donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Abrar Ahmed
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* ہم آے تھے کچھ سہمے ، کچھ گھبراۓ ہوے *

ہم آے تھے
کچھ سہمے ، کچھ گھبراۓ ہوے
کچھ شانت ، کہیں سے دکھتے ہوے
امید و بیم کے سایوں میں
سہمے سمٹے بھرآے ہوے
بےداغ سفید لباسوں والے
مشفق چہروں ،کومل ہاتھوں اور امید سے بھری ہوئ
آنکھوں کے دلاسے ، ڈھارس پر
ہم دکھن میں جلتے آے تھے
ہم تھکن میں لپٹے آے تھے
کچھ زخموں کو سلنا تھا کہیں
کچھ گھاؤ ہمارے بھرنے تھے
کچھ ٹیسیں مدھم ہونا تھیں
کچھ رنگوں کو لوٹ آنا تھا
اس مجبوری ، لا چاری سے
آخر کو نکلنا تھا ہم کو
اور واپس لوٹ کے جانا تھا
پر ایسا کہاں ہو پاتا ہے
اور سدا کہاں ہو پایا ہے
ہم اپنی بکھری سانسوں میں محصور ہوے
ہم دھوپ سے ، پھول سے چہروں سے اور باغ تمنا کی خوشبو سے دور ہوے
وہ کومل ہاتھ کٹھور ہوے
امید بھری ان آنکھوں کے بہلاوے ماند پڑے آخر
اب ہر دم سوکھتی مٹی پر
ان دیکھے خوابوں کے آنسو ،ہر لحظہ گرتے رہتے ہیں -----
کہیں موت کے پہرے میں جاگے
امید کے بستر میں سوۓ
ہر آنے جانے والے کا اب رستہ تکتے رہتے ہیں
ان پہیوں والی کرسی پر ،ان لوہے کے دروازوں میں
ہم پل پل تھکتے جاتے ہیں
جو ہم کو نہیں سننا ہے ابھی
آواز وہی اپنی جانب اب ہم کو بلاتی رہتی ہے
جس گھاٹ نہیں لگنا ہے ہمیں
یہ کشتی جاں ، اس سمت کو بہتی جاتی ہے
یہ دھند ذرا چھٹ جائے اگر
یہ پردہ ذرا ہٹ جائے اگر
یہ بند دریچے کھل جائیں
پھر چلنے لگے ہوا شاید
کوئی آنسو کام آ جائیں کہیں
شاید ہو قبول دعا کوئی
ان چاروں طرف سے بڑھتی ہوئ دیواروں میں دم گھٹتا ہے
دل گھبراتا ہے
.... کھڑکیاں کھولو ، ہٹ جاؤ
یہ روشنی اندر آنے دو
ہمیں پھر سے ہنسنے رونے دو
ہمیں گانے دو ، ہمیں جانے دو!!
ہیں کام ابھی کچھ کرنے کو
جو بچپن دور ہوا ہم سے
ان گلیوں میں پھرنا ہے ہمیں
جو بند ہوے آخر ہم پر ، ان دروازوں سے
ہم کو لپٹ کر رونا ہے
جس شور نے توڑ دیا ہم کو
اس شور میں پھر رہنا ہے ہمیں
جو ہم کو اچھے لگتے تھے
ان لوگوں سے ملنا ہے ہمیں
تم ، ہم سے ملا کرتے تھے جہاں
اس راہ پہ پھر جانا ہے ہمیں
جن آنکھوں کے ہم تارے تھے
ان آنکھوں سے بہنا ہے ہمیں


ابرار احمد

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 339