عاجز ہنگن گھاٹی
کہمن
مقصدِ حیات
منظر:
ہوا لا شعور اس کا جس وقت سرکش
لڑکپن کی حد سے وہ باہر ہوا تھا
ذرا سی بھی حس اُس میں باقی نہیں تھی
ہوس کی پرستش سے پتھر بنا تھا
وہ خونخوار تھا اک درندے کی صورت
جو انسانیت پر ستم ڈھا رہا تھا
غرض جب ضعیفی نے آکر دبوچا
تو ہلکی سی ٹھوکر سے گھبرا رہا تھا
کہمن:
وجودِ بشر کی تو تصدیق کر لے
بجز امتحاں تیری آمد ہی کیا ہے
بقا ہے شعوری تصّرت سے ورنہ
فنا زندگانی کا مقصد ہی کیا ہے
٭٭٭