غزل
روش اُس چال میں تلوارکی ہے
موت عُشاقِ گنہگارکی ہے
گل وگلشن سے کبھی جی نہ لگائے
یہ صدامُرغِ گرفتارکی ہے
ہائے وہ ہم نفسانِ گلشن
یہ صدامُرغِ گرفتارکی ہے
رشکِ گلشن ہوالہیٰ یہ قفس
یہ صدامُرغِ گرفتارکی ہے
نکہتِ گل نہ صبابھی لائی
یہ صدامُرغِ گرفتارکی ہے
آکے بے پردہ ملیں وہ دمِ نزع
یہ دعاعاشقِ بیمارکی ہے
دل کی قیمت کوہیں کونین بھی کم
ہمت اب اس میں خریدارکی ہے
پیشِ محراب نہ کیوسجدے ہوں
صورت اس ابروئے خم دارکی ہے
چال وہ چل کہ نہ ہومحشرخیز
یہ روش چرخِ جفاکارکی ہے
مجھ کوہنگامہ ٔ محشرسے غرض
بس تمناترے دیدارکی ہے
سربلندوں کوہے جُھکنالازم
یہ صداگنبد ِدوارکی ہے
چاریارانِ نبی میں آسیؔ
تبعیت مجھے ہریارکی ہے
طلبِ راہِ خدامیں لیکن
پیروی حیدرِکرارکی ہے
٭٭٭