donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Abrar Ahmed
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* دو طرف ایستادہ مکاں *

دو طرف ایستادہ مکاں
اجلی بستی کے رونق فزا وسط میں
چاند اور قمقموں کی سفیدی میں لپٹے
منقش در و بام کے درمیاں
ایک سرسبز کنج ِ تمنا میں بیٹھا ہوا
میں کسی سے مخاطب تھا
اور کہہ رہا تھا
کہ اہل ِ زمیں خاک ہیں
اور اسی خاک میں سو رہیں گے
کہیں سبزیوں میں اگیں گے
کہیں بارشوں میں دُھلیں گے
جہاں سے بھی ہم تم ہوئے دربدر -
وہاں کس لیئے تھے
یہاں کس لیئے ہیں
یہ پانی ، یہ سبزہ ، یہ روئیدگی -
یہ سڑکیں یہ رستے
یہ ہر لحظہ کروٹ بدلتی ہوئی زندگی
کس کے مصرف میں ہے
کس کے قبضے میں ہے
یہ رعونت ہے کیا ، خاکساری ہے کیا
وہ تمہارا مکاں ، یہ ہمارا مکاں
یہ مرے لوگ ہیں ، وہ ترے لوگ ہیں
بے سبب ہے یہ سب
اپنے ہونے کے مفہوم کے
واہمے کی طلب ہے یہ سب
عرصہ ء خواب ہے یا حقیقت کوئی
کس کو معلوم ہے
شہر سے شہر جڑتے ہوئے
ملک سے ملک لڑتے ہوئے
فتح مندی ہے کیا
اور ہزیمت ہے کیا
سرحدوں کے نشاں
ہے لکیروں کا اک بدگماں سلسلہ
ساری دنیا ہے میری
یہ دنیا بھی کیا
یہاں شور ہے ، خامشی ہے
اندھیرا ، اجالا ہے
اور جو بھی ہے
اس میں جیتے ہیں ہم
اس میں مرتے ہیں ہم
اور ہم بھی ہیں کیا
اپنے ہونے کی پرچھائیاں
جانتے کچھ نہیں
پھر بھی ہم کو یہاں
چند غم اور خوشیاں ہی ہیں
تھوڑا اسباب ِ رنج ِ سفر
زاد ِ راہ
اس کے دلکش نظاروں میں
رہنے سے ہم سیر ہوتے نہیں
ڈھیر ہوتے نہیں
اور میں کہہ رہا تھا
زمانہ محبت کی کروٹ ہے
ملنے بچھڑنے کا آزار ہے
سرخوشی ہے کہیں اور آ نسو کہیں
بادلوں کی قطار یں ہیں ہر سو رواں
پر ہمارے لیئے چلچلاتی ہوئی دھوپ ہے
پیاس ہے ہر طرف تلملاتی ہوئی
ایک صحرا سا ہے تا بہ حد ِ نظر
جس میں جائے اماں سے
نکالے ہو ؤں کا ٹھکانہ نہیں
اور انساں خسار ے میں ہے
لحظہ لحظہ ہے
معدومیت کے اندھیرے میں گرتا سنبھلتا ہوا -
بہت کم ہے عمر ِ رواں
سو گزا ر یں اسے
ایک دوجے کی آ نکھوں میں تحلیل ہو کر
لپٹ کر کسی بوڑھے برگد کے نیچے
شب و روز کی الجھنوں سے پرے
وقت سے ماورا
خواب کی سر زمیں پر -
میں یہ کہہ رہا تھا
کہ مطلب نہیں ہے کسی چیز کا
کوئی تم ہو ، نہ ہم
کوئی اپنا نہیں
کچھ پرایا نہیں
بیش و کم کچھ نہیں
پیش و پس کچھ نہیں
رنگ ِ عہد ِ گزشتہ بھی نا پید ہے
اور موجود کے رخ پہ بھی کچھ نہیں
کل کی کس کو خبر ہے یہاں
کون جانے کہاں
کون سے موڑ پر
ایک چھوٹی سی لغزش کہیں
عالم ِ ممکنات ِ جہاں میں
ہمیں خواب کر دے
عدم سے ملا دے -
میں سیاک ِ صبح ِ ازل ہوں
کہ مقلس ہوں خاک ِ ابد کا
مگر خاک داں پر بہت بے بضاعت ہوں ، لاچار ہوں -
نکالو مجھے
خواب اور وسوسے کی پکڑ سے نکالو
کہ اب اس زمیں پر
ٹھکانہ نہیں کوئی میرے لیئے
اور یہ دل ، میرا دل
کتنی عمروں کا ترسا ہوا
اور بنجر زمینوں میں بھٹکا ہوا
رک رہے گا کہیں ، تھم رہے گا کہیں -
سو ، مجھے لے چلو
اپنی ذرخیز مٹی کی جانب
جہاں جھومتی مسکراتی زمینیں ہیں
فصلیں اگلتی ہوئی
جہاں پر ہے مہکار گندم کی
چڑیوں کی
اور بلبلوں کی ہیں چہکاریں
ٹھنڈی ہوا ؤں میں بکھرے ہوئے زمزموں کی طرف
جہاں کتنی صدیوں کی خاموشیوں میں
اترتی ہیں شامیں
بھٹکتے ہیں آہو اور انساں -
میں یہ کہہ رہا تھا
کہ انساں ہی انساں کا غم ہے
خوشی ہے
کہ انساں ہی انساں کو ملتا بھی ہے
چھوڑ جاتا بھی ہے
اور دل میں دھڑکتا بھی ہے
اور کرتا بھی ہے
دل کو اندوہ میں مبتلا
ایک دوجے میں پیوست ہے
اور علیحدہ بھی ہے -
کہ انساں ہی انساں کو زخمی بھی کرتا ہے
اور زخم بھرتا بھی ہے
اور انساں ہی انساں کی آ نکھوں کا آ نسو ہے
اک روز گرتا بھی ہے
اور رلاتا بھی ہے
اور - میں زخم ہوں
جانے کس کا لگایا ہوا
سخت مرہم طلب ہوں
مجھے ڈھانپ دو مہرباں چادروں میں
چھپا لو کہیں اپنے سینے کے اندر
مرے دل کو ا پنی حنائی ہتھیلی پہ رکھ لو
مسل دو ، کچل دو اسے -
میں آ نسو ہوں
خواب ِ تعلق سے گرتا ہوا
اپنی چشم ِ فسوں ساز میں مجھ کو بھر لو
بہا دو مجھے -
کہیں بھی نہیں مجھ کو جانا مگر
تم مجھے لے چلو ساتھ اپنے
میں اُن اجنبی راستوں میں بھٹکتا پھروں گا
کسی کھوہ میں چھپ کے دیکھا کروں گا
کہ کیسی ہیں صبحیں
کہ کیسی ہیں راتیں -
اُس جگہ پر ستارے
زمیں کی طرف کس طرح دیکھتے ہیں
میں جاگوں گا راتوں کو
اور چاندنی ڈھونڈھ لایا کروں گا
تمہاری جبیں کے لیئے
میں بھی دیکھوں گا خواب
اور سویا کروں گا
تمہاری گھنی نیند کے آستاں پر
تمہارے لیئے پھول چنتا رہوں گا
تمہارے اشاروں پہ چلتا رہوں گا
کہ شاید
اسی بندگی میں ہی میرے لیئے
کوئی معنی ہوں پیدا -
مجھے لے چلو
اپنے بوڑھے بزرگوں کی مجلس میں
جن کی بصارت کی بجھتی ہوئی لو میں اک روشنی ہے
سو میں اُن کی آ نکھوں سے دیکھا کروں گا
مجھے اپنے زندہ درختوں کے اندر ، کہیں
اپنے پیاروں کی قبروں پہ لے کے چلو
میں تمہارے لیئے
اور اپنے لیئے
اور اُن کے لیئے
خاک کی سربلندی پہ رویا کروں گا
میں کشکول ہوں
اپنے سامان میں باندھ لو
ایک چشم ِ سوال آشنا
اپنی آرام گہ میں
کہیں ایک کونے میں رکھ دو
مجھے ا پنے دل میں جگہ دو
مجھے اپنے پھولوں کی آب و ہوا میں
کوئی دیر رہنے دو ، جینے دو
میں کہہ رہا تھا -
نہیں تو مجھے اپنی ٹھوکر پہ رکھ لو
نظر سے گرا دو
یہاں سے اٹھا دو -
میں تم سے مخاطب تھا
اور کہہ رہا تھا
یا شاید ؟ نہیں کچھ نہیں
میں تو کچھ بھی نہیں کہہ رہا تھا
کسی سے -
************************

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 364