مٹی تھی کس جگہ کی
بے فیض ساعتوں میں
مونھ زور موسموں میں
خود سے کلام کرتے
اکھڑی ہوئی طنابوں ، دِن بھر کی سختیوں سے
اکتا کے سو گئے تھے ...
بارش تھے بے نہایت
مٹی سے اٹھ رہی تھی
خوشبو کسی وطن کی
خوشبو سے جھانکتے تھے
گلیاں ، مکاں ، دریچے
اور بچپنے کے آنگن
اک دھوپ کے کنارے
آسائشوں کے میداں
اڑتے ہوے پرندے ، اک ٹھہرے آسماں پر
دو نیم باز آنکھیں
بیداریوں کی زد پر
تا حد خاک اڑتے
بے سمت ، بے ارادہ
کچھ خواب فرصتوں کے ، کچھ نام چاہتوں کے
کن پانیوں میں اترے
کن بستیوں سے گزرے
تھی صبح کس زمیں پر
اور شب کہاں پہ آئی
مٹی تھی کس جگہ کی
اڑتی پھری کہاں پر
اس خاک داں پہ کچھ بھی دایم نہیں رہے گا
ہے پاؤں میں جو چکّر ، قایم نہیں رہے گا
دستک تھی کن دنوں کی
آواز کن رتوں کی
خانہ بدوش جاگے
خیموں میں اڑ رہی تھیں
آنکھوں میں بھر گئی تھیں
اک اور شب کی نیندیں .......
اور شہر بے اماں میں پھر صبح ہو رہی تھی
ابرار احمد