں ’’التضامن مع ترکیا ‘‘اور ’’دعم البضائع الترکیۃ ‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ کم ازکم دس لاکھ ٹوئٹس اورتین ملین ری ٹوئٹس کیے گئے، جن میں عالمِ اسلام کے تئیں ترکی کی بے مثال خدمات کوخراجِ تحسین پیش کیا گیا اورکہاگیاکہ اگرروس نے ترکی کی مصنوعات پر پابندی لگائی ہے، توہم انھیں اپنے ملکوں میں عملی طورپررائج کریں گے اورروسی مصنوعات کابائیکاٹ کریں گے، یقینایہ ہمارے مسلم عرب برادران کی ایمانی اخوت وحمیت کی دلیل ہے اورہم ان کے اس جذبے پرصدآفریں کہتے ہیں۔شاہ سعودیونیورسٹی کے پروفیسر اور مشہورداعی ، مبلغ اور مصنف عبدالرحمن العریفی نے بھی اپنے بلاگ میں ایک مضمون لکھ کرترکی کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیااوراس کی ترقی و خوشحالی کے لیے دعائیں کی ہیں۔

     روس گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے شام کی ناجائزحکومت کے تحفظ اوروہاں کے مزاحمتی گروپوں اور معصوم شہریوں کی سرکوبی میں مصروف ہے، حالیہ کانفرنس کے دوران ملاقات میں امریکی صدراوبامہ نے پوتن سے کہاہے کہ وہ اس حرکت سے بازآئیں اورشام میں پرامن طورپر انتقالِ حکومت کویقینی بنائیں ’’مگروہ مانتاکب ھے؟ !‘‘ہم مسئلۂ شام پرامریکہ، فرانس؛ بلکہ اقوامِ متحدہ کے اب تک کے موقف کی بھی تاییدنہیں کرتے؛ کیوں کہ سب اپنی اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے لیے شام اورشامی عوام کوایندھن کے طور پر استعمال کررہے ہیں،مگراِن دنوںجوروس کررہاہے، وہ بہت ہی بھیانک نتائج کاحامل ہے، ایک طرف ایران شیعی نصیری نظریے کی توسیع وبقاکے لیے بشارِ لعین کے دست وبازوکومضبوط کیے ہوئے ہے، جبکہ دوسری طرف اب روس اپنے خفیہ شیطانی منصوبوں کے حصول کے لیے شام میں خوں ریزیوںمیںمصروف ہے ،مصرکے مشہوراخبار’’الاہرام‘‘نے اپنے کل کے شمارے میں اسرائیلی صدرکے ایک بیان کے حوالے سے لکھا ہے کہ شام میں اسرائیلی فوج بھی روس کی اس خوںریزمہم کا حصہ ہے،اس سے یہ اندازہ لگانادشوارنہیں کہ ان کا مقصدکیاہے اور یہ لوگ شام میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔

     اردوگان نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے بجاطورپر کہاکہ روس ہم پرداعش کی حمایت کاالزام لگارہاہے، جبکہ خود اس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون میں سنے ہوئے ہیں اورگزشتہ ڈیڑھ ماہ میں اس نے کم ازکم تین سوبے گناہ شامی شہریوں کوآغوشِ نیست میں پہنچایاہے:

دامن کوذرادیکھ، ذرابندِ قبادیکھ!!

     ویسے آنے والے قریبی دنوں میں روس اورترکی کے تعلقات کے معمول پرآنے کی امیدکم ہی ہے، ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس کے بعدترک صدرکی یوکرینی صدرویکٹریانکووچ سے ملاقات کی خبرسن کرتوپوتن اوربھی آتشِ زیرپاہوئے ہوں گے؛ کیوں کہ یوکرین روس کادشمن نمبرایک ہے اوراسی کے ایک حصے کریمیاکوروس میں شامل کرنے کے معاملے پرگزشتہ14 - 2013میں امریکہ وروس میں ٹھنی تھی ،جس کا سلسلہ تاہنوزجاری ہے اور جہاں امریکہ یورپی یونین کے ساتھ مل کرروس کے خلاف ماحول سازی میں مصروف ہے،وہیں روس بھی اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے مختلف پینترے آزما رہاہے۔اردوگان نے ایک اوربات ایسی کہی ہے کہ پوتن اسے سن کر ضرور’’سٹپٹاگئے ھوں گے‘‘،اردوگان نے امریکی نیوزچینل ’’سی این این ‘‘کے نمایندے بیکی انڈرسن کوانٹرویودیتے ہوئے ان کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ترکی ’’ناٹو‘‘ممالک کامستقل ممبرہے اوراگرایسی ناگزیرضرورت پڑی توہم اپنے حلیفوں سے تعاون لینے میں بھی دریغ نہیں کریں گے۔

     بہت سے تجزیہ کاراورسیاسی مبصرین ترکی اور روس کے مابین واقع ہونے والی حالیہ کشیدگی کوبڑے وسیع منظرنامے میں دیکھ رہے ہیں،ان کے مطابق اس حادثے کے بعدیورپ میں جنگ جیسا ماحول پیداہونے والاہے؛بلکہ بہتوں نے تویہ بھی لکھاہے کہ تیسری عالمی جنگ کے آثارنظرآرہے ہیں،جبکہ دوسرے بہت سے مبصرین اس واقعے کومحض روس اور ترکی تک محدود کرکے دیکھ رہے ہیں۔اردوگان نے پیرس کانفرنس کے بعدامریکی صدرباراک اوبامہ سے بھی ملاقات کی تھی،انھوں نے بھی ترکی کی حمایت اور اس کے حقِ مدافعت کی وکالت کی ہے،ظاہرہے ان کی یہ حمایت اس لیے تومنطقی ہے ہی کہ ترکی نے جوکیاہے،وہ غلط نہیں ہے،مگراس کے پسِ پردہ وہ دشمنی بھی کام کررہی ہے،جوگزشتہ دوتین سالوںمیںامریکہ و روس کے مابین مسلسل بڑھی ہے۔

     روس کی معاشی پابندیوںکے بعدایسے اندیشے ظاہرکیے جارہے ہیں کہ اس سے ترکی کی اقتصادیات پر غیر معمولی اثرپڑے گا،ترکی کا2023تک دنیاکی نمبرایک اقتصادی و معاشی طاقت بننے کا منصوبہ بھی متاثرہوسکتاہے؛ کیوںکہ روس ترکی کا دوسرابڑااور اہم تجارتی پارٹنرہے،شایداس وجہ سے ترکی حکومت ، وزیر اعظم احمد داؤداوغلو اور صدراردوگان بھی مسلسل یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ہم اس تنازع کو بات چیت کے ذریعے سلجھاناچاہتے ہیں۔ایسے میں عربی اسلامی ملکوںکے باشعورشہریوںکی جانب سے ترکی کی مصنوعات کوفروغ دینے کے حوالے سے سوشل میڈیامیں جوگرم جوشی دیکھنے میں آرہی ہے،وہ امید افزاہے اور توقع کی جانی چاہیے کہ زمینی سطح پربھی ان ملکوںمیں ترکی کی مصنوعات کو مقبولیت کی نئی منزلیں حاصل ہوںگی۔اردوگان نے یکم دسمبرکوقطرکادورہ بھی کیا ہے،وہ بھی ترکی کااہم تجارتی شراکت دارہے اور موجودہ وقت میںمشرقِ وسطیٰ کے بدحال مسلمانوںکی بازآبادکاری کے لیے اس کی خدمات بھی اہم رہی ہیں،مختلف اسلامی ملکوںمیںپھیلی ہوئی انارکی و بدامنی پر بھی اس کا موقف بہت حدتک قابلِ اطمینان رہاہے،ترکی کے ساتھ اس کے تعلقات بہت اچھے ہیں،امیدہے کہ اردوگان نے اپنے حالیہ دورے میں قطرکے ساتھ کچھ نئے اقتصادی معاہدات بھی کیے ہوںگے۔بہر کیف روس حالیہ حادثے پرجس اڑیل رویے کا مظاہرہ کررہااورشام میں معصوم شہریوںپربم برسارہاہے،وہ نہایت ہی افسوس ناک ہے۔اس وقت ہم اللہ سے دعاکرتے ہیں کہ وہ تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اسلامی ملک اورلاکھوںمظلوم مسلمانوں کی پناہ گاہ ترکی کوآنے والے دنوںمیں کسی بھی قسم کے بحران سے محفوظ رکھے اورشام میںوہاں کی ناجائزحکومت کی سانٹھ گانٹھ سے کھیلے جارہے ظلم و جورکے کھیل کا جلد ازجلد خاتمہ ہو،آمین

(یو این این)


******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 349