غزل
ساتوں فلک ہیں نقطہ ناف قضائے دل
یعنی نگاہ ہو تو نہیں کچھ درائے دل
دل جس سے لگ گیا وہی نکلا بجائے دل
یا یوں کہو کہ کچھ بھی نہیں ہے سوائے دل
کچھ ضعف ہے کہ پست ہوئے نالہ ہائے دل
یا چوٹ کھا کے پھوٹ گیا ہے درائے دل
سوگند بے دلوں کی تجھے اے خدائے دل
دینا ہو کچھ مجھے تو نہ دینا سوائے دل
انسان کے لئے نہیںدولت سوائے دل
در در پھر جہان میں ہو کر گدائے دل
کچھ بھی نہ آرزو ،ہو یہ ہے دل کی آرزو
کوئی نہ مدعا ہو یہ ہے مدعائے دل
اے تیغِ بے گنہ کش ابروئے دل رُبا
ناخن ترا ہے عقدۂ مشکل کشائے دل
تم اور دل میں، اب تو کہوں گا پکار کر
دل کی نہ ابتدا ہے ،نہ ہے انتہائے دل
مانگوں جو میں بہشت تو دوزخ نصیب ہو
تیرے سوا ہو کچھ بھی اگر مدعائے دل
عیسیٰ وہی جو زندہ کرے دل مَرا ہوا
بس خضروہ ادھر کو جو ہو رہنمائے دل
کشور کشا وہی جسے ہو فتح دل نصیب
شاہی اسی کی جو کہ ہو فرماں روائے دل
رہتا ہوں تیرے دل میں یہ دعویٰ ہے آپ کا
فرمائیے تو کیا ہے مرا مُدّعائے دل
دل تھا وہ جس نے کھود کے پھینکا پہاڑ کو
جانِ اپنی کوہ کن کی طرح کر فدائے دل
رہتے ہو دل میں، واقفِ اسرار دل ہو تم
پورا کرو بغیر کہے مدعائے دل
دلبرسے ملنے کی جو ہوس ہے تو دل کو ڈھونڈھ
راہِ وصال یار ہے ذوقِ لقائے دل
ہوتی ہے مستحیل یہ دوزخ کی آگ سے
دیکھو نہ گرم ہو کہیں دل میں ہوائے دل
توحید مدعا و رہِ عشق واہ وا
بے تابی فراق میں تا اوجِ بام چرخ
دیکھا جو غور سے تو نہ تھا کچھ سوائے دل
صدقے میں اپنے بازوئے اطہر کے یا علیؓ
آسی کو اپنے کیجئے خیبر کشائے دل
٭٭٭