غزل
اس طرح درد سے لبریز جو تقریر نہ ہو
سخن آسی شیدا غزل میر نہ ہو
نہ سہی غیر مری خوبی تقدیر نہ ہو
وہ چلے آئیں اگر کوئی عناں گیر نہ ہو
منہ ترا چشم سخن سنج کی تصویر نہ ہو
جو خموشی میں بھری شوخی تقریر نہ ہو
دیکھ اے حسن دل آرا ، کوئی دل گیر نہ ہو
نوجوانوں کو سکھا دے کہ وہ بے پیر نہ ہو
صاف دیکھا ہے کہ غنچوں نے لہو تھوکا ہے
موسمِ گل میں الٰہی کوئی دل گیر نہ ہو
قید خانے میں کوئی غیرتِ یوسف بھی رہے
دل اٹک جائے، نہ ہو پائوں میں زنجیر نہ ہو
جس کو دیکھا اسے چھاتی سے لگائے رکھا
دل جسے کہتی ہے خلقت تیری تصویر نہ ہو
ہائے وہ حال کہ گھبرا کے وہ خود بول اُٹھے
دل کو پکڑے ہوئے کیوں بیٹھے ہوئے دل گیر نہ ہو
تھک گیا نالہ، جگہ سے نہ بلا وہ ظالم
نوجواں یار ہمارا فلک پیر نہ ہو
مجھ سے دیوانے کو روکیں گے یہ مجلس والے
قید زنجیر تیری خوبیِ تقریر نہ ہو
آکے پھر جانہ سکا پائے خیالِ جاناں
چشم بے خواب مگر دیدۂ زنجیر نہ ہو
ٹکڑے ہو کر جو ملی کوہ کن و مجنوں کو
کہیں میری ہی وہ پھوٹی ہوئی تقدیر نہ ہو
چاند سنتے تھے مگر غیرتِ خورشید وہ ہیں
اُن کے آنے میں یہی باعثِ تاخیر نہ ہو
وہ بھی کچھ عشق ہے جودرکی لذت نہ چیخے
وہ بھی نالہ ہے جوحسرت کشِ تاثرنہ ہو
جی ہے دنیا سے خفا بہرِ خدا جانے دے
ناتوانی تو میرے پائوں کی زنجیر نہ ہو
ہائے اُس شخص کی قسمت جسے وہ روگ ملے
جز ترے ملنے کے جس کی کوئی تدبیر نہ ہو
کوئے جاناں سے ارادہ ہے نکل جانے کا
یا الٰہی کوئی جز موت گلو گیر نہ ہو
باندھتے ہیں سرِ فتراک سے پر ڈر ڈر کر
کہ خزانِ چمن حسرتِ نخچیر نہ ہو
حاصلِ صحبتیِ غم ناک بجز غم کیا ہے
دل مرا لیتے ہو، ڈرتا ہوں کہ دل گیر نہ ہو
جس نے منہ بندکیارات میرے نالے کا
لذت ِجاشنی ِحسرتِ تاثرنہ ہو
آج بچپن میں تو ہیں فتنۂ افلاک مرید
نوجوانی میں فلک کا بھی کہیں پیر نہ ہو
زلف سلجھانے میں گھبرا کے یہ کہنا اُن کا
سی دیوانے کی الجھی ہوئی تقریر نہ ہو
کار ساز یہی آسی کی دعا ہے تجھ سے
کام میرا کوئی منت کشِ تدبیر نہ ہو
٭٭٭