donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Umar Farahi
Title :
   Intefaza Aur Philisteen

انتفاضہ اور فلسطین


عرب حکمراں جو فی الحال امریکہ کے ساتھ مل کر دولت اسلامیہ کے علاقوں پر حملہ آور ہیں اور اسرائیل کے ساتھ مل کر بہار عرب کو ناکام بنا چکے ہیں ،اب یہ منصوبہ بھی تیار کررہے ہیں کہ انہیں ’اسلامی انتہاپسند ی ‘کے اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی خود کی مشترکہ فوج تشکیل دینی چاہئے ۔فلسطین کے مسلمان جو پچھلے ستر اسی سالوں سے قبلہ اول کی آزادی کے لئے اپنا خون بہارہے ہیں اور اسرائیل کی صہیونی حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں انہیں پابند سلاسل کررکھا ہے ،مگر عیاش اور اوباش قسم کے ان حکمرانوں کو صرف اپنا اقتدار عزیز ہے انہیں حرم شریف کی بے حرمتی اور آگ کے دریا سے گذرتے ہوئے آل ابراہیم کی چیخ و پکار سے کیا غرض ۔ انہوں نے کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ قبلہ اول کی آزادی کے لئے طیراً ابابیل اور ہد ہد کی جدید تعبیر تلاش کرنے کی کوئی جد وجہد نہیں کی ۔جبکہ دنیا کے بیشتر انصاف پسند غیر مسلم برادری کی طرف سے بھی ان کی غیرت کو للکارا گیا کہ عرب کے حکمراں اگر متحد ہو کر ایک بار بھی اپنے جارحانہ رخ کا مظاہرہ کردیتے تو بعید نہیں کہ فلسطینی مسلمانوں کو ان کا حق مل جاتا اور یہ اپنا کھویا ہوا وقار بھی بحال کرلیتے ۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عرب کے نوجوانوں نے عرب کے ان حکمرانوں کو اپنی پلکوں پر بیٹھایا ہے جس نے اسرائیل کے خلاف جارح رخ اپنایا ہے۔ایران کے صدر احمدی نژاد ہوں یا کرنل قذافی یا صدام حسین یہ لوگ اپنے اسی رویے کی وجہ سے ہی عربوں کے ہیرو تصور کئے جاتے تھے ۔احمدی نژاد نے تو آخری وقت میں اپنا کلمہ بدل دیا اور وقت کے یزید کے ساتھ ہو گئے ۔صدام حسین کو لوگ برا آدمی تصور کرتے تھے مگر اس برے آدمی کو اسرائیل کی دشمنی اور فلسطینیوں کی حمایت میں تختہ دار سے گذرنا پڑا اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ آخری وقت میں وہ عرب نوجوانوں کو تحریک دے گیا کہ تمہاری آزادی اور فلاح کا راستہ اسی موت کے پھندے سے گذرتا ہے ۔خود فلسطینی مسلمانوں نے بھی اپنی غیر معمولی جد وجہد، مزاحمت اور قربانی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر بہار کو خزاں کی لذت کا مزہ ضرور چکھنا ہوتا ہے۔اقبال نے اسی کو یوں کہا کہ ؂ ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام ۔ہے اسی میں مشکلات زندگی کی کشود
یہ دنیا کا دستور ہے اور کائنات کے مالک نے حالات کو اسی طرح بدلا ہے۔عرب حکمرانوں نے اسرائیل سے ۱۹۴۸ اور ۱۹۶۷ کی شکست کے بعد جب یہ تسلیم کرلیا کہ اسرائیل ایک طاقتور ملک بن چکا ہے اور یوروپ کی پشت پناہی کی وجہ سے اسے شکست دینا ناممکن ہے تو اس دوران وہی ماحول پیدا ہوا جو صلح حدیبیہ کے بعد دیکھا گیا ۔یعنی مشرکین کی دہشت سے فرار اختیار کرکے کچھ مسلمانوں نے مدینہ اور مکہ کے بیچ ایک ایسی وادی میں پناہ لے لی جہاں مکہ سے ان کا قافلہ گذرتا تھا،اور پھر ان پر حملہ آور ہوتے رہے ۔جسے آج کے دور میں ہم دہشت گردی کہتے ہیں۔عرب نوجوانوں کی معمولی جھڑپ اور مزاحمت جو بعد میں اسامہ بن لادن کی قیادت میں ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی اس نے افغانستان کو اپنی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جس نے اب عراق و شام میں ایک ریاست کا درجہ تو اختیار کرلیا ہے لیکن جسے ابھی تک جائز طریقے سے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔لیکن اس نوزائدہ تحریک دولت اسلامیہ کی شدت اور عروج کے بعد یوروپ میں ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے کی تحریک زور پکڑتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جنہوں نے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا تھا وہی لوگ قبلہ اول کے سپاہیوں اور محافظوں کو قتل کرنے کے لئے بشارالاسد کو فوجی امداد دے رہے ہیں مگر اسرائیل کو محفوظ پناہ گاہ مہیا کروانے والے یوروپی ممالک اب اپنے گناہ سے توبہ کرنا چاہتے ہیں۔سوئیڈن کے بعد برطانیہ ،اسپین اور کچھ دیگر یوروپی ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی جو تحریک اٹھ رہی ہے اسی عہد کو دوہراتے ہوئے یوروپی یونین کی خارجہ امور کی نئی سربراہ فید بریکا موگیرینی نے غزہ کے اپنے پہلے سفر کے دوران کہا ہے کہ ’’اگر ہم اب بھی بیٹھ کر انتظار کرتے رہے تو اور چالیس سال گذر جائیں گے اس لئے ہمیں عملی اقدام کرتے ہوئے اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے علاقوں پر مشتمل جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہونا چاہئے فلسطینیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کر لینا چاہئے ۔


عمر فراہی۔ موبائل۔09699353811 


  umarfarrahi@gmail.com   ای میل


*****************

Comments


Login

You are Visitor Number : 593