غزل
میں جو الزامِ محبت میں گرفتار ہوا
قیدی سلسلہ حیدرِ کرّار ہوا
سوئے جنت مجھے اس کوچہ سے کیوں لے جاتے
جان دی آپ پر اے جان گنہ گار ہوا
آپ بھیجا مجھے اور آپ بلایا اس نے
بارِ احساس سے کسی کے دامن گراں بار ہوا
جز فنا راہِ رہائی نہ اُسے ہاتھ آئی
جو ترے دام ِ محبت میں گرفتار ہوا
میں نہ کیوں محشرِ دیدار کو مقتل سمجھوں
کشتۂ تیغ ادائے نگہِ یار ہوا
ہمت اُس کی ہے ،دل اس کا ہے، جگر اس کا ہے
جان کو بیچ کے تیرا جو خریدا ہوا
بک گئے روزِ ازل پیرِ خرابات کے ہاتھ
ہم ہوئے تم ہوئے یا آسیؔ مے خوار ہوا
٭٭٭