غزل
نہ اپنا باقی یہ تن رہے گا نہ تن میں تاب وتواں رہے گی
اگر جدائی میں جاں رہے گی تمہیں بتائو کہاں رہے گی
مثرہ کے تیروں سے چھان دل کو جو چھاننی ہونگہ کوگہری
کھنچی ہوئی دل سے کب تلک یوں تری بھنئوں کی کماں رہے گی
خدا نے منہ میں زبان دی ہے تو شکر یہ ہے کہ منہ سے بولو
کہ کچھ دنوں میںنہ منہ رہے گانہ منہ میں چلتی زباں رہے گی
بہار کے تخت وتاج پر بھی گلوں کو روتے ہی ہم نے دیکھا
کہ گاڑ کر خاروخس کا جھنڈ اچمن میں اک دن خزاں رہے گی
دکھائے گا اپنا جب وہ قامت مچے گی یاں طرفہ اک قیامت
نہ واعظوں میںیہ ذکر ہوگا نہ مسجدوں میں اذاں رہے گی
بجے گا کوچوں میں یوں ہی گھنٹہ اذاں یوں ہی ہوگی مسجدوں میں
نہ جب تلک ان کو توملے گا تمام آہ وفغاں رہے گی
نہ دیں گے جب تک نگہ کو دل ہم ، قرار حاصل نہ ہوگا دل کو
کبھی نہ ہم سانس لے سکیںگے، اڑی ہوئی اک سناں رہے گی
نہ دیں گے جب تک نگہ کو دل ہم، قرار حاصل نہ ہوگا دل کو
کبھی نہ ہم سانس لے سکیںگے اڑی ہوئی اک سناں رہے گی
زباںپہ شہباز کی ہیں جاری مدام شیریں لبوں کی باتیں
خدا نے چاہا تو نوک خامہ ہمیشہ رطب اللساں رہے گی
+++