غزل
اس چا سے در گزرے یہ الفت نہیں اچھی
منہ دیکھے کی اے جانِ محبت نہیں اچھی
ہم تو یہ کہے جائیں گے اے گیسوئے جاناں
عاشق س اُلجھ پڑنے کی عادت نہیں اچھی
اُس طفلِ برہمن سے جو کی وصل کی خواہش
کچھ گن کے وہ بولا ابھی ساعت نہیں اچھی
آسیؔ نے جو اُس شوخ کو کل گھور کے دیکھا
چتون پہ پکار اُٹھّی کہ نیت نہیں اچھی
٭٭٭