غزل
کچھ بھی نہیں رہا یہاں ، آپ سے کیا چھپائیے
دل ہی میں جب لہو نہیں ، شور کہاں مچائیے
دوری فریب ہے مگر ، دوری میں راستہ بھی ہے
بیٹھے رہیں گے کب تلک ، اب انھیں ڈھونڈ لائیے
سر میں جو گونجتی بھی ہے ،ہونٹوں پہ ڈولتی بھی ہے
کس کو ہے تاب غم یہاں ، کس کو یہ دھن سنائیے
سرحد شوق سے پرے، شام کی بستیاں بھی ہیں
جب یہ سفر تمام ہو ، آگے کدھر کو جائیے
ڈھل گئی رات دیکھتے ، راہ رخ امید کی
اب ہمیں نیند آ گئی ، اب نہ ہمیں ستائیے
آنکھیں تھیں چاہتوں بھری ، چہرے جو مہربان تھے
اب وہ نظر نہ آئیں گے ، اب انھیں بھول جائیے
جان ہے تو جہان ہے ، دل ہے تو آرزو بھی ہے
عشق بھی ہو رہے گا پھر ، جان ابھی بچائیے
کھو گئے خواب چشم و لب ، تاب طلب نہیں رہی
دل میں وہ زور اب کہاں ،اب یہ دکاں بڑھائیے
ابرار احمد