غزل
٭………عاصم شہنواز شبلی
جو بات اچھی نہیں لگتی اصولاً
اسے ہم چھوڑ دیتے ہیں یقینا
نکالو دودھ کی نہریں یقینا
مگر ملتی ہے شیریں اتفاقاً
زباں لکنت زدہ بد نیتوں کی
ہم اپنی ببات کہہ دیتے ہیں فوراً
دلوں کے بیچ اک دیوار سی ہے
ملیں بھی ہم تو اب ملتے ہیں رسماً
بدن اس کا ہے خوشبو چاند نغمہ
تبھی تو ہم جھکے ہیں احتراماً
یہ مت سمجھو ہے رسّی دور مجھ سے
کبھی ہم ڈھیل دیتے ہیں قصداً
یہی اب شعر کا معیار ٹھہرا
رویہّ کھردرا تھا احتجاجاً
رفیقوں سے تمہیں ملنا ہے عاصمؔ
نیام و تیغ رکھ لو احتیاطاً
٭٭٭٭