غزل
ابر دودِ دل جو گھر کو چھائے رہتا ہے میرے
رہتی ہے فرقت کی شب باہر ہی باہر چاندنی
بھیج اک ساعت کو دل میں روئے تباں کا خیال
میرے ویرانے میں بھی ہو جائے دم بھر چاندنی
اک ہفتے سے دلاتے ہیں یہ ساتوں تیری
دشت، دریا، سبزہ، ساقی، شیشہ، ساغر، چاندنی
قتل کرتی ہے مجھے فرقت کی شب سیر چمن
سارے پتوں کو بنا دیتی ہے خنجر چاندنی
دودِ دل سینے میں ہیجان روئے جانا روبرو
گھر کے اندر ہے اندھیرا اور باہر چاندنی
٭٭٭