غزل
پھر مزاجِ اس رند کا کیوں کر ملے
جس کو اس کے ہاتھ سے ساغر ملے
یہ بھی ملنا ہے کہ بعد از صد تلاش
حد و ہم و فہم کے باہر ملے
کچھ نہ پوچھو کیسی نفرت ہم سے ہے
ہم ہیں جب تک وہ ہمیں کیوں کر ملے
ظاہر و مظہر میں فرق ایسا نہیں
پیر ہاتھ آیا تو پیغمبر ملے
میری آنکھیں اور اُس کی خاک پا
تیرے کوچے کا اگر رہبر ملے
وصل ہے سر جوشِ صہبائے فنا
پھر اگر کوئی ملے کیوں کر ملے
کعبہ، بت خانہ، کلیسا، صومعہ
پھرتے ہیں دردر کہ تیرا گھر ملے
کس قدر ٹھہرا بلند ان کا مقام
مل گیا مولا جسے حیدر ؓ ملے
ملنے کے پہلے فنا ہونا ضرور
پھر فنا جو ہو گیا کیوں کر ملے
آسی گریاں ملا محبوب سے
گل سے شبنم جس طرح رو کر ملے
٭٭٭