غزل
فلک سے داد پا جائوں عدالت ہو تو ایسی ہو
جدا ہوتے ہیں وہ ہم سے قیامت ہو تو ایسی ہو
رخ معنی دکھائی دے جو صورت ہو تو ایسی ہو
دل صاف آئینہ بن جائے حیرت ہو تو ایسی ہو
دل بے مدعا پایا جو دولت ہو تو ایسی ہو
خدا سے پھر نہ کچھ مانگا قناعت ہو تو ایسی ہو
مرا ہر حرف نکلا شعلہ زار وادی ایمن
بہار جلوہ رنگ طبیعت ہو تو ایسی ہو
مروں بھی اب کہ سانس آنے کی گنجائش نہیں باقی
ہجومِ یاس کی سینے میں کثرت ہو تو ایسی ہو
ہم ایسے غرقِ دریائے گنہ جنت میں جا نکلے
تو ان نطمۂ موجِ شفاعت ہو تو ایسی ہو
قدِخم ہے گریباں گیر کنٹھا بن کے قاتل کا اگر
مگر بے تابی ذوق شہادت ہو تو ایسی ہو
فرشتے سر جھکائیں تیرے سجدہ کو تواضع سے
سن او مٹی کے پتلے آدمیت ہو تو ایسی ہو
اگر دانا ملا پانی نہ طفلِ اشک نے مانگا
وہی دانا، وہی پانی، قناعت ہو تو ایسی ہو
نہ دن بھر چین آتا ہے نہ نیند آتی ہے راتوں کو
کسی کے حال پر انکی عنایت ہو تو ایسی ہو
دلِ کافر کی اندھیاری معاذ اللہ معاذ اللہ
مگر تاریکی شب ہائے فرقت ہو تو ایسی ہو
تعجب ہے کہ تجھ کو اپنے سینے میں نہ کیوں ڈھونڈھا
کسی کو اپنی ہستی سے جو غفلت ہو تو ایسی ہو
جہاں ملنے کی ٹھہرے مجھ سے میں بھی اے صنم گم ہوں
سوا تیرے نہ ہو کوئی جو خلوت ہو تو ایسی ہو
گِرا جو قطرۂ خوں لا لہ زارِ داغ حسرت ہے
مگر شادابی رنگ شہادت ہو تو ایسی ہو
پکارا اس نے اپنا نام لے کر رات آسی کو
نہیں اب کچھ بھی غیریت ،محبت ہو تو ایسی ہو
٭٭٭