ہوا ہر اک سمت بہ رہی ہے
ہوا ہر اک سمت بہ رہی ہے
جلو میں کوچے مکان لے کر
سفر کے بے انت پانیوں کی تھکان لے کر
جو آنکھ کے عجز سے پرے ہیں
انھی زمانوں کا گیان لے کر
ترے علاقے کی سرحدوں کے نشان لے کر
ہوا ہر اک سمت بہ رہی ہے
زمین چپ ، آسمان وسعت میں کھو گیا ہے
فضا ستاروں کی فصل سے لہلہا رہی ہے
مکاں ، مکینوں کی آہٹوں سے دھڑک رہے ہیں
جھکے جھکے نم زدہ دریچوں میں
آنکھ کوئی رکی ہوئ ہے
فصیل شہر مراد پر ، نا مراد آہٹ اٹک گئی ہے
یہ خاک ، تیری مری صدا کے دیار میں پھر بھٹک گئی ہے
دیار شام و سحر کے اندر
نگار دشت و شجر کے اندر
سواد جان و نظر کے اندر
خموشی بحر و بر کے اندر
ردا یے صبح خبر کے اندر
اذیت روز و شب میں
ہونے کی ذلتوں میں نڈھال صبحوں کی اوس میں
بھیگتی، ٹھٹھرتی خموشیوں کے بھنور کے اندر
دلوں سے باہر، دلوں کے اندر
ہوا ہر اک سمت بہ رہی ہے ...
ابرار احمد