غزل
زِیر سے پیش ہو گیا ہے تو
دور اندیش ہو گیا ہے تو
پہلے غافل نہیں تھا تو مجھ سے
اب، کم و بیش ہو گیا ہے تو
جان کو اپنی خود جلاتا ہے
قہرِ درویش ہو گیا ہے تو
کوئی اپنا ہی اب نہیں لگتا
اس قدر خویش ہو گیا ہے تو
راہ میںہر قدم تامّل ہے
وہ پس و پیش ہو گیا ہے تو
منعکس ہورہے ہیں سب تجھ میں
آئنہ کیش ہو گیا ہے تو
گُل مزاجی تری کہاں ہے سخن ؔ
ٓٓآج کل نیش ہو گیا ہے تو
**************