فراغِ وقت میسر ہو خواب سنتے رہیں
ترے سخن کے مہکتے گلاب سنتے رہیں
جو تار چھیڑ رہے ہیں ہر ایک دھڑکن کے
تری ادا کے یہ سارے رباب سنتے رہیں
ترے سخن کو سماعت کے ہر حصار میں لیں
جہاں سے کٹ کے وہ تیرا خطاب سنتے رہیں
یہ التفات بھی قربت کے ہمرکاب ہے گر
تو دھڑکنوں کے سوال و جواب سنتے رہیں
تمام گزری ہوئی ساعتوں کے لب کھولیں
کتابِ ہجر کا سارا نصاب سنتے رہیں