غزل
حرص دولت کی نہ عزّو جاہ کی
بس تمنا ہے دلِ آگاہ کی
دردِ دل کتنا پسند آئے اُسے
میں نے جب کی آہ اُس نے واہ کی
کھینچ گئے کنعاں سے یوسف مصر کو
پوچھئے حضرت سے قوت چاہ کی
بس سلوک اس کا ہے منزل اس کی ہے
اس کے دل تک جس نے اپنی راہ کی
واعظو کیسا بتوں کا گھورنا
کچھ خبر ہے ثم وجہ اللہ کی
کس کی حسرت نے جگایا تھا ہمیں
نیند سوئے قبر میں نوشاہ کی
مجھ سے مجرم کے لئے خُلدِ بریں
مہر بانی ہے رسول اللہ کی
یاد آئی طاقِ بیت اللہ میں
بیت ابرو اُ س بت دل خواہ کی
راہِ حق کی ہے اگر آسی تلاش
خاک رہ ہو مردِ حق آگاہ کی
٭٭٭