غزل
اُسی کے جلوے تھے لیکن وصال یار نہ تھا
میں اُسی کے واسطے کس وقت بے قرار نہ تھا
کوئی جہانِ میں کیا اور طرح دار نہ تھا
تری طرح مجھے دل پر تو اختیار نہ تھا
خرامِ جلوہ کے نقشِ قدم تھے لالہ و گل
کچھ اور اس کے سوا موسمِ بہار نہ تھا
وہ کون نالۂ دل تھا قفس میں اے صیّاد
کہ مثلِ تیر نظر آسماں شکار نہ تھا
غلط ہے، حکمِ جہنم کسے ہوا ہوگا
کہ مجھ سے بڑھ کے تو کوئی گناہگار نہ تھا
وفورِ بے خودی ٔبزمِ مے نہ پوچھو رات
کوئی بجز نگہِ یار ہوشیار نہ تھا
لحدکو کھول کے دیکھو تو اب کفن بھی نہیں
کوئی لباس نہ تھا جو کہ مستعار نہ تھا
تو محوِ گلبن و گلزار ہو گیا آسیؔ
تری نظر میں جمالِ خیال یار نہ تھا
٭٭٭