ہے اسی میں دلِ برہم زنِ تقدیر نہ کھینچ
مفت کرتا ہے غضب لانے کی تدبیر نہ کھینچ
اب بھی کہتا ہوں نہ کھینچ ادبتِ بے پیر نہ کھینچ
پنجہ ٔ شانہ سے تو زلفِ گرہ گیر نہ کھینچ
دل سے دیوانے کو مت چھیڑیہ زنجیرنہ کھینچ
جُز لحد اب نہیں آرام، وہ آئے بھی تو کیا
آچکا اور ہی پیغام، وہ آئے بھی تو کیا
جا چکا ہاتھ سے اب کام، وہ آئے بھی تو کیا
ہم تو بچتے نہیں تا شام، وہ آئے بھی تو کیا
اے دعائے سحری منتِ تاثیرنہ کھینچ
میں تو وہ ہوں کہ ہے ہرجزو یہاں نشۂ عشق
عنصر و کا لبدو مایہ جاں نشۂ عشق
پر سبک سرہیں عدو اور گراں نشۂ عشق
اے ستم پیشہ مرے بعد کہاں نشۂ عشق
دیکھ خمیازۂ حسرت ہے یہ شمشیر نہ کھینچ
وہ مرض یہ تپِ دل ہے کہ خدا خیر کرے
کوئی دم جانِ حزیں دیکھئے دم لے کہ نہ لے
شیرۂ جاں سے بنے ہیں دہن ولب جس کے
ہے دوا میری وہی، سو نہیں ممکن کہ ملے
چارہ گر رنج ومصیبت پے تدبیر نہ کھینچ
سیب جاں بخشِ ذقن جو نہیں ممکن کہ ملے
گو علاجِ تپِ دل ہو نہیں ممکن کہ ملے
مدعا اس سے یہ ہے گو نہیں ممکن کہ ملے
ہے دوا میری وہی سو نہیں ممکن کہ ملے
چارہ گر رنج ومصیبت پئے تدبیر نہ کھینچ
حال میں کون پریشان کے ہوتا ہے شریک
اہلِ غم کوکوئی پہچان کے ہوتا ہے شریک
کوئی ہو وجہِ طرب، جان کے ہوتا ہے شریک
روزِ بد کون بھلا، آن کے ہوتا ہے شریک
انتظارِ اثر اے نالہ ٔ شب گیرنہ کھینچ
تونے بے درد کبھی آکے نہ کی گرم بغل
کیا گوار انہیں اس سے بھی جو دل جائے بہل
جیتے جی اس سے جدا کرکے نہ کر توبے کل
اتنی فرصت دے ستم گرکہ پہونچ جائے اجل
دم کے دم اور بھی سینے سے مرے تیرنہ کھینچ
زہدو تقویٰ کے خیالات ہیں سب لاف وگزاف
غمِ دل کی نہ دوا کوئی کرے ہے انصاف
ہو مکدر کوئی آسیؔ کہے دیتاہوں میں صاف
مومنؔ آکیشِ محبت میںکہ سب کچھ ہے معاف
حسرتِ حُرمتِ صہبا و مزا میرنہ کھینچ
٭٭٭