قطعات صفحہ نمبر۵
ہستی میں عدم سے کیا وہ لایا ہم کو
آرام سے سوتے تھے جگایا ہم کو
پھونکی نہیں روح قالب خاکی میں
درپردہ یہ خاک میں ملایا ہم کو
٭٭٭
کیا حسرت دید ہے خدایا ہم کو
مانندِ نظر جس نے پھرایا ہم کو
کہتا ہے کہ میں نورِ نظر تیرا ہوں
یوں بھی سہی پر نظر نہ آیا ہم کو
٭٭٭
کیوں نقطۂ موہوم بنایا ہم کو
کیوں دائرہ فنا میں لایا ہم کو
وہ سہو نویس تھانہ ہم حرفِ غلط
کیوں صفحۂ ہستی سے مٹایا ہم کو
٭٭٭
آنکھیں کھولیں نہ کچھ دکھایا ہم کو
دم بھر کیلئے یہاں وہ لایا ہم کو
ہر چندکہ سینے میں ہے دریا مواج
پرمثل حباب سے بنایا ہم کو
٭٭٭
ہم رنگِ سراب ہے بنایا ہم کو
مانند ِحباب ہے بنایا ہم کو
ہر چندکہ مثلِ موج دریا دل ہیں
پرنقش برآب ہے بنایا ہم کو
٭٭٭
اشکوں کی طرح ہے جو روانی ہم کو
بے جا ہے کسی کی میہمانی ہم کو
سب کچھ ہے نہاں گرہ میں اپنی آسی
دانا درکار ہے نہ پانی ہم کو
٭٭٭
تیرا ذکرِ جمال ہے گلشن میں
ہرغنچہ وگل نہال ہے گلشن میں
چلنے لگے تیری چال طائوسِ چمن
عاشق اب پائمال ہے گلشن میں
٭٭٭
کیا چیز برائی سے الگ ہوتی ہے
درماندہ یہ عقل وقت ِتگ ہوتی ہے
نازک بدنی بھی پے سے خالی نہ ہوئی
پھولوں کی بھی پنکھڑی میں رگ ہوتی ہے
٭٭٭
جو چاہے کہ منصبِ ہدایت ہاتھ آئے
فرشِ رہ رہروانِ عالم ہو جائے
جب تک نہ ہو مثلِ جادہ سینہ پامال
کس طرح کسی کو تابہ منزل پہونچائے
***